۵ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۵ شوال ۱۴۴۵ | Apr 24, 2024
چین

حوزہ / چین میں سرکاری طور پر مذہبِ اسلام 651 عیسوی میں متعارف ہوا اور پھر ہزاروں عربوں اور ایرانیوں کی وجہ سے مزید پھیلا۔ اس وقت زیادہ تر چینی مسلمان اہلسنت اور حنفی مذہب ہیں اور کچھ تعداد میں شیعہ بھی ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی بین الاقوامی سروس کی رپورٹ کے مطابق،چین میں سرکاری طور پر مذہبِ اسلام 651 عیسوی میں متعارف ہوا اور پھر کئی ہزار کی تعداد میں عربوں اور ایرانیوں کی وجہ سے مزید پھیلا۔ اس وقت زیادہ تر چینی مسلمان اہلسنت اور حنفی مذہب ہیں اور کچھ تعداد میں شیعہ بھی ہیں۔

چین دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ جو کہ رقبے کے لحاظ سے بھی وسطی اور مشرقی ایشیا کے ایک بڑے علاقے پر محیط ہے۔

یہ وسیع ملک، شمال سے منگولیا، شمال مشرق سے روس، مشرق سے شمالی کوریا، بحیرہ زرد اور مشرقی بحیرہ چین، جنوب سے بحیرہ جنوبی چین، ویتنام، لاؤس، میانمار (برما)، بھارت، بھوٹان اور نیپال اور مغرب میں بھارت، پاکستان، افغانستان، تاجکستان، کرقزستان اور شمال مغرب میں قزاقستان سے ملا ہوا ہے۔

چین میں سب سے بڑا مذہب بدھ مت ہے اور چین میں مذاہب کی تقسیم کچھ اس طرح ہے:

نیاپٹوازم؛ چین میں سب سے قدیم عقائد کا نظام ان کا اپنے آباؤ اجداد کی تعظیم ہے۔

بدھ مذہب؛ بدھ مت، جسے چین میں ساکیامونی مذہب کہا جاتا ہے۔

تاؤ مذہب؛ تاؤ ازم اصل میں ایک فلسفیانہ نظام تھا جو "لاؤتزو اور چوانگتزو" کی تعلیمات سے ماخوذ تھا کہ جو بالترتیب چھٹی اور چوتھی صدی قبل از مسیح میں رہتے تھے۔

کنفیوشس (confucius) مذہب؛ ان کا طور طریقہ سیاسی فلسفہ تھا اور وہ قدیم حکمت و دانائی کے سنہری دور میں واپس آنے پر یقین رکھتے تھے۔

مذہبِ اسلام سرکاری طور پر 651 عیسوی میں چین میں متعارف ہوا اور پھر ہزاروں عربوں اور ایرانیوں کی وجہ سے مزید پھیلا۔ اس وقت زیادہ تر چینی مسلمان اہلسنت اور حنفی مذہب ہیں اور کچھ تعداد میں شیعہ بھی ہیں۔

635 عیسوی میں پہلا نسطوری عیسائی فارس سے چین آتا ہے اور آہستہ آہستہ وہاں عیسائیت کو فروغ دیتا ہے۔ زیادہ تر چینی عیسائی پروٹسٹنٹ (protestant) ہیں۔ چین میں دوسرے مذاہب اور فرقے جیسے زرتشت، مانیوی، یہودیت وغیرہ بھی موجود ہیں۔

چین کا اپنا ٹیلی ویژن اور ریڈیو نیٹ ورک ہے جو 38 مقامی اور غیر ملکی زبانوں میں روزانہ 142 پروگرامز نشر کرتے ہیں۔

چین میں سب سے بڑا سیاسی دھڑا "کمیونسٹ پارٹی" ہے جس کی بنیاد 1921ء میں رکھی گئی۔

کمیونسٹ پارٹی کے علاوہ دیگر جماعتوں کو محدود سرگرمیوں کی اجازت ہے بشمول کومین ریوولیوشنری(انقلابی) کمیٹی، دی ڈیموکریٹک سوسائٹی آف چائنا، ڈیموکریٹک یونین آف چائنا فار نیشنل رینئویشن، چائنا یونین فار دی ایڈوانسمنٹ آف ڈیموکریسی، ڈیموکریٹک پیپلز پارٹی آف چائنا، تائیوان خود مختار کمیونٹی، جیوسن کمیونٹی، جی گینگ ڈونگ چین وغیرہ۔

قدیم زمانے سے چینی ثقافت پر ہمیشہ ایک روحانیت پر مشتمل عقیدتی جذبہ غالب رہا ہے جو ہزاروں سالوں سے چین کی پوری تاریخ میں اس سرزمین کے درمیان ثقافتی اتحاد اور تسلسل کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔

چینی ثقافت اور تہذیب تین اصولوں پر مبنی ہے: انسان اور فطرت کے درمیان تعلق، مسلسل تغییر و تبدیلی، دوسری ثقافتوں کو جذب اور موجودہ حالات میں اس کی موافقت حاصل کرنے کی صلاحیت۔

چین کے اب اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ اچھے سیاسی اور اقتصادی تعلقات ہیں۔ ایران اور چین کے درمیان اب تک چھ ثقافتی معاہدوں پر دستخط ہو چکے ہیں جو کہ بیجنگ اور تہران کی یونیورسٹیوں کے درمیان طے پانے وال پہلا معاہدہ تھا۔ اس وقت چار چینی یونیورسٹیوں میں فارسی زبان کی سیٹیں موجود ہیں۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے پانچ سال بعد اسلام چین میں داخل ہوا۔ سعد بن ابی وقاص چین میں داخل ہونے والے پہلے مسلمان تھے اور انہوں نے شنگھائی کی بندرگاہ میں پہلی مسجد قائم کی۔ چینیوں کے ساتھ مسلمانوں کا پہلا مقابلہ 130 ہجری میں اس وقت ہوا جب "کوہسین چائیہ" کی سربراہی میں چینی فوج نے "زیاد" کی سربراہی میں مسلمانوں کا سامنا کیا اور ان کے درمیان چینی سرحد پر شدید جنگ ہوئی۔ ابتدا میں فتح چینیوں کی طرف تھی لیکن پھر ان کی شکست کے ساتھ مسلمانوں نے وسطی ایشیا پر قبضہ کر لیا اور یہ فتح اس سرزمین اور وسطی ایشیا میں اسلام کے اثر و رسوخ کا پیش خیمہ ثابت ہوئی ۔ [1]

زیادہ تر چینی مسلمان ملک کے مشرق میں اور صوبہ سنکیانگ میں رہتے ہیں۔ جہاں اس خطے کی اکثریتی آبادی مسلمان ہے۔ ان علاقوں میں اسلامی روایات آٹھویں صدی ہجری سے ایران اور ماوراء النہر کی اسلامی روایات سے ماخوذ ہیں جو آہستہ آہستہ چین میں داخل ہوئیں۔ چین میں اسلام اس لحاظ سے تفریق شدہ نہیں ہے کہ یہ شیعہ یا سنی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ایران سے آٹھویں سے دسویں صدی ہجری تک جو اسلام چین میں داخل ہوا وہ ایک صوفیانہ اسلام تھا جس میں سنی اور شیعہ دونوں جمع تھے اور ایک ایسی چیز تھی کہ جسے "تسنن بارہ امامی" کہا جا سکتا ہے۔چین کی اکثریت اہلسنت اہل بیت علیہم السلام سے شدید محبت و عقیدت رکھتے ہیں اور ہر سال ماہ رمضان المبارک کے 13 تاریخ کو وہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کا جشن مناتے ہیں اور امام علی اور حسنین علیہما السلام کے عاشق ہیں۔

امورِ مذاہب کے سربراہ [2]کے مطابق اس وقت چین میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً 23 ملین بتائی جاتی ہے لیکن غیر سرکاری ذرائع کے مطابق ان کی تعداد 50 سے 70 ملین کے درمیان ہے اور کچھ لوگ 100 ملین تک کا بھی کہتے ہیں۔ آج چین میں 35,000 مساجد ہیں جن میں 45,000 سے زیادہ امام جماعت اور مبلغین مسلمانوں کے مذہبی امور کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اس ملک میں اسلامی علوم کی تدریس کے لیے 10 سے زائد مراکز اور اداروں میں 20,000 افراد کام کرتے ہیں۔

چین میں "اویغور مسلمانوں" میں سے 99 فیصد سنی ہیں جن پر چینی حکومت نے ظلم و ستم کیا ہے اور انہیں روزہ رکھنے سے روکا گیا ہے۔ حالیہ چند برسوں میں ان کے ائمہ جماعت کو عوامی مقامات پر رقص کرنے پر مجبور کیا گیا، مسلمانوں کو سگریٹ اور شراب فروخت کرنے پر مجبور کیا گیا ہے، مسلمان مرد کو داڑھی وغیرہ رکھنے سے ممانعت، خواتین کو حجاب پہننے سے روکنا وغیرہ حکومتِ چین کے ان مسلمانوں پر دباؤ میں سے چند مثالیں ہیں۔

اسلام کی طرف چینیوں کے جھکاؤ کی ایک بڑی وجہ اس دین کا صلح و امن پسند ہونا اور اس کی تعلیمات کا "کنفیوشس ازم" کے بعض بنیادی تصورات سے قرابت ہونا تھی کہ جو چینیوں میں رائج تھا۔ چینی باشندوں کے ساتھ تارکین وطن مسلمانوں کی شادی اور اختلاط بھی ایک وجہ تھی کہ اسلام نے چینی معاشرے میں اپنا اثر چھوڑا ۔ چینی مسلمانوں نے سماجی علوم، ٹیکنالوجی، طب، فن تعمیر اور ہنر کے شعبوں میں چینی ثقافت اور تہذیب کے لیے جو قابل ذکر خدمات انجام دی ہیں وہ بھی چین میں اسلام کی بقا اور پھیلاؤ کی دیگر وجوہات میں سے شمار ہوتی ہیں۔

چین میں موجود 56 قومی نسلوں میں سے 10 نسلوں میں اسلام کے پیروکار ہیں جو چین کی کل آبادی کا 2 فیصد ہیں۔ چین کے مسلمان قبائل میں خوئے، اویغور، قزاق، تاتار، ازبک، سالار، ڈونگ جیانگ، باؤان، کرغیز اور تاجک شامل ہیں۔ ان دس نسلی گروہوں میں کچھ جیسے "خوئی" گروہ آبادی کے لحاظ سے چین میں مسلمانوں کی سب سے بڑی تعداد پر مشتمل ہے جو کہ چینی باشندوں کے ساتھ ایرانی اور عرب تارکین وطن کے اختلاط کا نتیجہ ہیں۔

چین میں مذہبی اور اسلامی دھارے

چینگ دور میں قبائلی شناخت اور اسلامی تشخص کے احیاء کے سلسلہ میں مسلمانوں کے داخل ہونے کے بعد اور اصلاحات کے دور کے آغاز اور مذہبی اصول کی طرف واپسی اور اسی طرح مسلم معاشرے کے طبقات کے روایتی چین کی قدیم روایات و تہذیب کے ساتھ تعامل سے دوری اور اس سرزمین پر صوفی نظریات کے آنے سے رفتہ رفتہ مسلمانوں کی متحد صفوں کو فرقہ واریت اور تقسیم کی ہوا دی۔ جس کے بعد اس ملک میں "چینی اسلام پسند دھارے" تشکیل پائے۔

چین میں روایتی اسلام کا بہاؤ

چین میں پہلی مسلم کمیونٹیز وسطی ایشیا کے عرب اور ایرانی مسلمان تاجروں اور حکام اور فوجی افسران کی اولادیں تھیں جو ساتویں سے چودھویں صدی تک چین کے جنوبی ساحل اور شمال مغربی چین میں چھوٹے اور بڑے گروہوں کی شکل میں رہتے تھے۔ یہ تحریک حنفی مسلمانوں کے توسط سے تشکیل پائی تھی جو کہ خو قدامت پسندانہ زندگی گزارتے تھے۔

صوفی تعلیمات کے پیروکار اسلامی دھڑے

سترہویں صدی سے پہلے ان تحریکوں کو کوئی خاص مقام حاصل نہیں تھا لیکن متعدد علماء کے حج کرنے یا اسلامی علوم میں اپنی تعلیم جاری رکھنے کی غرض سے سعودی عرب کے سفر کے دوران وہ دنیا کے صوفی دھڑوں سے آشنا ہوئے اور پھر چین واپسی پر وہ صوفی تعلیمات کو بطور سوغات اپنے ساتھ لائے جس سے آہستہ آہستہ چین میں صوفی تعلیمات کا آغاز ہوا۔

چین میں سب سے اہم صوفی فرقے قادریہ، خوفیہ، جہریہ اور کبروئیہ ہیں۔ یقینا فرقوں میں سے ہر ایک کو مزید چھوٹی شاخوں میں بھی تقسیم کیا گیا ہے۔

نیا اسلامی فکری بہاؤ

اس کی وجہ مینگ کی سوچ تھی کہ مسلمان آسانی سے مشرق وسطیٰ میں آتے جاتے اور ان علاقوں میں اصلاح پسند اور احیاء گرا تحریکوں سے متاثر ہو کر چین میں نئے اسلامی نظریات متعارف کرائے۔ انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں مسلمانوں نے حج میں شرکت کرنے اور الازہر یونیورسٹی مصر میں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف اسلامی نظریات کو چین میں داخل کیا۔

چین میں اہل بیت ( ع ) کے پیروکار

چین میں اہل بیت علیہم السلام کے پیروکار دو گروہ پر مشتمل ہیں جنہیں عقیدتی شیعہ اور ثقافتی شیعہ کہا جاتا ہے۔

عقیدتی شیعہ کہ جو حضرت علی اور ائمہ علیہم السلام کی امامت پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہ لوگ دو گروہوں یعنی اسماعیلیہ اور امامیہ میں تقسیم ہوتے ہیں۔

ثقافتی شیعہ مکتب اہل بیت علیہم السلام کے ان شیعہ اور سنی پیروکاروں کو کہا جاتا ہے کہ جو مکتب اہل بیت علیہم السلام کی پیروی کرتے ہیں ۔

چین میں بہت سے مسلمانوں کی شیعوں سے قرابت اور ان کے رسم و رواج اور ثقافت رکھنے کے باوجود بھی 12 امامی شیعوں کی تعداد بہت کم ہے اور وہ زیادہ تر صوبہ سنکیانگ کے علاقے یارکند میں ہی مقیم ہیں۔

بعض چینی مسلمانوں کا شدت پسند گروہوں کی طرف رجحان

سعودی عرب چین میں مساجد اور دینی و مذہبی مراکز کی تعمیر کے ذریعہ اور بعض اوقات چین میں بعض علماء اور مساجد کے اماموں اور بااثر مسلم شخصیات کی مالی امداد کرنے کے ساتھ اور اسی طرح چینی مسلمانوں کے افکار اور عقائد پر براہ راست اور بالواسطہ طور پر نفوذ کے لئے طلبہ کو بطور مبلغ کے بھیج کر ان پر بہت تاثیر رکھتا ہے۔ حالیہ برسوں میں وہ پاکستان وغیرہ جیسے ممالک کے کچھ مسلمان طلباء کی مالی حمایت کے ذریعہ چینی مسلمانوں کو متاثر کرنے اور وہاں وہابیت اور سلفیت کو فروغ دینے کی کوشش کر رہا ہے اور پھر تکفیری گروہوں میں بعض چینی مسلمانوں کی شمولیت اور ان کا داعش میں شامل ہونا اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے۔

مسجد اور انجمن اسلامی چین

چین میں مساجد اور سکولوں کے علاوہ پورے ملک میں متعدد دینی مدارس یا غیر سرکاری حوزاتِ علمیہ موجود ہیں جو مسلمان عوام کے تعاون سے قائم کیے گئے ہیں اور ان میں ہزاروں طلباء زیر تعلیم ہیں۔ طولِ تاریخ میں چینی مسلمان اکثر مساجد کے آس پاس ہی رہتے تھے۔

چین کی اسلامی ایسوسی ایشن بین الاقوامی تعلقات کے دفتر؛ امورِ حج؛ مذہبی سرگرمیوں کی نگرانی؛ شعبہ اشاعت؛ شعبہ اسلامی تحقیق؛ شعبہ اسلامی علوم تعلیم؛ اقتصادی شعبے اور مبادلاتِ تجاری پر مشتمل ہے

ہر سال اسلامی تعلیم کے شعبہ سے فارغ التحصیل افراد کو اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے مصر، سعودی عرب، پاکستان، لیبیا، ملائیشیا وغیرہ میں بھیجا جاتا ہے اور واپس آنے کے بعد انہیں مختلف عہدوں پر تعینات کیا جاتا ہے۔

چین میں مساجد

بیجنگ میں 70 سے زائد اور شنگھائی میں آٹھ مساجد ہیں کہ جن میں سے ایک خواتین کے لیے مختص ہے۔ چین کی تمام بڑی مساجد میں حمام، بیت الخلا، وضو اور قربانی کو ذبح کرنے کی جگہ اور سہولیات موجود ہیں۔ مساجد میں مختلف امور جیسے شادی کی تقریب، میت کا کفن و دفن؛ معارفاسلامی کی تعلیم؛ مسلمانوں کے مسائل کا حل؛ ذبحِ اسلامی ؛ کھیلوں کے مقابلوں کا انعقاد؛ شیر خوار بچوں کے کانوں میں اذان اور اقامت کا کہا جانا جیسے تمام امور انجام پاتے ہیں۔

تمام مساجد میں ایک بڑا پتھر رکھا ہوتا ہے جس پر اس مسجد کی تاریخ اور چند بزرگ مسلمانوں کے نام لکھے ہوتے ہیں۔چین کی ایک مسجد کے کئی مولوی ہوتے ہیں اور ان کا حجرہ بھی مسجد کے اندر ہی ہوتا ہے اور یہ چیز چینی طلباء کے لیے ایک اعزاز سمجھا جاتا ہے۔ جماعت کے لیے امام کی کوئی عمر معین نہیں ہوتی بس جو بھی اچھی قرأت کر سکتا ہے وہ امام جماعت کا فریضہ انجام دے سکتا ہے۔

انجمن اسلامی چین شنگھائی شہر کے مختلف علاقوں میں آٹھ مساجد کے ذریعے شنگھائی کے 89,000 مسلمانوں اور شہر سے باہر کے 10,000 مسلمانوں کو خدمات فراہم کرتی ہے۔

ہر جمعہ بالخصوص رمضان کے مہینے میں بہت سے مسلمان شنگھائی کی مساجد میں آتے ہیں اور وہاں نماز ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح نماز جمعہ کے چینی خطباء حضرات نمازِ جمعہ کے خطبوں میں اسلام کے احکامات و تعلیمات کے بارے میں بھی بات کرتے ہیں اور مذہبی مسائل کی وضاحت کے سلسلہ میں طلباء کے سوالوں کا گرمجوشی سے خیرمقدم کرتے ہیں۔

چین میں اسلام کی صورتحال پر ایک تجزیاتی نظر

تحقیق: علی امیرخانی

[1] . گلی زواره‌ای، سرزمین اسلام، ص ۲۷۱

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .