۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
اصلاح مذہب (Reformation) کا تصور؛ اسلام اور عیسایت میں

حوزہ/ جب دینداری اور ایمان میں آزادی ہوگی تو اسکا نتیجہ یہ ہوگا کہ انسان اپنے آپ کو خداوند سے نزدیک کرے گا اور اسی سے راز و نیاز ، دعا و مناجات کرے گا اسکو جنت جانے کے لئے ٹکٹ کی ضرورت نہیں ہوگی اور نہ ہی گناہوں کے مغفرت کی سرٹفیکٹ کی ضرورت ہوگی ۔

تجزیہ نگار: محمد جواد حبیب
حوزہ نیوز ایجنسی اصلاح مذہب(Reformation)کا مطلب کیا ہے؟اور مصلحین کس مقاصد کے لئے اصلاح کرتے ہیں ؟ اصلاح مذہب کا بانی پروفیسر مارٹن لوتھر کنگ کون تھا؟ کیا اسلام اور عیسایت میں اصلاح مذہب کا مفہوم مشترک ہے ؟
تاریخ کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ دین و مذہب زمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ توہمات، خرافات ،رسم و رواج ،بدعتوں اور جھوٹی روایات میں ضم ہو جاتا ہے اور اپنی اصلی تصویر، شکل و شمایل ، ہدف و مقصد کھو دیتا ہے لہٰذا دین کا درد رکھنے والے ایسے توہمات، خرافات اور بدعتوں سے دین کو سنوارنے کی کوشش کرتے ہیں انکے اس عمل کو اصلاح دینی ((Reformation))کہا جاتا ہے اور خود انکو مصلح(Reformer) کہا جاتا ہے ۔
جب تاریخ بشریت کا مطالعہ کرتے ہیں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہر دور میں بہت سے ایسی شخصیات تھے جو اصلاحی کاموں میں مشغول رہتے تھے ہمارے سارے انبیاء اور اولیاء مصلحین میں سے تھے یہ کوئی نیا موضوع نہیں ہے تمام انبیاء کی بعثت کا ایک مقصد اصلاح دینی تھا چونکہ وقت کے گزرنے کے ساتھ ہر انبیاء کے پیروکاروں کے درمیان بدعتیں ، خرافات، توہمات ، رسم و رواج وجود میں آئے اور لوگ مشکلات کا شکار ہونے لگے تو اس وقت خداوند متعالی نے دوسرے پیامبر کو نئی شریعت کے ساتھ مبعوث کیا تاکہ لوگوں کو گمراہی اور ضلالیت سے نجات دے سکے اورنئی شریعت پہلے والے نبی کی شریعت سے کامل اور جامع ہواکرتی تھی اور آج کے دور میں دین اسلام کامل ترین وا جامع ترین قانون اور شریعت ہے اسی لئے قرآن ، روایات ، تاریخ اسلام حتی ادبی متون میں بھی انبیا کو مصلحین کے نام سے یا د کیا گیا ہے نظامی گنجوی اپنے ایک شعر میں پیامبر اسلام (ص) سے خطاب ہوکے کہتا ہے :
ای مدنی برقع و مکی نقاب/ سایه نشین چند بدی آفتاب
دین تو را در پی آرایشند / در پی آرایش و پیرایشند
بس که ببستند بر او برگ و ساز / گر تو بیایی نشناسیش باز
اس شعر میں نظامی گنجوی پیامیر اسلام (ص) کو خطاب کرکے کہتا ہے کہ آپ کے بعد دین تحریف کا شکار ہوگی اور ہر ایک نے اپنی سوچ و خیال کو دین سے نسبت دے کر دینی شکل و شمایل کو بگاڑ دیا اتنی تبدیلی دین میں لے آئے کہ اگر آپ خود بھی تشریف لائنگے تو خود کے دین کو پہچان نہیں پائنگے ۔
مصلحین کے مقاصد بہت زیاد ہوتے ہیں لیکن ان میں دو مقصد بہت اہم ہے :
۱ : معاشرے کی اصلاح :معاشرے کو ہر طرح کے برائیوں ،پستیوں ، خرابیوں ، طغیانیوں ، ناامنی ،فسادات ، اختلافات، انحطاط اور انتشار سے نکالکر انکی اصلاح کرنا ہے قرآن مجید میں اصلاح کا لفظ ہمیشہ سے لفظ فساد کے ساتھ استعمال ہوا ہے فسادا یعنی ناامنی ، پریشانی اور اصلاح یعنی آسودگی، آرامش ، چین اور سکون ، امن و امان ہے ۔
۲:اصلاح مذہب : دین کو خرافات ، توہمات، رسم و رواج اور بدعتوں سے سنوارنا ۔
اس بنا پر اسلام میں اصلاح مذہب کا تصور جب سے اسلام آیا ہے تب سے شروع ہوا ہے لیکن عیسایت میں یہ فکر سولہویں صدی کے پہلے وسط میں تحریک اصلاح مذہب (reformation) کے نام سے پروفیسر مارٹن لوتھر کنگ نے شروع کیا اور اس تحریک نے یورپ کی تاریخ میں انقلاب برپا کر دیا اصلاح مذہب کی یہ تحریک پاپائیت اور پادریوں کی طرف سے قائم مذہبی جبر کا تنیجہ تھی ۔ قرون وسطیٰ کا یورپ مکمل طور پر مذہبی تسلط میں جکڑا ہوا تھا ، پاپائیت کی تاریخ اگرچہ بہت پرانی تھی لیکن قرون وسطیٰ میں آ کر اس کا جبر حد سے بڑھ گیا تھا ۔بادشاہ، جاگیر دار اور عوام سب کلیسا کے ماتحت اور اس کے غلا م تھے ۔ بادشاہوں کا عزل ونصب بھی کلیسا کے ہاتھ میں تھا ۔ پوپ جس کو چاہتا بادشا ہ بنا دیتا اور جسے چاہتا معزول کر دیتا ۔ زندگی کے ہر شعبے میں کلیسا کی حکمرانی تھی ۔
پروفیسر مارٹن لوتھر کنگ:
ان حالات میں جرمنی میں ایک پادری (پروفیسر مارٹن لوتھر کنگ)نے کلیسائے روم کی اتھارٹی کو چیلنج کیا، یہ شخص بلا کا ذہین تھا، اِس نے رومن کیتھولک چرچ کے اِن تمام اختیارات کی بائبل کی تعلیمات کی روشنی میں پڑتال کی اور پھر پوری تحقیق کے بعد 95اعتراضات تیار کیے، ۲۱اکتوبر 1517ء کی ایک صبح لوتھر نے یہ اعتراضات Wittenbergکے مقامی گرجا گھر کے دروازے پر چسپاں کر دیئے۔
یوں لوتھر کے احتجاج یعنی protestسے ایک نیا فرقہ وجود میں آیا جسے protestantکہا گیا۔ ا لوتھر نے بھی کلیسا کے اختیار کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور یوں Reformationکی تحریک شروع ہوگئی جو دیکھتے ہی دیکھتے پورے یورپ میں پھیل گئی۔
عیسائی دانشوروں پر اسلام کا اثر:
اسلام نے اس وقت کی عیسائی دانشوروں کو بھی متاثر کیا تھا اسی وجہ سے عیسائیت کا مذہبی انقلاب جو یورپ میں مارٹن لوتھر کے ذریعہ آیا، اس کی وجہ بھی مسلمانوں کی مذہبی کتابیں تھیں، مارٹن لوتھر کو ریفارمیشن کا بانی کہا جاتا ہے، اس نے پروٹسٹنٹ کاایک باغی اور احتجاجی فرقہ قائم کیا تھا جو عیسائیت میں اصلاحات کاداعی تھا ۔ وہ جرمنی کا باشندہ تھا اور پادری کے عہدے پر فائز ہوا ،اس نے پوپ کی سخت مخالفت کی اور مروجہ عیسائیت پر تنقید کی ،اس نے آخرت میں نجات کے لئے چرچ کے معافی نامہ اور مغفرت نامہ کو اس نے تنقید کانشانہ بنایا جس سے جرائم پیشہ لوگ فائدہ اٹھاتے تھے وہ سونے چاندی کے بھاو پادریوں سے مغفرت نامے اور جنت کے قبالے خریدتے تھے ۔مارٹن لوتھر نے اس مغفرت نامہ کو باطل قرار دیا وہ خود اسلامی تہذیب سے اتنا زیادہ متأثر تھا کہ آرتھوڈوکس کرسچن اس پر خفیہ طور پر مسلمان ہونے کا الزام لگاتے تھے۔ محققین کے مطابق یورپ میں اصلاح دین کی تحریک اسلام کے زیر اثر شروع ہوئی تھی ۔اس کے اس تحریک کے بعد عیسائیوں میں دو فرقہ وجود میں آگےایک آرتھوڈوکس کرسچن (Orthodox Christian)اور دوسرا پروٹسٹنٹ کرسچن(Protestant Christian)۔
تحریک اصلاح مذہبی (Reformation) اسلام اور عیسائیت کی نظر میں :
اسلام میں تحریک اصلاح مذہب(Reformation) کب سے وجود میں آئی اس بارے میں کچھ بیان کرنے سے پہلے کچھ اہم نکات کا ذکر کرنا لازم ہے
۱۔ اسلام میں اصلاح کی تحریک، آغاز اسلام سے ہی شروع ہوا ہے جب پیامبرگرامی اسلام کا انتقال ہوا اور ابوبکر انکا جانشین ہوا اس وقت پہلی مرتبہ یہ اصلاح مذہب کے عنوان پر گفتگو ہوئی تھی ۔ البتہ قرآن مجید میں اصلاح کا لفظ آیا ہوا ہے اور پیامبر گرامی اسلام کو اصلاح کرنے والا (مصلح)بھی معرفی کیا ہے (سور ہ ہود آیت ۸۸) لیکن زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ اس لفظ میں تبدیلی آگی اور اسکی جگہ لفظ "احیاء" استعمال ہوتا رہا عملی طور پراصلاح دینی کے باتیں "امربہ معروف و نہی از منکر"کے ذیل میں بیان ہونے لگا۔
۲۔ جب اسلامی تہذیب و تمدن ، سیاست اور اجتماعیات کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اسلام میں کوئی ایسا زمانہ نہ تھا جسمیں اسلامی معاشروں میں اصلاح دینی کی بات نہ ہوتی ہو ۔لیکن جومراد اصلاح مذہب سےاسلام لیتاہےاسکا رابطہ عیسایی مذہب کی اصلاح دینی (Reformation)سے بالکل الگ ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آخری سالوں میں جب سے یورپ میں تحریک اصلاح چلی ہے تب سے معاصر مسلمان دانشمند بھی متاثر ہوئے ہیں اور یورپ کی اصلاح دینی کی حمایت کرتے ہوئے اسلام میں بھی اس طرح کے اصلاح کی خواہش کی ہے ۔
۳۔ یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے تحریک اصلاح سے دنیا کے سارے معاشرے متاثر ہوئے اس طرح ایک معاشرہ دوسرے معاشرے پر اثر گزار ہوتے ہیں اسی وجہ سے بعض غیر مسلمان مفکرین اور دانشمند اسلام کی معارف سے متاثر ہوئے تھے ان میں توماس اکویناس ہیں جو ابن رشد سے متاثر تھے اور مارتین لوتھر ہیں جو اسلامی تعلیمات سے شدید لگورکھتا تھا اور عربی زبان سیکھنے کی کوشش کی تھی تاکہ قرآن کو پڑھ سکے اور سمجھ سکے ۔ بالکل اسی طرح بعض مسلمان معاصردانشمند یورپ میں پیش آنے والی تحریک اصلاح سے متاثر ہورہے ہیں اور وہ بھی مسلمان مصلحین کے لئے مسلمان پروٹسٹنٹ (Muslim protestant) کے الفاظ استعمال کررہے ہیں دکتر علی شریعتی لکھا کرتے تھے اسلامی معاشروں میں مسلمان پروٹسٹنٹ کے ذریعہ اصلاح دینی کے کام شروع ہونا چاہئے لیکن مسلمان پروٹسٹنٹ کا لفظ تسامحا اور مجازا استعمال کیا گیا ہے اسکی وجہ بھی ان دونون تحریکوں میں موجود کچھ شباہتیں ہیں۔شاید بہت سے مسلمان معاصر مصلحین خود کو مسلم پروٹسٹنٹ کہنے پر راضی نہ ہو۔
اسلامی اور عیسایی تحریک اصلاح کی شباہتیں:
۱۔ مذہبی مقدس کتابوں کی جانب رجوع :
مارتین لوتھر کہتا ہے انسان کوچاہئے کہ وہ اپنا دین ، مقدس کتابوں اور انجیل کا مطالعہ کرکے حاصل کرے اور ارباب کلیسا اور پادریوں کی تفسیر اور کتابوں سے دین کو سیکھنے کی کوشش نہ کرے درحالیکہ کہ یہ قرون وسطی میں کلیسا کے پادوری اجازت نہیں دیا کرتے تھے لیکن عالم اسلام میں مسلمان مصلحین نے ہمیشہ یہی کہا ہےکہ مسلمانوں کو اپنا عقیدہ و افکار، اخلاق ورفتار ، احکام و اعمال ، سیاست ، اقتصاد اور حقوق سب قرآن مجید اور سنت سے حاصل کرنا چاہئے اس لئے علماء کرام نے فقہ ، اصول ، کلام ، فلسفہ اور حتی ادبیات میں متن قرآن سے فائدہ اٹھایا ہے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے ۔
۲۔ مقدس متن کو سمجھنے کی صلاحیت سارے دینداروں میں ہے :
مارتین لوتھر کہتا ہے کہ متن مقدس کی تفسیر کے لئے کسی خاص پادری یا کلیساء کو مخصوص نہ کیا جائے بلکہ یہ حق سارے دینداروں کو ہے کہ وہ خود سے مقدس کتاب کا مطالعہ کرے اور اس کے مطابق عمل کرے چونکہ متون مقدس عام فھم و سادہ ہے ۔در حالیکہ عیسایی پادریوں نے یہ قانون بنایا رکھا تھا کہ متون مقدس پڑھنا صرف اور صرف پوپ اور پادری کام ہے کسی غیر پادری کو پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔
اسلام بھی کہتا ہے کہ قرآن اور سنت ہر مسلمان کو پڑھنا چاہئے اور قرآن کو سمجھنا چاہئے اس کے مطابق زندگی گزارنا چاہئے اس کو صرف اور صرف علماء یا خاص صنف سے مخصوص نہ کیا جائے بلکہ سارے دیندار متون دینی کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا کریں اس بنا پر علماء اور مراجع بھی مومنین کو قرآن پڑھنے اور سیکھنے کا کی ترغیب دلاتے ہیں۔
۳۔ ایمان میں آزادی ہو:
مارتین لوتھر کہتا ہے کہ ایمان میں آزادی ہونی چاہئے چونکہ ایمان وہ شی ہے جس میں تقلید کی گونجایش نہیں ہے بلکہ دینداری ، ایمان داری کو علم اور آگاہی کے ساتھ انتخاب کرنا چاہئے اسکو تحمیل کرنا زبردستی تھوپنا کسی پر صحیح نہیں ہے درحالیکہ عیسایی پادریوں کا کہنا تھا کہ ایمان میں تقلید کیا جانا چاہئے اورکسی کو حق نہیں ہے کہ وہ اس بارے میں سوال کرے ۔
لیکن اسلام نے دینداری اورا یمان داری میں انسان کو آزاد رکھا ہے کہ وہ خود علم و آگاہی کہ بنا پر انتخاب کرے "لا اکراہ فی الدین" اس میں کسی کو زبردستی کرنے کا حق نہیں کہ آپ کسی کو زبردستی مسلمان بناو یا کسی کو زبردستی باایمان بناو ایسا ممکن نہیں بلکہ مومن خود سےعلم و آگاہی سے مومن بنے گا۔
۴۔ خداوند سے اپنا رابطہ مستحکم رکھنا:
جب دینداری اور ایمان میں آزادی ہوگی تو اسکا نتیجہ یہ ہوگا کہ انسان اپنے آپ کو خداوند سے نزدیک کرے گا اور اسی سے راز و نیاز ، دعا و مناجات کرے گا اسکو جنت جانے کے لئے ٹکٹ کی ضرورت نہیں ہوگی اور نہ ہی گناہوں کے مغفرت کی سرٹفیکٹ کی ضرورت ہوگی ۔درحالیکہ عیسایی پادریوں نے اپنا حق سمجھ کر جسکو چاہے جنتی بنادیا اور جسے چاہا کافر بنادیا۔پروفیسر لوتھر کے عقیدہ کے مطابق یہ کام صرف خدا کا، بندوں کا نہیں لہذا کلیسا کا یہ کام معقول نہیں لگا تھا۔
اسلام بھی مسلمانوں سے کہتا ہے کہ اپنا رابطہ خدا سے مضبوط رکھو "وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِـى اَسْتَجِبْ لَكُمْ۔۔ " اور تمہارے رب نے فرمایا ہے مجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کروں گا، بے شک جو لوگ میری عبادت سے سرکشی کرتے ہیں عنقریب وہ ذلیل ہو کر دوزخ میں داخل ہوں گے۔لہذا اسلام کی نظر میں بھی جنت اور جہنم کا مالک خدا ہے خدا جس چاہے گاجنت نصیب کرےگا اور جس چاہے گا جہنم میں ڈال دے گا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .