حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، جب ہم رہبر معظم انقلاب کی صدارت کے دور میں انجام پانے والے واقعات اور تقویم پر نظر ڈالتے ہیں تو شمالی کوریا اور عوامی جمہوریہ چین کا ان کا مؤثر اور تاریخی سفر سامنے آتا ہے، جس کی مفصل رپورٹ اس وقت کے اخبارات و جرائد میں بھی شائع ہوئی تھی۔
یہ سفر چینی حکومت کی سرکاری دعوت پر ۱۹ اردیبهشت 1368 شمسی (9 مئی 189ء) بروز منگل سے شروع ہوا اور چھ دن تک جاری رہا۔ آیت اللہ خامنہای نے اس سفر کے دوران چین کے مسلمان نشین علاقے کا بھی دورہ کیا اور وہاں نماز جمعہ کے اجتماع سے خطاب بھی کیا۔
روزنامہ اطلاعات نے ہفتہ ۲۳ اردیبهشت کو لکھا:
"صدرِ جمہوریہ اور ان کے ہمراہ وفد نے اپنے دورۂ چین کے چوتھے دن، چین کے خودمختار مسلمان صوبہ "تینسیانگ" کا دورہ کیا اور اس خطے کے مسلمانوں سے ملاقات کے لیے جمعہ کی دوپہر بیجنگ سے اُرومچی پہنچے جو اس صوبہ کا دارالحکومت ہے۔ ایرانی وفد کا اُرومچی ایئرپورٹ پر تینسیانگ صوبہ کے اعلیٰ حکام نے پُرتپاک استقبال کیا۔ شمال مغربی چین میں واقع یہ خودمختار صوبہ مغولستان، سوویت یونین، پاکستان، افغانستان اور ہندوستان سے متصل ہے۔ یہ علاقہ ۱۹۵۵ سے خودمختار صوبہ ہے، اس کا رقبہ 13 لاکھ مربع کلومیٹر سے زائد ہے اور اس کی آبادی 14 ملین نفوس پر مشتمل ہے جن کا تعلق 13 مختلف قومیتوں سے ہے۔"
اس سفر کے نمایاں نکات میں سے ایک آیت اللہ خامنہای کی اس صوبہ میں نماز جمعہ میں شرکت تھی، جسے دنیا بھر کے مسلمانوں نے نہایت متاثرکن اور پُرکشش اقدام کے طور پر سراہا۔ اپنے خطاب میں انہوں نے فرمایا: "آج دین اسلام دنیا میں ایک مضبوط اور پُرعزت دین کے طور پر نمایاں ہے اور دنیا کے مسلمان عزت و سربلندی محسوس کر رہے ہیں ۔ جمہوریہ اسلامی ایران نے اسلام اور قرآن کے احکام کو اپنے سیاسی نظام کی بنیاد قرار دیا ہے۔"
انہوں نے اس امر پر خوشی کا اظہار کیا کہ اس علاقے کے مسلمان، خاص طور پر نوجوان، اسلامی علوم و معارف کو گہرائی سے سیکھ رہے ہیں۔ نماز جمعہ کے اختتام پر انہوں نے چین کی اسلامی سرگرمیوں کے لیے سازگار پالیسیوں پر خوشی کا اظہار کیا اور علماء و نوجوان طلباء کو قرآن کی آیات میں مزید تدبر کی تلقین کی۔
نماز جمعہ کے بعد تینسیانگ صوبہ کے حوزہ علمیہ کے علماء اور اساتذہ نے صدرِ جمہوریہ کو مسلمانوں کی صورتحال پر مبنی ایک رپورٹ پیش کی۔
چین کے سفر کے دو دلچسپ پہلو
اس سفر کے ساتھ دو قابل ذکر واقعات بھی منسلک ہیں۔ پہلا واقعہ یہ کہ ایرانی وفد کے بیجنگ پہنچنے سے پہلے اعلان کیا گیا کہ چینی رہبر کی بیماری کے باعث ان کی ایرانی صدر سے ملاقات منسوخ کر دی گئی ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہای نے اس کے بعد چینی حکام کے ساتھ دیگر ملاقاتیں بھی منسوخ کر دیں تاکہ ایک واضح پیغام جائے کہ ایرانی قوم کی قیادت کسی سے کم نہیں۔ اس اقدام کا اثر اتنا گہرا تھا کہ چین کے وزیر اعظم خود آیت اللہ خامنہای سے معذرت کرنے آئے۔
اس واقعے کو اُس وقت کے چین میں ایرانی سفیر ڈاکٹر علاءالدین بروجردی نے یوں بیان کیا:
"چینی وزیر اعظم، کانگریس ہال سے صدر ایران کی قیام گاہ پر آئے اور دور ہی سے بلند آواز میں کہا: چھوٹا بڑے سے ملاقات کے لیے آیا ہے! پھر وہ کمرے میں داخل ہوئے، آقا سے تقریباً پندرہ منٹ گفتگو کی اور کہا: ہم مہمان، خصوصاً ایسی عظیم شخصیت، کی تعظیم کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ چینی رہبر کی بیماری واقعی سنگین ہے اور ڈاکٹرز نے ملاقات سے روکا ہے۔ اس کے باوجود ہم اس ملاقات کے امکان کا جائزہ لے رہے ہیں تاکہ مسئلہ حل ہو سکے۔"

سفر چین کے ایک اور دلچسپ پہلو کا ذکر
آیت اللہ العظمیٰ خامنہای نے چین کے دورے کے دوران کھانے کے لیے رسمی و روایتی سفارتی تشریفات سے گریز کیا اور ایک عوامی ریسٹورنٹ کا انتخاب فرمایا۔
چونکہ چین میں متعدد اقسام کے کھانے تیار کیے جاتے ہیں جو اسلامی احکام کے مطابق نہیں ہوتے، اس لیے آیت اللہ خامنہای اور ان کا ہمراہ وفد اس بات پر متفق ہوا کہ صرف حلال غذا کھانے کے لیے بیجنگ کے ایک عوامی اسلامی ریسٹورنٹ "المطعم الاسلامی" جائیں، جہاں صرف حلال کھانا تیار کیا جاتا ہے۔
جب اس ریسٹورنٹ کے منتظمین کو معلوم ہوا کہ ایک اعلیٰ سطحی سیاسی وفد ان کے ہاں موجود ہے تو انہوں نے خاص طور پر ایک خصوصی ضیافت کا اہتمام کیا، لیکن آیت اللہ خامنہای نے شکریہ کے ساتھ اس پیشکش کو مسترد کر دیا اور وہی عام کھانا تناول فرمایا جو دیگر عوام بھی وہاں کھا رہے تھے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ ریسٹورنٹ جو چینی نام "هونگ بین لوو" سے کام کر رہا ہے، اس کی ایک دیوار پر آیت اللہ خامنہای کی ایک تصویر آویزاں ہے جو دیگر عالمی اور چینی شخصیات کے ہمراہ لی گئی ہے جو اس ریسٹورنٹ میں تشریف لائے تھے۔
اس تصویر میں آیت اللہ خامنہای کے ساتھ اُس وقت کے وزیر خارجہ ڈاکٹر علیاکبر ولایتی بھی نظر آتے ہیں۔
ماخذ:
ویب سائٹ: khamenei.ir
مرکز اسناد انقلاب اسلامی
ہفت روزہ "پرتو سخن"









آپ کا تبصرہ