۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
News ID: 362159
21 اگست 2020 - 13:31
عزاداری اور انتظار

حوزہ/ معصومین ؑ کی قبروں کی زیارت کرنا ، اُن سے توسّل کرنا ،اُن کی شہادت کے ایام میں عزاداری کرنا خصوصاً امام حسین ؑ کی عزاداری کرنا ، یہ ایسے موضوعات ہیں جن کی شریعت میں بہت اہمیت ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی | معصومین ؑ کی قبروں کی زیارت کرنا ، اُن سے توسّل کرنا ،اُن کی شہادت کے ایام میں عزاداری کرنا خصوصاً امام حسین ؑ کی عزاداری کرنا ، یہ ایسے موضوعات ہیں جن کی شریعت میں بہت اہمیت ہے۔ خدا کی طرف سے احادیث قدسی میں اور چہاردہ معصومین ؑکی طرف سےبھی متعددروایات میں عزاداریٔ امام حسینؑ سے متعلق تاکید کا آنا اس بات پر ثبوت ہےکہ عزاداری امام حسینؑ کااحیاء دین میں بہت اہم اہل رول ہے۔بالفاظ دیگر یہ کہا جا سکتا ہے کہ مجالس، دین کی محافظ ، اسلامی معاشرہ کی بنیاداور روح دین کی بقا ءکی ضامن ہیں۔ لیکن بڑے افسوس کی بات ہے کہ جس عزاداری کی دین اسلام میں ایک خاص اہمیت ہے، اس میں کچھ انحرافات اور تباہ کن چیزیں پیدا ہو گئی ہیں ۔ جس کی وجہ سے عزاداری حسینؑ کم رنگ دکھائی دے رہی ہے۔ ہم یہاں پر عزاداریٔ حسین ؑ کے عام ظاہری اور باطنی شرائط کو بیان کریں گے:           

امام زمانہؑ سے متعلق عزادار کی ذمہ داری: 

حقیقی عزادار اس بات کو بخوبی جانتا ہے کہ اہلبیتؑ کے لئے عزاداری کرنا اور مجلس کا انعقاد کرنا اس کی اہم ذمہ داریوں میں سے ہے، لیکن اس سے بھی اہم ذمہ داری یہ ہے کہ وہ عاشورا سے عبرت حاصل کرے ، درس سیکھے اوراس پر عمل کرے۔مدرسۂ عاشورا سے درس حاصل کرے۔ وہ اپنے زمانے کے امام کی بہ نسبت اپنے آپ کومکلف و مسؤل سمجھے۔ حقیقی عزادار جانتا ہے کہ امام ؑسے متعلق اُسے کل اللہ کی عدالت میں جواب دینا ہوگا۔ لہٰذا اُسے چاہئے کہ اپنی ذمہ داری سے غافل نہ رہے۔ وہ اداروں ، شخصیتوں اور بڑی بڑی عمارتوں کا خواہش مند نہیں ہے ، بلکہ اپنے امامؑ کو تنہائی ، غیبت، اضطراب و پریشانی سے نکالنے کی کوشش میںلگا ہوا ہے۔ اُس نے کربلا کے شہداء کی طرح کسی کی دشمنی کی طرف توجہ نہیں دی ، صرف اور صرف اپنے مظلوم امام سے متعلق ذمہ داریوں کی طرف متوجہ رہاا ور کسی کام کو بھی دوسروں کے کہنے پر نہیں کیا۔ جیسے عبداللہ ابن حسن ؑ کہ جس وقت اپنے چچا کودیکھا کہ آپؑ تن وتنہا زخمی حالت میں  سرزمین کربلاپر گرے ہوئے ہیں اور دشمنوں نے اُن کو گھیر لیا ہے، عبداللہ نے اپنے آپ کو امامؑ تک پہنچایا اورجس وقت ابجر ابن کعب نے امام کو قتل کرنے کے ارادہ سے تلوار نیام سے باہر نکالی،تو عبداللہ نےاپنے ہاتھوں کو تلوار کے سامنے رکھ دیاتاکہ امامؑ کی جان بچ جائے۔دونوں ہاتھ کٹ گئےاور پھر امام ؑ کی آغوش میںگرے؛یہاں تک کہ حرملہ نے تیر کے ذریعہ اُن کو شہید کرد یا۔

حقیقی عزادار یا حقیقی منتظرامام ؑ یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ اُس مرحلے میں اگر وہ رضائے الٰہی، خلقت کے ہدف اوراپنے وجود کے مقصد حقیقی کو  درک کرنا چاہے، تو اُسے چاہئے کہ وہ اللہ کی اِس نصیحت پر عمل کرے جس میں اللہ نے فرمایا ہے:

’’اے پیارےرسولؐ! امت سے کہہ دو کہ مَیں تم کوایک نصیحت کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ دو افراد یا ایک شخص ہی اللہ کے لئے قیام کرے لیکن خلوص کے ساتھ‘‘۔

امام خمینیؒ نے اللہ کی اِس نصیحت کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ پروردگار نے اِس کلام شریف میں طبیعت و فطرت کی گھٹا ٹوپ اندھیری منزلوں سے لیکر سفر انسانیت کے اختتام تک کو بیان کردیا ہے۔ یہ بہترین نصیحت ہے جسے اللہ نے نصیحتوںکی تمام کتابوں سے منتخب کیا ہے اور اِس ایک کلمے کو انسانوں کی زندگی کا محور و مقصد قرار دیا ہے۔ یہ کلمہ دونوں جہان میں نجات کا ضامن ہے۔

قیام اللہ کے لئے ہوتو ابراہیم خلیل الرحمان خلت کی منزل پر فائز ہوسکتے ہیں اور عالم طبیعت کے فریبی منازل سے رہا ہو سکتے ہیں۔موسیٰ کلیم کا قیام اللہ کے لئےتھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک عصاتمام فرعونیوں پر بھاری پرگیا اوراُس کاتخت وتاج عدم کے سمندرمیں ڈوب کر فناہو گیا اور وہ خود دریائے نیل میں غرق آب ہوگیا۔ اور دوسری جانب موسٰی کواللہ نے میقات پر بلالیا۔

قیام اللہ کے لئےتھا، اسی لئے خاتم النبیین ؐ کو عرب کی تمام عادتوں، فطرتوں اور عقائد پر غلبہ حاصل ہوا جس کے بعد آپ ؐ ہی کے ہاتھوں سے خانۂ خدا کو بتوں کی نجاست سے پاک کیاگیا اور اُن کی جگہ توحیداور تقویٰ الٰہی کومل گئی اور رسولؐ خود مقام قاب وقوسین پرپہنچ گئے۔

آج خدا کے لئے قیام نہ کرنے کا نتیجہ ہے کہ ہماری زندگی سیاہ ہوتی جارہی ہے۔ پوری دنیاہم پر غالب ہو چکی ہے اور اسلامی ممالک مملوک ہوکررہ گئے ہیں ۔  لہٰذا آپ اللہ کی اس نصیحت کو پڑھئے کیونکہ یہی وہ تنہا راستہ ہے جس سے ہم اپنی اصلاح کر سکتے ہیں اور دنیا و آخرت دونوں جگہ کامیابی و کامرانی سے ہمکنارہو سکتے ہیں۔

ہاں! یہ ہماری من مانی اور قیام نہ کرنا ہے جس کے نتیجہ میں امام زمانہؑکو غیبت کے پردہ میں رہناپڑرہاہےاورمستکبرین کو اسلامی ممالک پرحکومت حاصل ہو رہی ہےجیساکہ امام زمانہؑ نے فرمایا ہے :’’اگرشیعہ ہماری بنسبت وفادارہوتے، تومیرے ظہورمیں کبھی تاخیرنہ ہوتی ‘‘۔

