۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
سید مرتضی کشمیری نماینده حضرت آیت الله سیستانی در اروپا

حوزہ / حجت الاسلام و المسلمین سید مرتضی کشمیری نمائندہ حضرت‌آیت‌الله سیستانی نے مجالس ابا عبداللہ سے خطاب کرنے والے خطبا اور علمائے کرام سے مطالبہ کیا کہ وہ طبی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے مومنین کو شعائر حسینی اور مقصد حسینی کی طرف دعوت دیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، یورپ میں آیت اللہ العظمی سیستانی کے نمائندے، حجت الاسلام و المسلمین سید مرتضی کشمیری نے محرم الحرام کی مناسبت سے تعزیت پیش کرتے ہوئے مجالس ابا عبداللہ سے خطاب کرنے والے خطبا اورعلمائے کرام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ طبی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے مومنین کو شعائر حسینی اور مقصد حسینی کی طرف دعوت دیں۔

تحریک حسینی اپنی تمام جہتوں میں ایک انسانی تحریک کی نمائندگی کرتی ہے:

اپنی تقریر میں ، انہوں نے تحریک حسینی کی اقدار پر دھیان دینے اور اسے دنیا کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ : تحریک حسینی کی سچائی ، اس کی تمام مثالوں میں ، ایک انسانی تحریک کی نمائندگی کرتی ہے اس تحریک نے تمام انسانی خوبیوں کو اجاگر کیا اور امام حسین علیہ السلام ، ان کے ساتھی ان خوبیوں کا مظہر تھے  اور ان ہستیوں کے سامنے انسانیت کے مقام سے گرے ہوئے بدمعاش اور وحشی لوگ تھے کہ امام حسین علیہ السلام کے دشمن تمام برائیوں کا مظہر تھے۔

نمائنده حضرت آیت الله سیستانی نے کہا کہ اس بابرکت تحریک کے مقدمے میں ، مسلم ابن عقیل علیہ السلام کی شہادت، انسانی اخلاقیات کی کمالات جیسے وفاداری ، عفت اور دھوکہ دہی سے نفرت کو ظاہر کرتی ہے  اور یہ ان کمالات میں سے ایک ہے جسے ہر عقلمند انسان خواہ کسی بھی عقیدہ سے تعلق رکھتا ہو پسند کرتا ہے۔

حجت الاسلام و المسلمین کشمیری نے اپنی تقریر میں تبلیغ اور اشاعت کے حوالے سے کچھ باتیں بیان کیں۔

اول : وہ چیزیں جو نسل پرستی کے خلاف جنگ سے  وابستہ ہیں۔ انسان کی قدر اس کے رنگ و نسل میں نہیں بلکہ اس کے عمل اور انسانی معاشرے کے لئے اس کے نفع کی مقدار میں ہے۔ اس کی مثال "جون" سیاہ فام غلام کی زندگی کے آخری لمحے میں ہمیں ملتی ہے ، جب امام حسین (ع) نے اپنا چہرہ "جون" کے چہرے پر رکھا تو اس غلام نے کہا: (مجھ جیسا کون ہے کہ فرزند رسول صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے میرے سیاہ چہرے پر اپنا چہرہ رکھ دیا )۔

دوئم : وہ چیزیں جو شہوت، ظلم اور غلامی سے نجات حاصل کرنے سے وابستہ ہیں۔ہمیں دنیا کو یہ یاد دلانا چاہئے کہ امام حسین علیہ السلام کا نعرہ «کونوا احرارا فی دنیاکم: اپنی دنیا میں آزاد رہو» تھا۔

سوئم : عاشورا عوامی، فرد اور امت کے امور کی اصلاح پر مبنی ایک تحریک تھی۔ جیساکہ امام علیہ السلام نے فرمایا : میں امت کی اصلاح اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرنے نکل رہا ہوں ، معروف وہ چیز ہے جسے انسانی فطرت جانتی ہے، قبول کرتی ہے اور شریعت بھی توثیق کرتی ہے، منکر ایک ایسی چیز ہے جسے عقل و فطرت قبول نہیں کرتی ہے۔

چہارم : امام حسین علیہ السلام  کی مہربانی ، محبت اور احترام انسان تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ جانوروں کے ساتھ بھی آپ مہربان ہیں،جب دشمن امام حسین (ع) سے جنگ  کرنے آیا تو امام علیہ السلام نے نہ صرف دشمنوں کو پانی پلایا بلکہ حکم دیا کہ اپنے گھوڑوں کو بھی پانی پلا دو اور یہ عظمت کی انتہا ہے۔

پنجم : امام حسین علیہ السلام نے جنگ شروع نہ کرنے پر زور دیا اور ہوشیار رہے اور بات چیت اور تشدد کی روک تھام کے ذریعے دشمن کو راضی کرنے کی کوشش کی۔ امام (ع) اور ان کے ساتھیوں نے دشمنوں سے متعدد بار گفتگو کی۔

تحریک حسینی کو متعارف کروانے کے لئے عالمی کانفرنس بلانے کی ضرورت ہے: 

یورپ میں آیت اللہ سیستانی کے نمائندے نے اپنی تقریر کے ایک حصے میں ، عاشورا اور تحریک حسینی  کو متعارف کرانے کے طریقے بتائے۔

اول : تحریک حسینی اور اسلامی و شیعہ دنیا پر اس کے اثرات کے بارے میں تقریر کرنے یا رپورٹ دینے کے لئے عالمی سطح پر مشہور اور عظیم ماہرین اور دانشوروں کی مدد حاصل کرنا۔

مقامات مقدسات بالخصوص کربلا کے رابطوں کو صحافیوں ، خبر نگاروں اور سیاست دانوں کے ساتھ بڑھانا، ایک اہم مسئلہ ہے اور دو سال قبل ہم نے دنیا بھر کی خبر رساں ایجنسیوں اور ممتاز صحافیوں کی موجودگی کے ساتھ ایک کانفرنس کی تجویز پیش کی تھی تاکہ ان رسومات کو عالم اسلام اور یورپ ممالک میں بہترین طریقے سے متعارف کروائے۔ 

دوئم : شیعہ نوجوانوں کو مشورہ دیا جائے کہ وہ حسینی تحریک میں انسانی اقدار اور خوبیوں پر توجہ دیں ، تاکہ وہ اہل بیت (ع) کے مقاصد کو زندہ کریں اور ان اقدار و خوبیوں کا اقوام عالم کے سامنے اظہار کرتے ہوئے مختلف مقامات پرخطاب کریں  اور یہ وہی طریقہ کار ہے جسے اہل بیت علیہم السلام لوگوں تک اپنی بات کو پہنچانے کیلئے اپناتے تھے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .