۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
انقلاب اسلامی ایران

حوزہ/ انقلاب اسلامی نے دنیا کے تمام ادیان کے ماننے والوں کو نہ صرف متاثر کیا بلکہ مذہب و معنویت کے سلسلہ سے یہ تاریخ کا ایک ایسا اہم موڑ ثابت ہوا جس کے بعد مذہب سے بھاگتی ہوئی دنیا نے دوبارہ مذہب کا دامن تھاما۔

تحریر: مولانا سید نجیب الحسن زیدی

حوزہ نیوز ایجنسی | ۲۲ بہمن (10 فروری) کی تاریخ  اسلامی انقلاب کی اس یادگار کو پیش کرتی ہے جب آج سے 42 سال قبل تاریخ انسانیت کا ایک عظیم انقلاب رونما ہوا، یوں تو دنیا میں رونما ہونے والے ہر انقلاب کے الک الگ محرکات و اسباب ہوتے ہیں، اور ہر انقلاب میں ایک خاص طبقہ اٹھتا اور اپنے عمومی مطالبات کے ذریعہ لوگوں کو اپنا ہمنوا بنا لیتا ہے اور تبدیلی کی موج پر سوار ہو کر لوگوں کے مطالبات سے بے نیازحاکمیت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیتا ہے، لیکن اسلامی انقلاب اس لحاظ سے منفرد و بے نظیر ہے کہ کسی خاص طبقے مثلا مزدور یا کاریگر طبقے میں اسے محدود نہیں کیا جا سکتا، یہاں ہر طبقے کی نمائندگی نظر آتی ہیں امیر غریب مزدور صنعت کار سب مل کر ظلم کے خلاف اٹھتے ہیں اور ڈھائی ہزار سالہ شہنشائیت کو تاریخ کے میوزیم کے حوالے کر دیتے ہیں، اس انقلاب کی خاص بات یہ انقلاب اس وقت سامنے آتا ہے جب ہر طرف دین کو ایک نشہ آور ایسے تفکر کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا کہ جس کے چلتے جو دین کو مانتا ہے وہ مفلوج ہے گو کہ اس نے نیند کی گولیاں کھا لی ہوں اور دنیا سے کوئی مطلب نہ ہو ایسے میں اس انقلاب نے دنیا کے تمام ادیان کے ماننے والوں کو نہ صرف متاثر کیا بلکہ مذہب و معنویت کے سلسلہ سے یہ تاریخ کا ایک ایسا اہم موڑ ثابت ہوا جس کے بعد مذہب سے بھاگتی ہوئی دنیا نے دوبارہ مذہب کا دامن تھاما یہ انقلاب ہی کی برکت تھی کہ اس کے نتیجے میں دنیا میں کروڑوں افراد، مذہبی بنیادوں سے وابستگی کی طرف نہ صرف پلٹے بلکہ انہوں نے اس راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو اکھاڑ پھینکا اب سے 42 سال پہلے مذہب کے اثرات کے مشاہدے سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ کل معاشرتی زندگی میں مذہب کہاں تھا اور آج کہاں کھڑا ہے آج مسلمانوں ہی کی بات نہیں ہے بلکہ پوری دنیا میں عیسائیوں ، یہودیوں اور ہندوں سبھی نے مذہب کی طرف دوبارہ رجوع کیا ، وہ روس جہاں مسجدوں پر تالے جڑے تھے آج وہاں کے پایتخت ماسکو کی نماز جمعہ اور شاہراہوں پر نماز گزاروں کا ہجوم مذہب کی موجودہ بازگشت کی دلیل ہے ، ترکی جسکی بنیاد ہی اتاترک کے اصولوں اور لادینیت پر تھی آج دوبارہ مذہب کی طرف واپسی کے پر کیف مناظر پیش کر رہا ہے ، امریکہ ہو یورپ یا پھر افریقہ کی سر زمینیں کل جس مذہب کو لوگوں نے بے حرکت و ساکت زندگی کا نشہ سمجھ کر کنارے رکھ دیا آج دوربارہ اسی مذہب سے اپنے وجود کو متحرک کرتے نظر آ رہے ہیں ۔

اگر ہم یہ دیکھنا چاہیں کہ انقلاب سے کیا نتائج حاصل ہوئے ہیں تو اسکے مختلف اندازے اور معیارات ہو سکتے ہیں انقلاب کے نتائج و آثار کو سمجھنے کا ایک بہترین ذریعہ یہ ہے کہ دیکھا جائے انقلاب کے معمار و بانی نے اس انقلاب کے آثار و نتائج کو کس انداز سے بیان کیا ہے ۔

پیش نظر تحریر میں کوشش کی گئی ہے کہ انقلاب اسلامی ایران کے  آثار و برکات اور نتائج کو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہا کے بیانات کی روشنی میں ۲۲ بہمن کی مناسبت سے پیش کیا جائے جو انقلاب اسلامی کی 42 ویں سالگرہ کے طور اس سال ہر سال سے کرونا کی وبا کے پیش نظر حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق اپنی نوعیت کے اعتبار سے نئے ولولے و جوش کے ساتھ منائی جا رہی ہے اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ کسی بھی انقلاب کے بارے میں اسکے بانی و معمار کی جانب سے بیان شدہ نتائج و اثرات کی بات ہی اور ہے یہ وہ نتائج ہیں جن پر انقلاب کی موجودہ کیفیت کو تولا اور پرکھا جا سکتا ہے ۔

انقلاب کے ایران کی داخلی سیاست اور عوام پر پڑنے والے نمایاں اثرات:
یوں تو ایران کی داخلی سیاست اور عوام پر انقلاب اسلامی کے اہم و نمایاں متعدد ایسے اثرات ہیں جن پر کافی کچھ لکھا اور پڑھا جا سکتا ہے لیکن اسلامی اہداف کے پیش نظر چند اہم اثرات و نتائج کو حسب ذیل انداز میں بیان کیا جا سکتا ہے ۔

۱۔ حکومت اسلامی کی تشکیل
اس دور میں اسلامی حکومت کی تشکیل دینا جب اسلامی اقدار پامال ہو رہے تھے اور لوگ مذہب کو ایک مصیبت کے طور پر دیکھ رہے تھے اسلامی انقلاب کی بڑی کامیاب ہے ، امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے اس مقصد کو حاصل کر لینے کے بعد یہ نہیں کہا کہ ہمارا بنیادی مقصد حاصل ہو گیا بلکہ آپ نے اپنااصل مقصد اسلامی اہداف کے تحقق کو بیان کرتے ہوئے واضح کر دیا کہ اگر اسلامی اہداف پورے ہو رہے ہوں تو سمجھنا ہمارا مقصد پورا ہو رہا ہے چنانچہ آج دنیابھر میں اسلام و صداقت کے چہرے کے طور پر کوئی ملک پہچانا جاتا ہے تو وہ اسلامی جمہوریہ ایران ہے ، اسلامی حکومت کی تشکیل اتنی بڑی کامیابی ہے کہ عصر حاضر میں ایران کے موجودہ حالات کے پیش نظر اسکی نظیر نہیں ملتی یہ ایک ایسی کامیابی ہے جس کے بارے میں امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کہتے ہیں: ہمارے تصور میں بھی نہیں تھا کہ ہم اس طرح کامیاب ہونگے اور ڈیڑھ سال کے اندر اسلامی حکومت کے خطوط کو نہ صرف ترسیم کر دیں گے بلکہ عملی طور پر اسلامی طرز حکومت کو دنیا میں متعارف بھی کرا دیں گے چنانچہ آپ اسلامی حکومت کے سلسلہ سے فرماتے ہیں : ”ہم نے اس انقلاب میں اپنے تصور سے پرے کامیابی حاصل کی ، اور بہت زیادہ مظلومیت کے بعد ہم نے ایک بڑی کامیابی حاصل کی اور ایک ڈھائی ہزار سالہ مستکبر و ستمگر حکومت کو پلٹ کر ایک اسلامی حکومت کی تشکیل دی ایسی حکومت جو اسلام کی راہ میں قد م بڑھانے والی ہے انشاء اللہ ۔

یہ بات یاد دہانی کی لائق ہے کہ حکومت اسلامی کے برقرار کرنے کا پہلا قدم ، حکومت کے ڈھانچے کی تکمیل اور اسکے ارکان کا کھڑا کرنا ہے جو کہ بہترین انداز میں انجام کو پہنچا ایسا کوئی سابقہ نہیں ہے کہ ایک ملک جس کے عوام نے قیام کیا ، ایک فاسد حکومت کو گرا دیں اور پھر ایک سے ڈیڑھ سال کے اندر تمام ان چیزوں کو کھڑا کر دینے میں کامیاب ہو جائیں جو حکومت کے لئے ضروری ہیں ، انہوں نے نہ صرف حکومت کے لئے ضروری چیزوں کو مہیہ کیا بلکہ بنیادی دستور العمل کو بھی تحریر کیا ، اور اسلامی جمہوریہ کو ووٹ دیا ، صدر جمہوریہ کو ووٹ دیا ، مجلس خبرگان کو ووٹ دیا ، مجلس شورای کو ووٹ دیا ، … ان تمام کامیابیوں کے باوجود ہم ابھی آدھے راستہ پر ہیں ابھی بہت راستہ طے کرنا باقی ہے ، ہمارا سب سے بڑا مقصد محمد رضا شاہ اور اغیار کو بے دخل کرنا نہیں تھا بلکہ یہ سب مقدمہ تھا ، یعنی یہ سب کانٹے تھے جو راستے کے درمیان پڑے تھے انہیں ہٹانا ضروری تھا ، اور اسلئے ان کانٹوں کو چننا ضروری تھا کہ ہم اپنے اصلی مقصد کو حاصل کر سکیں ، اپنے اصل ہدف تک پہنچ جائیں ، اور ہمارا اصل مقصد اسلام کا تحقق ہے*”،

۲ ۔ بنیادی دستور العمل کی تدوین
اسلامی انقلاب کی ایک بڑی کامیابی اسلامی حکومت کے اعلان کے بعد بہت ہی مختصر مدت میں بنیادی دستور العمل کا تشکیل پانا ہے امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ اس بارے میں فرماتے ہیں :
”انقلاب کے عظیم نتائج میں ایک اسلامی جمہوریہ ایران کے بنیادی دستور العمل کا تدوین پانا ہے ، بلکہ یہ انقلاب کا سب سے بڑا ثمر ہے
” ۔
۳۔ انقلاب کا عوامی اور اسلامی ہونا
انقلاب کی ایک بڑی کامیابی یہ ہے کہ اس تحریک کی بنیادیں اسلامی ہیں اور ان بنیادوں کی تشکیل میں عوامی رائے شامل ہے امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ اس بارے میں فرماتے ہیں :
“اس تحریک کی برکتوں میں ایک اسلام کی برکتیں ہیں اور وہ یہ کہ اس تحریک کے تمام ارکان وتمام شعبے اسلامی اور عوامی ہیں
” ۔

۴۔ ایک مقتدر و با ثبات ملک کی تشکیل
اسلامی انقلاب کا بڑا نتیجہ اسلامی جمہوریہ ایران کی نو پا حکومت کو ایک با ثبات حکومت کے طور پر دنیا میں متعارف کرنا ہے آج ایران کے ثبات و اقتدار کو دیکھ کر اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ یہ وہی ملک ہے جو بیالیس سال سے معاشی بائیکاٹ کا شکار ہے یہ وہی ملک ہے جس نے ۸ سالہ جنگ لڑی ہے وہ بھی اس طرح کہ ساری دنیا صدام کے ساتھ کھڑی تھی اور ایران اپنی ایمانی طاقت سے لڑ رہا تھا ، اور آج بھی عراق و شام و یمن کے محاذوں پر ایران عالمی سامراج سے مقابکہ آرائی کرتا نظر آ رہا ہے امام خمینی ایران کے ثبات و اقتدار کے بارے میں ابتدائے انقلاب کے دور میں فرماتے ہیں :
“ایران با ثبات ممالک میں ایک ہے ، کس ملک میں یہ ثبات و اقتدار پایا جاتا ہے ؟ کون سا ایسا ملک ہے جس میں کوئی ایک بھی ایسا شعبہ نہ ہو جو ایک یا دو لوگوں کے مارے جانے سے متزلزل نہ ہوا ہو ، جبکہ اس پہلے یہ تھا کہ اگر کوئی مر جاتا تو پوری شہنشاہیت پر مردگی چھا جاتی ، سب جگہ بھیڑ بھاڑ ہو جاتی ، جبکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے صدر جمہوریہ شہید ہو گئے لیکن ایران کا ثبات اپنی جگہ ہے، بلکہ اور بھی بڑھا ہے ، سب شہید صدرجمہوریہ کے لئے ماتم کر رہے ہیں اور ایک دوسرے سے دوسروں کی حفاظت کے خواستار ہیں ”،

۵۔ ستمگر شہنشائیت کا زوال

اسلامی انقلاب کی کامیابی میں کیا یہ بات معمولی ہے کہ ڈھائی ہزار سالہ شہنشائیت خاک میں مل گئی ،اگر انقلاب کا کوئی اوراثر نہ ہو کر محض یہی اثر رہتا تو یہ معمولی اثر نہیں ہے اسلامی انقلاب نے ڈھائی ہزار سالہ استبداد سے ایران کو نجات دی ۔اور آج بھی دنیا کے شہنشاہانہ مزاج رکھنے والوں کے مقابل اسی آب تاب کے ساتھ یہ انقلاب ڈٹا ہو ا ہے جس طرح محمد رضا شاہ کے سامنے اس وقت تک ڈٹا رہا جب تک اسے شکست فاش سے دوچار نہ کر دیا چنانچہ ایران سے شہنشائیت کا بے دخل ہونا اپنے آپ میں ایسا نتیجہ و اثر ہے جس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ محض انقلاب کا کام اتنا ہی ہوتا کہ ایران کو شہنشائیت سے انقلاب نجات کا سبب بنتا تو ہی بہت تھا۔
اور یہ بات ہم نہیں امام خمینی رح نے بیان کی ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں : “اس تحریک کے آثار و برکات بہت ہیں ، اس کے برکات میں سب سے بڑی برکت یہ ہے کہ اس نے شہنشائیت کو توڑا ، چوروں اور غارت گروں کو مملکت سے بھگایا ، شرک و نفاق کے ہاتھو کو کاٹا ، تیل کی دولت کو کھانے والوں اور لوٹ مار کرنے والوں کی ہاتھوں کو کاٹا یہ وہ برکتیں تھی جن تک ہم پہنچیں ہیں ۔اگر ہمیں کوئی ایک کامیابی بھی نصیب نہ ہوتی مگر یہ کے ہم نے اس گروہ کو بھگا دیا جو لوٹ مار کرنے والا تھا تو یہی ایمان کے لئے کافی ہے” ۔

۶۔ خود مختاری و استقلال

ایک وہ دور تھا جب ایران کے چھوٹے چھوٹے مسائل بھی واشنگٹن میں حل ہوتے تھے لیکن انقلاب کی برکت سے ایران کو آج مستقل سیاسی موقف رکھنے والے ملک کے طور پر جانا جاتا ہے اور دنیا جانتی ہے کہ اسلامی جمہوریہ پر کوئی ملک بھی اثر انداز نہیں ہے اور آج بھی اقتصادی پابندیوں اور معیشتی بائکاٹ کے باوجود ایران سیاسی استقلال کے اعتبار سے وہیں کھڑا ہے جہاں آغاز انقلاب پر تھا اور اسکے سیاسی استقلال پر نہ کل کوئی سمجھوتہ ہوا تھا اور نہ آج سیاسی استقلال کی ایک وجہ یہ ہے کہ ایران نے ان غرب زدہ عناصر کو پنپنے کا موقع ہی نہیں دیا جو ایران کو سیاسی طور پر کسی ملک کا مہر ہ بناتے یا پھر مشرق و مغرب نواز بناتے امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ اس بارے میں فرماتے ہیں :
“آج ایران کے لئے ایمان کی برکت سے ،اسلام سے عہد کی خاطر تمام طبقات میں ایک عظیم تبدیلی رونما ہوئی ہے ، آج ایران نے مشرق و مغرب اور منحرف جراثیم کو اپنے ملک بھگا دیا ہے ، کسی کو حق نہیں ہے کہ معمولی اور چھوٹی سی بھی دخالت اسلامی ملک میں کر سکے “۔

۷۔ بساط ِ ظلم کا سمیٹ دینا

ایران میں عرصے تک ایسی فضا حاکم رہی جس کے تحت مظلوم و نادار طبقے پر مسلسل حاکم طبقے کی جانب سے ظلم کیا جاتا رہا اور اور محروم لوگوں کو انکے حقوق سے مزید محروم کرتے ہوئے ثروت مندوں کو بھرا جاتا رہا ،لیکن اسلامی انقلاب کی بنا پر چند ایک رائل فیملیز ہی وسائل حیات سے مخصوص استفادہ کے مالک نہ رہیں بلکہ ملکی دولت و ثروت عوام کے درمیان تقسیم ہو گئی ، امور مملکت میں من مانی کا دور ختم ہو گیا اور اب کوئی ایسا نہیں جو لاقانونیت کو رواج دے اور کسی کے سامنے جوابدہ نہ ہو بلکہ آج ہر ایک کو احساس ہے کہ جوکرے گا اسکا جواب دینا ہوگا یہی وجہ ہے کہ ایسے افراد کو بے دخل کر دیا گیا جو من مانی کرتے اور اپنی جیبیں بھرتے تھے لوگوں نے اپنے حقوق کی آواز بلند کی اور لوگوں پر ظلم روا رکھنے والی حکومت کی بساط سمیٹ دی گئی ، آج بھی ایسا ہی ہے کہ اسلامی انقلاب ہر قسم کے ظلم کے مقابل ڈٹا ہوا ہے چاہے وہ داخلی ہو یا بیرونی امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ اس بارے میں فرماتے ہیں :
“آج کا دور سابقہ حکومت سے مختلف ہے ، چونکہ آج مملکت اس طرح چل رہی ہے کہ کسی ایک کے ہاتھ میں اسکے امور نہیں ہیں جو اپنی من مانی کرے زور زبردستی کرے ، لوگوں پر دباو بنائے اور کسی کام کو عوام پر تھوپ دے ، آج ہمارے پاس ایسا کوئی مقام و منصب نہیں ہے جو اپنی چلائے ، یعنی اب ہم کسی ایسے مقام و منصب کو تحمل بھی نہیں کر سکتے ہیں ، بلکہ آج قوم کی صورت حال ایسی ہے کہ اگر ایک صاحب منصب و مقام چاہے بھی کہ قوم پر کچھ تھوپے تو قوم اسکے سامنے کھڑی ہو جائے گی اپنی مٹھیوں کو بھینچ کر کھڑی ہو جائے گی اور زبردستی کو نہیں چلنے دےگی ، یہ ایک بڑی نعمت ہے قوم کے لئے کہ کوئی اس پر ظلم نہ کر سکے “،

۸۔ آزادی

اسلامی انقلاب کا ایک اور نتیجہ ہے کہ لوگوں کو اس انقلاب نے وہ آزادی دی جسکے بغیرانسانی زندگی کا تصور ممکن نہیں ، آزادی کے بنا زندگی بھی کوئی زندگی ہے اسی لئے ہیگل جیسے دانشور آزادی کو جوہر حیات سے تعبیر کرتے نظر آتے ہیں انقلاب سے پہلے آزادی وہاں تھی جہاں تک شہنشائیت کو مطلوب تھی لیکن آج یہ معاملہ بدل کر دائرہ دین میں آ گیا ہے اور ددین کی آزادی کا دائرہ خالق کی جانب سے اپنے بندوں کو دی گئی آزادی پر منتہی ہوتا ہے جہاں کسی پر بھی کسی کا حکم نافذ و جاری نہیں ہے اور کوئی بھی من مانے طریقے سےکسی کی آزادی کو محدود نہیں کر سکتا اس بارے میں امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں :
یہ آزادی جو آج ہمیں حاصل ہے ، یہ آزادی عورتوں کے لئے ہے مردوں کے لئے ہے ، صاحبان قلم کے لئے ہے ،جو چیزیں بھی آپ کے مفاد میں ہوں آپ کے حق میں ہو سب کے لئے آزادی حاصل ہے ، آپ آزاد ہیں کہ اپنی باتوں کو بیان کریں ، حکومت پر تنقید کریں ، ہر اس فر د پر تنقید کریں جو کہیں ٹیڑھا پیر رکھے ، کوئی آپ کو نہیں کہنے والاہے کیوں ؟

۹. سیاسی آزادی

صرف زبان و قلم کو ہی اسلامی انقلاب سے آزادی نصیب نہ ہوئی بلکہ ہر ایک کو حق دیا گیا کہ وہ سیاسی طور پر مکمل آزاد ہے بنیادی دستور العمل کے تحت اپنی بات رکھ سکے اور تنقید کر سکے جبکہ اس سے پہلے شہنشاہی نظام میں ایسانہیں تھا چنانچہ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں :
”آزادی کی نعمت ایک بڑی نعمت ہے ، جو بشر کو حاصل ہے ، آپ کو یہ نعمت نہیں دی گئی تھی آپ ایک حرف بولنے کے لئے آزاد نہ تھے ، اپ اس جگہ جمع نہیں ہو سکتے تھے ، کیا آپ کے لئے اس بات کا امکان تھا کہ ہم آپس میں بیٹھ کر بات کر سکیں ، اتنی اجازت ہی نہ تھی کہ کوئی دروازے سے اندر قدم رکھ سکے ، اگر چوری چھپے کوئی داخل بھی ہو جائے تو اسے تھانے جانا پڑتا تھا خدا نے آپ کو نعمت آزادی سے نوازا اب یہ آپکا امتحان ہے کہ آپ آزادی کا کیا کرتے ہیں ”۔

۱۰۔ انتخاب کی آزادی
آزادی بیان و سیاسی آزادی ہی نہیں انقلاب نے ہر انسان کو خود مختاری دی ہے کہ اپنی باتوں کو بیان کرے اپنے نظریات کو رکھے اور جسے چاہے اسے انتخاب کرے ، چنانچہ امام خمینی رضوان اللہ تعالی فرماتے ہیں :
“جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے انتخابات میں سب آزاد ہیں ، کسی کو کسی قیم و سرپرست کی ضرورت نہیں ہے کوئی فرد یا گروہ کچھ لوگوں کو دوسروں پر لادنے کا حق نہیں رکھتا ،”
یہ مذکورہ ۱۰ وہ اہم اثرات و نتائج تھے جنہیں امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے تقریبا ابتدائے انقلاب میں بیان کیا تھا لیکن ان کی گھن گرج آج بھی باقی ہے آج بھی اسلامی انقلاب ظلم کے خلاف دنیا میں عدل و انصاف کی آواز بنا ہوا محروموں کی دلوں کی دھڑکن ہے اور لوگ زمین و جغرافیا سے ماوراء ہو کر اسے اپنے دل کی آواز کے طور پر دیکھ رہے ہیں ۔

نوٹ : امام خمینی کے تمام بیانات مجلہ حصون سے ماخوذ ہیں : مجله حصون زمستان ۱۳۸۳، شماره ۲
دستاوردهای انقلاب اسلامی از دیدگاه امام خمینی(ره)

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .