۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
مولانا سید احمد علی عابدی

حوزہ/اگر مسلمانوں نے رسول ﷺکے بعد خلافت اہلبیتؑ کو دے دی ہوتی تو دنیا کا نقشہ کچھ اور ہی ہوتا۔ دنیا کا نقشہ اس وقت تک بگڑا رہے گا جب تک اہلبیت ؑ کے ہاتھ میں نہیں آئے گی ۔آپ حقدار کا حق دے دیجئے یہ دنیا صحیح ہو جا ئے گی۔

حوزہ نیوز ایجنسی | ابتدائے تاریخ اسلام سے جو مسئلہ مورد بحث رہا ہے وہ اہلبیت ؑکی ولایت اور امامت کا مسئلہ ہے چونکہ لوگ شروع سے ہی اس کی حقیقت سےنا واقف تھے لہذا جس کو چاہا جب چاہا کرسی خلافت پر بٹھا دیا اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ آج دنیا کے سارے اختلافات اور سارے مسائل، یہ دہشتگردی یہ قتل وغارت اس بناپر ہیں کہ دنیا اہلبیت ؑ کے در سے دور ہوگئی ہے ۔ اگر دنیا اہلبیت کے در سے دور نہ ہوتی اور یہ منصب امامت اہلبیت ؑ کے پاس ہوتا تو دنیا کا نقشہ کچھ اورہوتا ۔
    آج سے کچھ سال پہلے ندوۃ العلماء سے شائع ہونے والے رسالہ ’’البعث الاسلامی ‘‘ نے اپنے ایک شمارے میں یہ بات لکھی تھی (اگر مسلمانوں نے رسول ﷺکے بعد خلافت اہلبیتؑ کو دے دی ہوتی تو دنیا کا نقشہ کچھ اور ہی ہوتا )اگر کل یہ نقشہ اس بنا پر بگڑ گیا تھا کہ خلافت و ولایت اہلبیتؑ کو نہیں دی تھی تو اس وقت تک بگڑا رہے گا جب تک اہلبیت ؑ کے ہاتھ میں نہیں آئے گی ۔آپ حقدار کا حق دے دیجئے یہ دنیا صحیح ہو جا ئے گی۔
     اگر آج ہم لوگوں کے سامنے امامت اور امام کی اہمیت واضح ہو جائے تو ہماری زندگی خود بخود بدل جائے گی۔ امام ؑ نے جب یہ جملہ فرمایا :
ھل یعرفون قدر الامامۃ و محلھامن الامۃ فیجوز فیھااختیارہم
    یہ لوگ جو امام کو منتخب کر رہے ہیں کیا انہیں معلوم نہیں کہ امامت ہوتی کیا ہے ،اگر یہ لوگ اس کی قدر منزلت کو جانتے ہوتے تو ان کو اختیار تھا کہ کسی کو امام منتخب کرلیں۔ 
     ان الامامۃ اجل قدرا واعظم شیئا واعلیٰ مکانا وامنع جانبا وابعدغورا من ان یبلغھا الانسان بعقولھم 
    امامت کی قدر بڑی ہے، شان عظیم ہے ،منزلت رفیع ہے ،بڑی گہری ہے بڑی وسیع ہے، اور اتنی وسیع ہے کہ تمام لوگوں کی عقلیں مل کر بھی امامت کی منزلت کو نہیں سمجھ سکتیں ۔یعنی اگر پوری دنیا مل کر بھی اپنی عقل کو استعمال کرے توبھی امامت کی شان تو درکنار امامت کی گردپا کو بھی پہچان نہیں سکتی تو جب سارے لوگوں کی عقلیں مل کر بھی امامت کو نہیںپہچان سکتیں تو کیاوہ لوگ کہ جن کو قرآن تک نہ آتا ہو وہ امام کو منتخب کرپائیںگے ؟؟
     او ینالوھابآرائھم اواقیموااماماباختیارھم ان الامامۃ خص اللہ عزوجل بھا ابراہیم الخلیل بعد النبوۃ 
    امامت وہ ہے جو اللہ نے ابراہیمؑ کو دی۔ جناب ابراہیم الوالعزم پیغمبر ہیں ۔خدا نے جناب ابراہیم کو نبی بنایا رسول بنا یا خلیل بنایا اس کے بعد امامت دی یعنی یہ عظیم عہدہ امامت جناب ابراہیمؑ کو خلت کے بعد ملاہے۔توجب ساری دنیا نبوت کے درجے تک نہیں پہنچ سکتی تو امامت کے درجے تک کہاں پہنچے گی ۔
    جناب ابراہیم ؑ پہلے امام نہیں بنے ہیں پہلے نبی بنے ہیں پھر رسول پھر خلیل پھر آخر میں امام بنے ہیں ۔اب انصاف سے بتائیں کیا پوری دنیا مل کر کسی کو نبی بنا سکتی ہے ؟اگر آج لوگوں کی رائے سے نبی بنانا ہوتا تو قادیانی والے بھی نبی ہو گئے ہوتے اور بہائی والے بھی نبی بن گئے ہوتے لیکن نہ بن سکے۔ گویا جب کم درجے کی نبوت لوگوں کے اختیار میں نہیں تو امامت کیا ہوگی ۔
    مرتبۃ ثالثۃ وفضیلۃ شرفہ بھا او شاد بھا ذکرہ اور فرمایا   انی جاعلک للناس امامافقال الخلیل ؑ سرورا بھا ۔ 
    یہ جملہ بتا رہاہے جناب ابراہیم کو نبوت ملنے کے بعد اتنی خوشی نہیں ہوئی جتنی امامت ملنے کے بعد ہوئی ہے ۔اگر نبوت ملنے کے بعد خوشی ملتی تو اپنی ذریت میں نبوت کا مطالبہ کرتے رسالت کا مطالبہ کرتے خلت کا مطالبہ کرتے۔ امامت کا مطالبہ بتارہا ہے کہ رسالت ختم ہونے والی ہے امامت باقی رہنے والی ہے ۔
قال ومن ذریتی قال لاینال عہدی الظالمین
    یہ میرا عہدہ ظالموں تک نہیں پہنچے گا ۔قرآن نے یہ نہیں کہا لاینال عہدالظالمین ۔ کہ عہدہ ظالموں کو نہیں پہنچے گا بلکہ یوں کہا (عہدی) میرا عہدہ ظالموں تک نہیں پہنچے گا ۔(عہد ) کہتا تو عام بات ہوتی ’’عہدی ‘‘ کہہ کے بتانا چاہتا ہے کہ میرا عہدہ ہے ظالم کو یہ عہدہ نہیں ملے گا۔
فابطلت ھذہ الایۃامامۃکل ظالم الیٰ یوم القیامۃ و صارت فی ا  لصفوۃ ۔
     اس آیت نے صبح قیامت تک کے ہر ظالم کی امامت کو باطل کردیا ۔ظلم ظلم ہوتا ہےجب ظالم کی امامت کو باطل کر دیا تو شرک بھی تو ظلم ہے ،گناہ بھی تو ظلم ہے ،یعنی امام امام ہوتا ہے ظالم نہیں ہوتا بلکہ معصوم ہوتا ہے گویا نبوت کا مزاج ترک اولیٰ بھی برداشت کرلیتا ہے لیکن امامت کا مزاج ترک اولیٰ برداشت نہیں کرسکتا ۔وہ امامت ابراہیمی تھی کہ جس نے ’’رب ارنی ‘‘کی دعا کی یہ امامت علوی تھی جو کہتا ہوا نظر آیا ’’لو کشف الغطاء۔‘‘  یعنی وہ ابتدائی امامت تھی یہ انتہائی امامت ہے ۔فرق ہے امامت ابراہیمی اور امامت علوی میں امامت ابراہیمی ملی ہی ہے اس وقت جب ولایت علی ؑ کا اقرار کیا ۔تو جن کی امامت کی قبولیت پر امامت مل رہی ہو ان کی امامت کا درجہ کیا ہوگا ۔
    ’’ثم ا کرمہ اللہ تعالی بان جعلھا فی ذریہ اھل صفوۃ والطھارۃ ‘‘

خدا نے ان کی ذریت میں منتخب اور طاہر افراد رکھے ’’ووھبنا لہ اسحاق ویعقوب  نافلۃ وکلا جعلنا صالحین ‘‘ ہم نے سب کو صالح قرار دیا ۔وجعلناھم ائمۃ یھدون بامرنا واوحینا الیھم فعل الخیرات واقام الصلاۃ وایتأ الزکاۃ وکانوا لنا عابدین ‘‘یہ سلسلہ باقی رہے گا’ ’ان الامامۃ ھی منزلۃٰ الانبیاٗ وارث الاوصیئا ا ن امامۃ خلافۃ اللہ  وخلافۃ الرسولﷺ ومقام امیرالمومنین ؑ ومیراث الحسن والحسین علیہما السلام ‘‘
امامت انبیاء کی منزل ہے، اوصیاء کی میراث ہے امامت خدا کی جانشینی ہے ، جانشین تو وہی ہو تا ہے جس میں اصل کی کچھ صفت نظر آتی ہے ۔
    کہتے ہیں کہ بیٹاباپ کا جانشین ہے کب ؟ جب بیٹے میں باپ کی کچھ صفات پائی جائیں اگر باپ سخی ہے تو بیٹا اسی وقت جانشین کہلائے گا جب باپ کی صفات کا مظہر ہو تو وہی خلیفۃاللہ ہو سکتا ہے جو صفات خداکا مظہر ہو ان کی مظہریت کی دلیل یہ ہے کہ خدا کی صفت ہے کہ لاکھ گنا ہگار ہو لیکن اگر شرمندہ ہوکر آجائے تو رحمت الہی اسکو اپنے درسے دور نہیں کرتی تو نہ معلوم کتنے لوگ ایسے ہیں جنھوں نے اہلبیت ؑ کو برا بھلاکہا لیکن جب شرمندہ ہوئے تو قبول کیا یا نہیں کیا ۔
جس حرنے لجام فرس پکڑی اسی کو رومال دیا یہ بتانے کے لئےکہ دیکھوہم جس کے جانشین ہیں اس کی صفات مظہر بھی ہیں جب امام زین العابدین ؑ کی شہادت کے بعد کفن کے لئے کپڑ ے اتارے گئے تو نشان نظر آیا پو چھا گیا کس چیز کے نشان ہیں کہا رات کی تاریکی میں غریبوں کو آب ودانہ پہنچاتے تھے ۔۔کیا وہ چاہنے والے تھے ؟ نہیں ،یہ وہ لوگ تھے جو آپ کی امامت کے قائل بھی نہیں تھے پھر بھی مخلوق خدا تو تھے۔
     واقعہ کر بلا کے بعد جب بنی امیہ پرزمین تنگ ہوگئی اور مدینہ والوں نے پرچم بغاوت بلند کر دیا اور جب مروان کے تمام چاہنے والوں نے اس کو پناہ دینے سے انکار کر دیا تو وہ امام ؑکے پاس آیا کہا لوگ ہما رے قتل کے درپے ہیں ہم تو کہیںچلے جائیں گے لیکن ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے کہاں جائیں گے امامؑ نے فرمایا:تم جائویہ بچے ہما رے پاس رہیں گے امام ؑنے فرمایا:جاو مدینے میں ایک باغ ہے وہاں ایک گھر ہے تمہارے بچے وہاں رہیں گے کسی نے کہا مولا ان بچوں کواپنے گھر میں کیوں نہیں کو لیتے؟ فرمایا اس لئے کہ جب یہ بچے مسلسل ہما رے گھرمیں رہتے تو اس کوفت میں رہتے کہ کہیں چھوٹے بچے نہ یہ کہہ دیںکہ تمہا رے ہی باپ نے تلوار چلائی تھی، اگر میں پناہ دے رہا ہوں تو سکون بھی فراہم کر رہا ہوں۔
الامام البدرالمنیر والسراج الظاہر ونورالساطح والنجم ھادی فی غیاھب الدجیٰ۔
    امام وہ چمکتا ہوا ماہتاب ہے وہ روشن چراغ وہ نورمجلل وہ ستارہ ٔھدایت ہے جو تاریکیوں میں بھی ھدایت کرتا ہے۔
    تو حضرات آج کی تاریکیوں سے مت گھبرائیں،گھبرائیں وہ جو تاریکیوں میں امام نہ رکھتے ہوں ہم کیوں گھبرائیں ہم تو نور امامؑ رکھتے ہیں (واجواز البلدان والقفارولجج البحار) شہروں کے گمشدہ راستوں میں ہدایت کر تے ہیں ،امام سمندروں کے اندر ہدایت فرماتےہیں صحراؤں میں گم ہو جاؤ تب بھی ہدایت کریں گےیعنی دنیا تمہا رے لئے تنگ ہو سکتی ہے اس امام ؑکے لئے نہیں۔۔۔
  خدا نے امام حسینؑ کو کشتی نجات کہا ہے اور عرش کو سجا یا ہے اس جملے سے تو عزیزو جب طوفان آتا ہے تو ڈوبنے والا کشتی تک نہیں جاتا بلکہ ڈوبنے والے کو دیکھ کر کشتی بچانے کو آتی ہے جو بھی عزادار ہے اسکو حسین ؑکبھی گمراہیوں میں ڈوبنے نہیں دیں گے یہی تو وجہ ہے کہ آ ج لوگ عزاداری کے دشمن ہیں اس لئے کہ ان کو معلوم ہے کہ جب تک ان کے پاس کشتی نجات ہے یہ لوگ کبھی گمراہ نہیں ہو سکتے ہیں تو جس کشتی کو اللہ چلائے اسکو دنیا کے طوفان کیا ڈبو پائیں گے۔
الامام الماءالعذب علی العظماء امام تشنگی میں میٹھا پن ہے ۔
    کچھ اندازہ ہے کہ اگر کسی کو شدت کی پیاس لگی ہو تواسکو ایک جرعہ آب کتنا میٹھا لگتا ہے ؟

عزیزو! یہ پانی تو صرف بدن کی پیاس بجھاتا ہے اور امام ؑروحانی پیاس کو بجھاتے ہیں آج کہا جا تا ہے کہ کثیف پانی کو ابال کر پیاکریں اس لئے کہ آلودہ پانی صحت خراب کر دیتا ہے زرا سوچیں اب اگر کسی کو امام ہی آلودہ مل جائے تو ۔۔۔
(الامام الانیس الرفیق ووالدہ الشفیق و۔۔)  امام انیس رفیق والد شفیق ہےو ہ ماں ہے جو اپنے کمسن بچے پر مہر بان ہوتی ہے آج بھی ایک انیس ورفیق ہے آج بھی ایک والد شفیق ہے آج بھی ایک مادر مہربان ہے ۔
    چھوٹے بچے کی بات کیوں کی گئی ہے ؟ شاید اس لئے کہ ماں کا پورا ہم و غم اس بچے پر ہوتا ہے اس کا ہم و غم یہ ہے کہ اس کا بچہ سلامت رہے مگراس سےکہیں زیا دہ ہمارا امام ہم پر مہربان ہے لہذا امت تک اس پیغام کو پہچائیں اور امت کو امامت سے جوڑنے کی کوشش کریں لوگوں کو امام کی اہمیت سے آگاہ کریں اگر کوئی ہماری طرف سے دفاع کرے اور ہم تک بات پہنچے تو ہم کتنے خوش ہوتے ہیں۔۔۔

لہٰذا اگر ہم امامت کا دفاع کریں گے تو غیبت نشین ہمارا امام ہماری مدد کرے گا۔ جو بھی مقام تبلیغ میں ہیں اپنے شرف کو کم نہ سمجھیں آپ وہ کام کر رہے ہیں جو انبیاء ؑنے کیا ، اگر آپ نماز پڑھا رہے ہیں تو یہ نماز کوئی معمولی چیز تو نہیں ہے یہ وہ نماز جو رسول ﷺپڑھا تے تھے کربلا کے میدان میں امام حسین ؑ نے پڑھائی ہے آپ تبلیغ کریں اور کوئی مشکل پیش آے تو اپنے امام سے رابطہ قائم کریں اور اپنے آپ کو امامؑ کی بارگاہ میں حاضر کریں اورکوشش کریں کہ ہماری زندگی میں کوئی ایسا کام ہو سکے جو ہمارے امام ؑکی خوشی کا سبب بن سکے۔
خدا حضرتؑ کے ظہور میں تعجیل عطا فرمائے اور ہم سب کو آقا کے غلاموں میں شمار فرمائے آمین ثم آمین۔

حجۃ الاسلام والمسلمین آقای سید احمد علی عابدی کی تقریر کا خلاصہ

تبصرہ ارسال

You are replying to: .