راہ نجات وہی ہے جس کی طرف امام خمینی نے اشارہ کیاہے کہ اللہ کی نصیحت کوبغورپڑھیںاور واحد اصلاحی راہ کو اختیار کریں ، ذاتی مفادکو ترک کریں اور اصلی منتقم خونِ حسینؑسے وفاداری کریں۔اوراُن کے ظہورکی رکاوٹوں کو دورکرکے ان کے دشمنوں کے خلاف قیام کریں ،تب کہیں جاکر ہم دنیاکے چنگل سے باہر نکل سکتے ہیں۔

امام خمینی نے دوسری جگہ ارشاد فرمایا کہ یہ نہ کہو کہ ہم اکیلے ہیں، بلکہ اکیلے ہی اٹھ کھڑے ہو جاؤیا اجتماع کے ساتھ قیام کرو۔ اسلئے کہ ہماری صرف ذمہ داری ہے کہ ہم اللہ کے لئے قیام کریں ۔اللہ کے لئے قیام کیجئے اور تنہائی سے نہ ڈریئے!

زیارت عاشورا میں جہاں ظالمین سے برأت اور ان افراد سے برأت کا اعلان ہوا ہے جنھوں نے اہلبیتؑ کو اُن کےمقام ومرتبہ سے ہٹا دیا،یا اُن کے لئے مقدماتِ ظلم فراہم کیئے ، وہیں اُن کے پیروکار اور چاہنے والوں سے بھی اظہار برأت کیاگیاہے۔ یعنی جس نے بھی واقعۂ کربلا میں امام حسینؑ اوراہلِ حرم کے اوپر ظلم میں کسی طرح سے بھی حصّہ لیاہو، وہ لائق برأت ہے۔اسی طرح غیبت زمانہ میں جوشخص ظلم کے مقدمات فراہم کر رہا ہو اورامام کے ظہور کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہو،ہم اس کے لئے امام حسینؑ سے خطاب کرکے یہ کہیں گے: 

’’اے ابو عبداللہ ! مَیں قیامت تک اُن لوگوں سے صلح رکھوںگا جنھوںنے آپ سے صلح کی اور اُن سے جنگ کروںگا جن لوگوں نے آپ سےجنگ کی‘‘۔

اس طرح سے حقیقی عزادار کی دوستی اور دشمنی کا معیار طے ہوجاتا ہے کہ وہ اُن افرادسے محبت کرے گاجواہلبیتؑ سے محبت کریں گے اور اُن افراد سے دوری اختیار کرے گا جو اہلبیت ؑ سے دشمنی کریں گے۔ اور یہ دوستی اور دشمنی کاسلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔

اگر دشمنانِ اہلبیتؑ قیامت تک ہم سے جنگ کرتے رہیں ،تب بھی ایک عزادار کو تھکن کااحساس نہیں ہونا چاہئے ۔ اور سب سے پہلے ظلم کی بنیاد رکھنے والوں پر لعنت کریں گے، پھرامام مہدی ؑ کے ساتھ امام حسینؑ کے خون کا بدلہ لیں گے اسلئے کہ دشمنوںسےجنگ بغیرامام کے نہیں ہوسکتی۔ اوربغیر امام کے خون حسینؑ کابدلہ لینابے سود ہوگا۔ لہٰذا جنگ کا یہ حقیقی عنصرایک حقیقی عزادارکی زندگی سے کبھی بھی دور نہیں ہونا چاہئے۔

جس طرح کل حسین مصیبتوں میںگرفتار تھے، آج امام زمانہؑ کرب وپریشانی میں مبتلا ہیں ۔ حقیقی عزدار کوچین سے بیٹھنانہیںچاہئے،بلکہ دجال سے لڑکر اُن کے ظہور کی رکاوٹوں کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اوراس جنگ کا سلسلہ طولانی ہونا چاہئے اس لئے کہ قرآن مجیدنے کہا ہے کہ جہاد مقدس کے ذریعہ فتنہ کو ختم کرو اور دین خدا کوپوری دنیا پر نافذ کرکے چھوڑو۔

اس سے بڑی مصیبت کیا ہو سکتی ہے کہ آج دنیا امام و معصوم سے محروم ہے؟ لہٰذا عزادار کوچاہئے کہ ظہور کی رکاوٹوں کوختم کرکے امام تک پہنچنے کی کوشش کرے۔

حقیقی عزادار جانتاہےکہ امام کی خدمت کابہترین زمانہ دورغیبت ہے نہ کہ دورظہور ؟ ظہورکے زمانے کو کامیابی کازمانہ کہا گیا ہے۔ جیساکہ قرآن نے فرمایا: 

’’وہ مسلمان جنھوںنے فتح مکّہ سے پہلے راہِ خدا میںخرچ کیا، اُن کے جیسا کوئی اور نہیں ۔اُن کامرتبہ اُن لوگوں سے بہت بلندہے جنھوںنے فتح مکّہ کے بعد راہِ خدا میں انفاق کیا‘‘۔ جب کہ اللہ نے دونوں گروہوں کے اوپراحسان کرنے کا وعدہ کیا ہے!اسلئے کہ اللہ ہرچیز سے آگاہ ہے۔

امام زمانہؑ کے ظہور کی رکاوٹوں کو دور کرنا اہم ہےاُن کی رکاب میں جنگ کرنے سے! اس لئے کہ امام ؑ کی مدد فتح سے پہلے زیادہ اہمیت کی حامل ہے بنسبت فتح کے بعد۔

عزادار کے گناہوں میں سب سے بڑاگناہ اپنے وقت کے امام کو یک وتنہا چھوڑ دیناہے۔ عزادار جس قدربھی عاشورا سے نصیحت اور سبق حاصل کرے گا اتناہی اپنے وقت کے امام کی معرفت اور ان کے تئیں وفادارہوگا۔ اسلئے کہ شب عاشورکے اصحاب نے ہم کو وفاداری کاسبق دیا ہے۔وفاداریعنی جوعہدوپیمان کیا ہے، اسکا پابند رہنا۔اورامام معصومؑکےساتھ وفاداری واجب اور عہدشکنی محرمات میں سے ہے۔ قرآن میںمتعددمقامات پر اور روایات اسلامی میں وفابہ عہد کی بہت تاکید کی گئی ہے۔

امام حسینؑ نے کربلا میں دو گروہ کے بارے میں گفتگو فرمائی ہے:

اصحاب کی تعریف اور اپنے دشمنوں کی ملامت کی ۔اصحاب کے بارے میں فرمایا کہ ’’مَیں نے اپنے اصحاب سے زیادہ وفادار کسی کے بھی اصحاب کو نہیں پایا‘‘۔

روز عاشور جب مسلم ابن عوسجہ امامؑ کی خدمت میں آئے، توامام ؑ نے یہ آیت پڑھی:

’’مومنین میں سے کچھ ایسے افرادہیں جنھوں نے اپنے خدا سے کئے ہوئے وعدے کوسچ کردکھایا ۔ان میں سے بعض نے اپنے عہد کوپورا کیا اور جان دے دی اور بعض منتظر ہیں کہ کب عہدکو پورا کرنے کاوقت آئے گا‘‘۔

امام ؑ نے اپنے دشمنوں کے بارے میںفرمایا: ’’یہ اہل وفانہیں ہیںاس لئے کہ انھوں نے اپنے عہد و پیمان کوتوڑ دیا ہے اور میری بیعت کواپنی گردن سے ہٹا دیاہے۔ اپنی جان کی قسم کھاکرکہتاہوں کہ میرے بھائی حسنؑ اورمیرے بھائی مسلمؑ کے ساتھ بھی انھوں نے ایسا ہی سلوک کیاہے‘‘۔

زیارت اربعین میں ہم امامؑ کومخاطب کرکے اس طرح کہتےہیں: 

’’مَیں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے اللہ سے کئے ہوئے وعدہ کو پورا کیا اور تادم مرگ راہِ خدا میں جہادکرتے رہے‘‘۔

تحریر: محمد رضا مبلغ جامعہ امامیہ

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .