۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
محسن ملت علامہ سید صفدر حسین نجفی ؒ

حوزہ/ مفسر قرآن ممتاز عالم دین علامہ سید صفدر حسین نجفی مرحوم کی ۳۳ویں برسی کی مناسبت سے آپ کا اہم خطاب قم المقدسہ میں جو انقلاب اسلامی ایران کی دسویں سالگرہ کے موقع پر طلاب کے درمیان خطاب کیا تھا۔قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی | مفسر قرآن ممتاز عالم دین علامہ سید صفدر حسین نجفی مرحوم کی ۳۳ویں برسی کی مناسبت سے آپ کا اہم خطاب قم المقدسہ میں جو انقلاب اسلامی ایران کی دسویں سالگرہ کے موقع پر طلاب کے درمیان خطاب کیا تھا۔ قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں؛

أَمَّا بَعْدُ! قَالَ أَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ ؑ: الدِّیْنُ ھُوَ التَّعْظِیْمُ لِأَمرِ اللہِ.

عزیزان گرامی جیسا کہ آپ حضرات کو معلوم ہے کہ یہ جلسہ انقلاب اسلامی ایران کی دسویں سالگرہ کے سلسلے میں منعقد کیا گیا ہے ظاہر ہے کہ خالق کائنات نے جس کرہ میں ہمیں خلق کیا ہے ہمیں اسی کے حالات ہی معلوم نہیں صحیح طور پر عموما لوگوں کا خیال ہے کہ یہ کروڑ ہا ،ارب ہاکرات جو کائنات میں موجود ہیں جو کشف ہوچکے ہیں ۔یہ غیر آباد بیکار سے پڑے ہوئے ہیں ظاہر ہے کہ ایک عام شخص جو کسی چیز کا مالک ہو وہ بھی اگر اپنی مملوکہ اور موروثہ زمین کو آباد رکھنے کی قدرت رکھتا ہو تو وہ کبھی اسے فضول نہیں چھوڑے گا ۔اسی شخص کی جائیداد یا مالکیت غیر آباد ہوگی جو قدرت نہ رکھتا ہو یا قدرت رکھتے ہوئے تنبل اور سست ہو ورنہ ظاہر ہے آبادی اچھی چیز ہے اور بربادی بری چیز ہے اور کوئی بھی صاحب عقل و خرد برباد کو آبادی کی نسبت پسند نہیں رکھتا تو جس نے عقل و خرد دی ہے کائنات کو ،تو اسی کے متعلق کیسے تصور کیا جاسکتا ہے ساری کائنات بیکار پڑی ہوئی ہے ۔آئمہ معصومین ؊ کے ارشادات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ کرات جو ہمیں نظر آتے ہیں یہاں بھی مخلوقِ خدا بستی ہے ،رہتی ہے یہ آباد ہیں یہاں بھی تمہارے شہروں کی طرح شہر ہیں تو بہرحال ہمارا تعلق اس چھوٹی سے زمین کے ساتھ ہے ۔خالقِ کائنات نے بزم ملائکہ میں اعلان کیا تھا کہ میں اس زمین کو آباد کرنا چاہتا ہوں اور اس میں میں اپنا جانشین بھیجنا چاہتا ہوں ۔

آپ جانتے ہیں کہ منصب چھوٹا سا ہی کیوں نہ ہواس کے لیے انسان کیا کچھ نہیں کرتا ۔معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے جو معصوم مخلوق تھی ، جو خواہشات نفسانیہ سے مبرا و منزہ تھے منصب کی بلندی اتنی جچی ان کی نگاہوںمیں کہ دبے لفظوں میں وہ بھی خواہاں ہوئےکہ خالقِ کائنات یہ منصب ہمیںدے دے لہٰذا ایسے موقع پر جو طریقہ اختیار کیا جاتا ہے آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے وہی طریقہ کار ملائکہ نے اپنایا تھا اور کہا : اَتَجْعَلُ فِيْہَا مَنْ يُّفْسِدُ فِيْہَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ. ﴿البقرة: ٣٠﴾

میں سمجھتا ہوں کہ خواہش کرنا کسی اچھے منصب کی کوئی بری بات نہیں ہے البتہ اگر کوئی کسی منصب کا اہل نہیں ہے اس کا اپنے اندر استعداد پیدا کئے بغیر اس کے حصول کے لئے غلط طریقے انتخاب کرنا یہ اچھا نہیں ہے ۔
اس میں عموما ہم طالب علم اور مولوی صاحبان کافی مبتلا ہوتےہیں جب ہمیں کوئی حجۃ الاسلام کہے جب ہمیں کوئی سرکار علامہ کہے( اب تو ماشاء اللہ آہستہ آہستہ آگے بھی قدم بڑھتا جارہا ہے ہمارے ملک میں ) تو ہم خوش ہوتے ہیں ۔سید مرتضیٰ علم الھدیٰ اعلی اللہ مقامہ کے حالات میں لکھا ہوا ہے کہ ان کے زمانے میں جو وزیر تھا بیمار ہوگیا تو اس نے عالم خواب میں امیر المومنین ؑ کو دیکھا تو آپ نے فرمایا کہ علم الھدیٰ سے کہو کہ وہ تمہارے لئے دعا کرے ،کہاحضور وہ علم الھدیٰ کون ہے( کیونکہ اس وقت سید کا یہ لقب نہیں تھا) فرمایا کہ سید مرتضیٰ ،چنانچہ اس وزیر نے خط لکھا سید مرتضیٰ کو اور یہ لقب علم الھدیٰ بھی لکھا ۔جہاں میں نے پڑھا ہے وہاں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ جب وہ خط سید مرتضیٰ کو ملا تو انہوں نے وزیر کو لکھا کہ یہ تو نے کیا کہا ہے میں اس کا اہل نہیں ہوں تو انہوں نے کہا حضور میں نے یہ خود سےنہیں لکھا بلکہ مجھ سے کہا گیا ہے تب میں نے لکھا ہے ۔عموما ہم لوگ کافی جہل مرکب کا شکار ہوتے ہیں اگر کوئی شخص ترقی کی منزلیں طے کرنا چاہتا ہے تو اس کی پہلی شرط یہ ہے کہ وہ جہل مرکب کا شکار نہ ہو اپنی حیثیت کو وہ سمجھتا ہو ،دنیا میں جن لوگوں نے ترقی کی ہے کام کیا ہے وہ وہی تھے جو اپنی حیثیت کو سمجھتے تھے ،امام خمینی مدظلہ ایک مقام پر لکھا ہے کہ خدا نہ کرے کہ کسی شخص کا عمامہ وقت سے پہلے بڑا ہوجائے اور اس کی داڑھی جلدی سفید ہوجائے اور وہ لوگوں کی توجہ کا مرکز بن جائے اس لئے کہ اگر وہ ابھی ترقی کی منازل طے نہیں کرپایا اور لوگوں نےاس کی طرف توجہ کرنے شروع کردی ہے تو آہستہ آہستہ وہ انسان اپنے آپ کو بڑا سمجھنے لگ جائے گا اور نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ ترقی ختم ہوجائے گی ۔

چنانچہ اس کے ضمن میں انہوں نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ شیخ الطائفہ شیخ طوسی جو حوزہ علمیہ نجف اشرف کے بانی ہیں اورانہوں نے ہی حوزہ علمیہ نجف اشرف کی بنیاد رکھی ہے انہوں نے لکھا ہے کہ شیخ کی ۲۵ سال کی عمر تھی جب انہوں نے یہ تہذیب الاحکام لکھی تھی جو حدیث کی کتاب ہے اور ساٹھ سال کی عمر تک وہ سید مرتضیٰ علم الھدیٰ کے درس میں جایا کرتے تھے اتنی اس شخص میں ریاضت تھی ،تو اس کا نتیجہ کیا ہوا کہ دوسو سال تک جتنے لوگ اور علماء پیدا ہوتے رہے سب کے سب انہیں کے فتوے پر عمل کرتے رہے چنانچہ آپ حضرات نے شاید کتب اصول میں دیکھا ہو کہ ان دوسو سال کے اجماعات کو ترجیح نہیں دی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ اجماع نہیں ہے یہ نقل فتوی ہے اصل میں تو وہ فتوی شیخ طوسی کا ہے اسی لئے وہ شیخ الطائفہ ہیں ۔گویا شیخ بمعنی استاد یعنی پوری ملت کے استاد تھے۔
تو عزیزو!انسان کو اپنی حیثیت کو سمجھنا چاہیے اور محنت زیادہ سے زیادہ کرنی چاہیے تاکہ انسان واقعاً اسی مقام کا اہل ہوجائے جسے وہ حاصل کرنا چاہتا ہے لہٰذا تفتازانی کے متعلق ہے کہ اس سے کسی سے پوچھا کہ تم کتنا علم حاصل کرو گے کہنے لگا کہ جتنا امام جعفر صادق ؈ کا علم ہے کہا گیا کہ وہ تو امام تھے فرزند رسول تھے۔تو اس کو بھی بہرحال علم تھا وہ کہنے لگا کہ جب نگاہ اتنی بلند ہوگی تو کہیں تو جاکر ہم پہنچیں گے اگر نگاہ پہلے ہی سے پست ہوگی تو پھر کیا بنے گا ۔

اس لئے عزیزو!اپنی نگاہوں کو بلند رکھیں اور عظیم سے عظیم شخصیت کو نمونہ بنائیں ایک آیت : لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ ……﴿الأحزاب: ٢١﴾ کو میں نے ایک مرتبہ عنوان کلام قرار دیاتھا خدا فرمارہا ہے کہ تمہاری نگاہ میں اور تمام کمالات میں نمونہ میرا رسول ہونا چاہیے جو کہ ہر لحاظ سے کامل و اکمل ہے تو اگر ان جیسی ہستیوں کو اپنے لئے نمونہ عمل بنایا جائے تو یقینا انسان ترقی کرسکتا ہے ،تو انقلاب کے سلسلے میں ایک عقلی تجزیہ یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص انقلاب کرنا چاہتا ہے تو اس کے پانچ درجے ہیں پانچ مرتبے ہیں ۔سب سے پہلا درجہ یہ ہے کہ خود سازی سے شروع کرے ،عموما یہ ہوتا ہے کہ ہم غیر ساز ہوتے ہیں خود ساز نہیں ہوتے،ہمیں یہ درد کھائے جارہا ہے کہ ساری دنیا مسلمان ہوجائے اگر میں ہی مسلمان نہ ہوا تو ساری دنیا مسلمان ہوجائے تو مجھے کیا فائدہ ۔تو پہلی منزل یہ ہے کہ خود سازی کی جائے اور یہ کوئی آسان کام نہیں ہے خود سازی،کیونکہ شیطان اتنا بڑا تجربہ کار ہے ۔اس نے ساری دنیا کو بنتے دیکھا ہے ،گویا ساری دنیا اور پوری نوع انسانی اس کے سامنے بنی ہے ،وہ دیکھتا ہےکہ کسے میں نے کس طرح روکنا ہے لہٰذا ہم عموما اسی میں الجھے رہتے ہیں ۔ابن طاووس کے متعلق ہے کہ حکومت بنی عباس نے قضاوت کی انہیں پیشکش کی کہ آپ قاضی بن جائیں تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ ( معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت اس کی عمر پچاس سال تھی)جو شخص پچاس سال کے عرصے میں اپنے نفس کے درمیان فیصلہ نہ کر سکا تو وہ دوسروں کا کیا فیصلہ کرے گا ۔

لہٰذا میرے عزیزو!پہلی منزل خود سازی ہے اب تو یہ بعد میں کہا گیا ہے کہ یہ دینی تعلیم ہے یہ دنیاوی تعلیم ہے ۔ورنہ تعلیم و تربیت لازم و ملزوم تھی اور اگر آپ آئمہ اہل بیت ؊ کے ارشادات اور قرآن مجید ،نہج البلاغہ،صحیفہ سجادیہ اور اس قسم کی چیزوں پر نگاہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اتنا زور تعلیم پر نہیں دیا گیا ہے جتنا تربیت پر ۔ٹھیک ہے کہ تربیت بغیر تعلیم کے نہیں ہوسکتی قرآن مجید میں علم حاصل کرنے کی آیات آپ کو گنی چنی نظر آئیں گی جب کہ وہ آیات جو تربیت انسانی کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اگر دیکھا جائے تو ہزاروں کی تعداد میں ہیں تو بعید نہیں لہٰذا پہلی منزل یہ ہے کہ نفس کی تربیت کی جائے ،خود اپنی تربیت کی جائے۔میرے جیسے لوگ جو امام مدظلہ سے متاثر ہوئے ہیں میں سمجھتا ہوں بہرحال ہر شخص کی الگ الگ فکر ہے کہ جتنی کام کی لگن مجھے ان سے پیدا ہوئی ہے اتنی لگن کسی شخص سے پیدا نہیں ہوسکی۔میں نے باقاعدہ تراجم کا سلسلہ امام کی توضیح سے شروع کیا تھا ۔ہم جس سے عقیدت عموما رکھتے ہیں تو اپنی نادانی اور جہالت کی وجہ سے یہ کوشش کرتے ہیں کہ اس کی عقیدت لوگوں پر ٹھونسیں ۔ظاہر ہے کہ محبت ہوجاتی ہے کی نہیں جاتی ،اور جہاں کمال ہو اس میں خود کشش موجود ہوتی ہےکہ وہ اپنی طرف کھینچے آج تو ماشاء اللہ پاکستان میں سب لوگ انقلابی ہیں ایک وقت تھا کہ کوئی سر زمین پاکستان میں یہ اعلان کرنے کے لئے تیار نہیں تھا کہ امام خمینی بھی مجتہد ہیں۔

چنانچہ جب آقای آیت اللہ العظمیٰ آقای حکیم مرحوم کی وفات کی مجالس ہورہی تھیں تو میں نے چند ایک احباب علمائے کرام جو لاہور میں تھے ان سے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ اس مجلس میں اعلان کروں کہ امام مدظلہ کی تقلید کی جائے تو کہنے لگے کہ یار ٹھر جاؤ دیکھیں ایرانی کیا کرتے ہیں۔میں نے کہا نہیں جب ایک شخص کو اہل سمجھا ہے تو ایرانی کہیں نہ کہیں کیا ہوتا ہے لہٰذا میں نے موچی دروازہ کی مسجد میں سب سے پہلے اعلان کیا کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اور ہماری یہ سمجھ ہے کہ ان کے اعلی کلمہ حق اور ان کے زہد و تقوی کی بناء پر ان کی تقلید کی جائے ،قرآن کا یہ وعدہ ہے ہم محبت جعل کرتے ہیں ۔جعل کی اصطلاح میرا خیال ہے آپ لوگ زیادہ جانتے ہوں گے ۔تو جو کسی میں کمال ہو بشرطیکہ ضمیر مردہ نہ ہو خواہشات نفسانی درمیان میں حائل نہ ہوں تو پھر قہراً محبت و مودت پیدا ہوجاتی ہے یقین جانیے ہمیں اس وقت تک ان کا نام معلوم نہیں تھا ،صرف آقای خمینی کوئی شخص ہے ،جنہوں نے اللہ کے لئے قیام کیا ۔بس اس کے علاوہ ہم یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ کہاں کے رہنے والے ہیں یہ بھی ہمیں پتہ نہیں تھا کہ خمین بھی کوئی شہر ہے ۔بس اتنا سنا تھا کہ وہ ایک شخصیت ہیں کہ جنہیں آقای خمینی کہا جاتا ہے چنانچہ جب میں نے چاہاکہ خط لکھوں تو وہاں نیوکیمپس یونیورسٹی میں ایرانی طالب علموں سے ان کا نام پوچھا ۔بہرحال اس کا معنی یہ ہے کہ نام کوئی حیثیت نہیں رکھتا فقط کام ہی ہے۔

حالانکہ اس زمانے میں اور اس وقت کے مراجع حضرات تھے ان کے نام ہم نے سنے ہوئے تھے لیکن امام کا نام نہیں سنا ہوا تھا ان کی حیثیت ایک مدرس کی تھی ،لیکن جب وہ خود سازی کی منزلیں طے کرچکے تو پھر افراد سازی ہوئی ۔دوسری منزل ہے افراد سازی بدقسمتی سے اس معاملے میں بھی ہم صفر ہیں خدا یہ کہتا ہے کہ : قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَہْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ ……﴿التحريم: ٦﴾

ہم لوگوں کی چھان بین کرتے ہیں گھر والوں کو تبلیغ کم کرتے ہیں جیسا کہ عموما آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہمارے مولوی صاحبان جب تقریریں کرتے ہیں کہ طالب علم بننا چاہیے اور دین کی طرف آنا چاہیے اور دھوئیں دار تقریریں کریں گے لیکن یہ کہ ہماری اولاد کا لجوں میں پڑھے گی تو یہیں سے پتہ چل جاتا ہے کہ دین اور علم کی اہمیت ہمارے دلوں میں کیا ہے کہ ہماری اولاد تو پڑھے کالجوں میں اور لوگوں کی اولاد آکر پڑھے مدرسوں میں اگر واقعا علم دین اچھی چیز ہے اور یقینا ً اچھی چیز ہے تو پھر افراد کے انتخاب میں بھی ہمیں اپنے گردوپیش اور جن کے ساتھ زیادہ تعلق ہے ان کو زیادہ اس طرف لگانا چاہیے اور یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اسلام ﷺ کو اسلام میں چالیس (۴۰) سال اپنا کردار ایک معاشرے کے سامنے پیش کرنا پڑا جو انتہائی نامساعد معاشرہ تھا ۔عموما طالب علم تنگ آجاتے ہیں مسئولین ہمارے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے ہمارا شہریہ پورا نہیں ہوتا ،جی یہ نہیں ہوتا جی وہ نہیں ہوتا تو پھر عزیزو معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں علم کی محبت نہیں ہے ۔یہ تو مجبوری ہے کہ زبردستی ماں باپ نے مدرسہ دینیہ میں داخل کردیا تھا لہٰذا الٹے سیدھے کسی نہ کسی طرح سے قم میں آگئے ۔وقت گزارنا ہے اب کچھ مدت یہاں وقت گزار لیا ہے تو باقی وقت جاکر پاکستان میں گزاریں گے ۔ہم میں جو تڑپ اور جذبہ ہونا چاہیے وہ نہیں ہے کہ واقعا علم کے ساتھ لگاؤ ہو کسی بزرگ کے متعلق ملتا ہے کہ جب وہ رات میں مطالعہ کرتے تھے اور وہ کسی علمی مطلب کو حل کرتے تھے تو یہ کہتے تھے کہ (أَیْنَ الْمَلُوْکُ وَأَبْنَاءُ الْمَلُوْکِ ) وہ لذت وہ لطف جو انہیں مسائل دینیہ کے حل کرنے میں حاصل ہوتا تھا وہ پھر کہتے تھے کہ وہ لذت ان کو کیسے حاصل ہو سکتی ہے اور اب یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی کیونکہ ہم اس وادی کے شہسوار ہی نہیں ہیں اس سے ہمارا تعلق ہی نہیں ہے ورنہ اس میں حسن ہے کمال ہے کہ سارے کمال جس کے مقابلے میں ہیچ ہیں آل محمد ﷺ نے خصوصاً امیر المومنین ؑ نے فرمایا: رَضِينَا قِسْمَةَ الْجَبَّارِ فِينَا/لَنَا عِلْمٌ وَ لِلْجُھَّالِ مَالٌ
ترجمہ:خدا کی تقسیم پر راضی ہیںہمارے لئے علم اور جاہلوں کے لئے مال۔

ایک صاحب حضرت رسالت مآب کی خدمت میں حاضر ہوئے تو گفتگو کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا (وَاللہِ مَاوَرَّثَکَ اللہُ…… ) خدا کی قسم اللہ نے تمہیں قرآن کے ایک حروف کا بھی وارث نہیں بنایا اس گفتگو کا سبق طرز یہ بتاتا ہے کہ ہم وارث علم الکتاب ہیں ۔تو بہرحال اگر ہمیں علم کی لذت حاصل ہوہمیں علم سے محبت ہو ،علم سے پیار ہو تو ہم ترقی بھی جلدی کریںاور باقی جتنی مشکلات ہیں تو جب انسان کسی چیز سے محبت کرتا ہے تو جب وہ مل جائے تو اس کی راہ میں جتنی مادی مشکلات ہوں گی وہ برداشت کرے گا آپ کبھی ”مُنْیَۃُ الْمُرِیْد“ کا یا ان کتابوں کا بھی مطالعہ کریں جو علم کے بارے میں لکھی گئی ہیں ۔مجھے شرم آتی ہے ،میں اس کا اہل نہیں ہوں کہ آپ کو وعظ و نصیحت کروں ،نہ یہ زبانی کہہ رہا ہوں حقیقت یہ ہے کہ جو کہتے ہیں کہ جو دل سے بات نکلتی ہے وہ اثر رکھتی ہے جو زبان سے نکلتی ہے وہ زبان پر اثر رکھتی ہے ۔ہمیں علم سے عشق پیدا کرنا چاہیے اور جب ہمیں علم سے عشق پیدا ہو گا اور اس کی ہم بقا چاہیں گے تو وہ امیر المومنین ؑ کا ارشاد معالم کے ابتداء کی احادیث میں ہے کہ جب علم آتا ہے تو وہ عمل کو پکارتا ہے اگر عمل لبیک کہے تو وہ علم رہتا ہے اور اگر عمل لبیک نہ کہے تو وہ علم رخصت ہوجاتا ہے ۔علم روشنی ہے جہالت ایک تاریکی ہے تو حقیقی علم جیسے گذشتہ مجلس میں میں نے عرض کیا تھا لازم و ملزوم ہے تقوی و خوف خدا عموما بوگس باتیں ہیں یعنی جھوٹ موٹ اس کو ڈنڈی مار ، اس کو یہ کر اس کو وہ کر تو مایوسی ہوتی ہے کہ اگر یہی لیل ونھار رہے تو ہم لوگ کیا کریں گے ۔ہم دین کی خدمت کیا کرسکیں گے یہ تو بعد کی بات ہے ہم پہلے اپنے اندر کی بات نہیں کہہ سکتے اپنے درس کو خدا اور رسول کے احکام کے تابع نہیں کرتے دوسروں کے لئے ہم کیا خاک کریں گے ۔

تو بہر حال پہلی منزل خود سازی ہے اور دوسری منزل ہے افراد سازی اور دوسری منزل افراد سازی میں آپ دیکھیں گے کہ پیغمبر اسلام نے اپنے کردار کا اعلی نمونہ پیش کیا کہ آپ کے گھر میں تین افراد تھے جب آپ نے اعلان رسالت کیا تو سب سے پہلے جن لوگوں نے آپ کی تصدیق کی وہ وہی تین افراد تھے جو آپ کے گھر سے ایک جناب خدیجہ الکبری تھیں ایک امیر المومنین ؑ تھے اور حضرت زید تو گویا یہ منزل ہے یا دوسرے لفظوں میں یوںسمجھ لیجئے کہ گھر سازی کی ۔پھر یہ کہ گھر سےآگے قدم بڑھایا جائے پھر ایک حلقہ اثر ہوتا ہے تو ان کو اپنے ساتھ ہموار کریں،لیکن وہ پہلی منزلیں ہم طے کرچکے ہوں گے تو پھر دوسروں لوگوں پر بھی اس کا اثر ہوگا اگر آپ خود سازی کی منزل ہی طے نہ ہوئی اور گھر کے افراد ہی ہم سے متاثر نہیں ہوسکے تو باہر کے افراد کیا خاک متاثر ہوں گے۔ایک شخص جو واقعا انقلاب اسلامی چاہتا ہو اس کو اس زاویہ نگاہ سے دیکھنا پڑے گا ۔چنانچہ امام نے خود سازی کے بعد جب افراد سازی کی منزل میں اور گھر سازی کی منزل میں آئے تو یہ کہا جاتا ہے بہت سے لوگ ٹھیک ہوئے اور ایسا ہوتا بھی ہے بہت سے لوگ پیغمبروں کے ساتھ رہنے والے بھی ٹھیک نہیں ہوئے تو اس کا یہ معنی نہیں کہ اس میں کمی ہے بات میں جان ہونی چاہیے اگر مقابل شخص کا ظرف اس کا اہل نہیں ہے تو پھر ظاہر ہے کہ اس سے وہ متاثر نہیں ہوگا۔مدت دراز تک اچھے ماحول میں رہنے والا انسان بھی اگر دین و دیانت نہیں رکھتا اور ویسے کا ویسا اور کورے کا کورے رہتا ہے تو حیف ہے۔ ہم اس علم کے گہوارے میں چار پانچ سال سے رہتے ہوئے بھی وہ آداب و اطوار و اخلاق جو کچھ وہاں سے لے کر آئے تھے وہی لے کر واپس چلے جائیں گے تو جہاں پر خدا نے توفیقات ایسی دی ہوں کہ انسان خود سازی کرسکتا ہے اور پھر نہ کرے وہی عادتیں وہ سب کچھ ہوجو پہلے تھا ۔تیسری منزل کیا ہے کہ افراد سازی خود سازی گھر سازی اور پھر چوتھی منزل ہے معاشرہ سازی۔ظاہر ہے کہ ایک شخص ہر جگہ تو نہیں جا سکتا لہٰذا وہ ایک جماعت تیار کرے جو اس کے علمی و عملی پیغام کو دوسروں تک پہنچائے تو جب یہ معاشرہ سازی کی منزل تک ایک معتد بہ جماعت اس کا ساتھ دے تو پھر آخری منزل ہے ملک سازی ۔اور میں سمجھتا ہوں کہ اس انقلاب نے یہ تمام مراحل طے کر لئے ہیں۔

ایک شخص اٹھتا ہے یہ بھی ہمارے لئے ایک عبرت ہے کہ اس سے نہیں ڈرانا چاہیے کہ میں اکیلا ہوں (کَانَ إِبْرَاہِیْمُ أُمَّۃً وَّاحِدَۃً) وہ تو ابراہیم خلیل اللہ تھے بڑی عظیم ہستی تھے اگر آپ حضرت ابراہیم کے حالات زندگی کا بغور مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ آپ معمولی معمولی چیزوں اور ہر ہر بات میں اللہ پر بھروسہ اور تقوی رکھتے تھے۔ساری دنیا مخالف ہے اور یہ اکیلا اپنی دھن میں لگا ہوا ہے ۔

چنانچہ اس دنیا نے آپ کو جلانا چاہا تو یہاں بھی ایک پورا شہر بلکہ پورا معاشرہ ایک شخص کے خلاف ہوجاتا ہے ،لیکن اس کو پرواہ نہیں ہے اور وہ یہ کہتا ہے کہ اللہ میرے ساتھ ہے ۔لہٰذا جو اصلاح معاشرہ چاہتا ہے اور انقلاب لانا چاہتا ہے اس کے لئے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ اللہ پر اتنا توکل رکھتا ہو کہ ساری دنیا بھی اس کی مخالف ہوجائے تو اس کو پرواہ نہ ہو ۔

اسی لئے صادق آل محمد ؑ فرماتے ہیں کہ دنیا میں رہنے والے سارے لوگ کہیں کہ تو برا ہے لیکن خدا کے اور تیرے درمیان معاملہ ٹھیک ہے تو کوئی فرق نہیں پڑتا ان کے کہنے سے کوئی برا نہیں بن جاتا اور اگر ساری دنیا قبلہ و کعبہ کہنے لگے تو کیا کسی کے اچھا کہنے سے آدمی اچھا ہوجاتا ہے ۔پس معلوم ہوا کہ کسی کے اچھا کہنے سے آدمی اچھا نہیں ہوجاتا اور کسی کے برا کہنے سے برا نہیں ہوجاتا ۔کیونکہ اگر ایسی بات ہوتی تو آپ جانتے ہیں کہ پروپیگنڈا بہت بڑی چیز ہے،اس وقت دنیا میں سب سے بڑی طاقت پروپگینڈا سمجھا جاتا ہے بنی امیہ کے بہتر(72) ہزار منبروں پر امیر المومنین ؑ کو برا بھلا کہا جاتا تھا ۔جمعوں کے خطبوں میں صرف امیر المومنین ؑ کی ذات تھی کہ جن کو برا بھلا کہا جاتا تھا۔ کروڑوں روپے خرچ کئے جاتے تھے کہ کوئی مشہور راوی ان آیات کو جو امیر المومنین ؑ کی شان میں ہیں انہیں ان کے مخالفین کے حق میں کردے نہ فقط مخالفین بلکہ لاکھوں کی رقم خرچ کی گئی ایک محدث پر کہ وہ آیت:وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْرِيْ نَفْسَہُ ابْـتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللہِ ﴿البقرة: ٢٠٧﴾

کو ابن ملجم کے حق میں ایک روایت کے ذریعہ کردے چنانچہ ایسا ہوا اور آپ دیکھیں کہ وہ حدیث کتابوں میں موجود ہے ۔

اہل بیت کی دشمنی جتنی دنیائےانسانیت میں کی گئی میرا خیال ہے کہ کسی اور خاندان کی نہیں کی گئی ۔میرا خیال ہے کہ اگر اتنی مخالفت کسی اور خاندان کی کیجاتی تو اس کا نام ونشان تک نہ رہتا یعنی کوشش یہ ہوتی تھی کہ جو چیزیں ان کے ساتھ منسوب ہیں حتی قبروں کے نشان بھی ختم کرنے کی کوشش کی جاتی تھی آج بھی آپ مکہ یا مدینہ جائیں دوسرے لوگوں کی قبریں ٹھیک ہیں ان کی قبریں بنی ہوئی ہیں پکی نہ سہی کچی ٹھیک سے بنی ہوئی ہوں لیکن اہلبیت ؑ کی قبروں کو مٹانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جارہا ہے لیکن باوجود اس کے کچھ نہیں ہوا میں یہ کہا کرتا ہوںکہ بنی امیہ و بنی عباس نے یہ کوشش کی کہ قبروں کے نشان بھی مٹادیئے جائیں اب ہوا اس کے برعکس ہے کہ جہاں کہیں بھی احتمال ہوا ہے کہ شاید اہل بیت کی کوئی فرد یہاں دفن ہے وہاں بھی قبر موجود ہے اور جو متعصب تھے جن کے پاس تخت و تاج تھا حکومتیں تھیں دولت تھی سب کچھ تھا ۔بڑوں سے لے کر چھوٹوں تک کسی ایک کی بھی قبر کا نشان نہیں ہے۔

پس جو شخص خدا کا ہوتا ہے خدا اس کا ہوجاتا ہے پھر اس کو ساری دنیا اگر مٹانا چاہے تو نہیں مٹا سکتی اور اس گئے گذرے زمانے میں میں سمجھتا ہوں ایک زندہ معجزہ ایک زندہ نمونہ یہ انقلاب اسلامی ایران ہے۔آپ نہیں جانتے کہ اس کو مٹانے کے لئے اور ختم کرنے کے لئے دنیا کتنی کوشش کررہی ہے۔پہلے تو یہ دنیا چاہتی ہی نہیں تھی کہ یہ انقلاب آئے کچھ یہ سمجھتے تھے کہ یہ چار مولوی ہیں ان سے کیا ہوسکتا ہے یہ بھی ایک زندہ معجزہ ہے۔

جیسے علامہ سید علی نقی نقن صاحب قبلہ مرحوم کا ایک جملہ ہے کہ دنیائے عیسائیت یہ کہتی ہے کہ سرکار رسالت نے معاذ اللہ دین کو تلوار کے زور سے پھیلایا ہے آپ کہنے لگے کہ چنانچہ جو عکس بنایا گیا ہے حضرت کا ،اس تصویر میں بھی یہ ہے کہ ایک ہاتھ میں تلوار ہے اور ایک ہاتھ میں قرآن کہنے لگے کہ اس کا عکس بنایا ہے جس نے کبھی ہاتھ میں تلوار لی ہی نہیں تھی کسی میدان میں رسول اسلام ﷺ نہیں لڑے۔

دیکھئے جو شخص خدا کے لئے کام کرتا ہے وہ اتنا مطمئن ہوتا ہے کہ دنیا ادھرکی ادھر ہوجائے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا زبانی طور پر کہنا بڑا آسان ہے لیکن اس کا عملی مظاہرہ کرنا بے حد مشکل ہے ۔چنانچہ اتفاق سے جب انقلاب کے دوران امام مد ظلہ پیرس سے آرہے تھے میں بھی انہیں ممالک میں اس وقت تھا میں نے ٹیلی ویژن پر وہ مظاہرہ دیکھا ۔سب سے پہلے امام نے تقریر کی تو بعینہ وہی نقشہ تھا کہ جو شب عاشور حضرت سید الشہداء نے اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ اب ایسے ملک میں جارہے ہیں کہ جس میں پورے ملک کی مشینری ان کے مخالف ہے دشمن ہے لہٰذا ایک بوڑھا آدمی جس کے ہاتھ میں کوئی ہتھیار نہیں ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے ادھر جہاز ہی اڑا دیا جائے۔اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تہران پہنچتے ہی ختم کردیئے جائیں لیکن امام نہیں رکتے۔انہوں نے فرمایا کہ میں کسی کا ذمہ نہیں لیتا لہٰذا میرے ساتھ کوئی نہ آئے میں جاؤں گا تو وہ وہاں سے چلے۔کہتے ہیں کہ جتنے آدمی اس جہاز میں تھے صحافی وغیرہ سب بیدار تھے گویا سب مشوش تھے کہ کیا ہوگا لیکن وہ کہ جس کو جان کا خطرہ ہونا چاہیے تھا وہ وہیں پر سویا کہتے ہیں کہ ایک صحافی نے جاکر قریب سے دیکھا کہ دیکھوں کہ واقعا سوئے ہوئے ہیں یا نہیں۔اور یہ باقاعدہ مغربی ممالک کے اخبارات میں چھپا ہے ۔وہ کہتا ہے کہ واقعا خراٹے لے رہے تھے۔یہ ہے جب انسان کاتعلق خدا کے ساتھ ہوتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ میں یہ کام خدا کے لئے کر رہا ہوں اب اس میں کامیابی ہوتی ہے یا نہیں یہ اس خدا کا کام ہے میرا نہیں ہے۔اس کا کام یہ ہے کہ اس کام کے لئے اپنے آپ کو آمادہ کرے وہ اس نے کردیا چنانچہ ساری دنیا کی نگاہیں لگی ہوئی تھیں کہ تہران میں جب پہنچیں گے تو پتہ نہیں ان کے ساتھ کیا ہوگا تہران پہنچ گئے اور لوگوں نے بھی شایان شان استقبال کیا شاید یہ استقبال دنیا میں بے نظیر ہے۔ایسا استقبال کسی کا نہیں کیا گیا ہمیں پتہ ہے کہ دنیا کے کچھ لیڈر دیکھتے رہتے ہیں اور داڑھیاں سفید ہوجاتی ہیں شکلیں تبدیل ہوتی ہیں دکھایا کسی اور گاڑی میں جاتا ہے اور بٹھایا کسی اور گاڑی میں جاتا ہے۔لہٰذا اب ایک ایسے شخص کو کہ موجودہ حکومت جن کی مخالف ہے اصولی طور پر کسی ایسی جگہ لے جائیں جو محفوظ ہو لیکن امام کہتے ہیں کہ میں بہشت زہرا جاؤں گا چنانچہ سید احمد خمینی کا میں نے ایک انٹرویو پڑھا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ کوئی آدمی بھی راضی نہ تھا کہ آپ وہاں جاتے لیکن امام نے کہا کہ میں جاؤں گا۔سید احمد خمینی کہتے ہیں کہ جب وہاں گئے تو ہماری یہ کوشش ہوتی تھی کہ آدمی ان سے دور دور رہیں خدانخواستہ کوئی شخص حملہ کردے لیکن امام پبلک کی طرف نزدیک نزدیک جاتے تھے ۔چنانچہ مجھ سے رہا نہ گیا تو میں نے کہا کہ آغا……تو انہوں نے جواب دیا کہ (تو کہ ترسو ہستی) یعنی تو ڈرپوک ہے۔خیر وہاں پہنچے تقریر کی جناب احمد خمینی کہتے ہیں کہ اس کے بعد یہ ہوا کہ امام اچانک پبلک کی کثرت کی وجہ سے غائب ہوگئے اور تقریبا دو گھنٹے تک گم رہے ۔اور ساری دنیا پریشان تھی کہ کیا ہوا کہاں گئے۔اغوا کر لئے گئے ہیں ،ماردیئے گئے ہیں ،کیا ہوا ہے،ادھر بھاگ ادھر بھاگ۔وہ کہتے ہیں کہ آخر ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہم نے دیکھا کہ ایک ایمبولیس میں بیٹھے ہوئے ہیں۔

تو اب جو لوگ چاہتے ہیں کہ دوسرے ملکوں میں انقلاب کی اور اس قسم کے انقلاب کی کوشش کریں۔ضروری ہے کہ ان میں امام خمینی جتنا علم ہونا چاہیے ۔اتنا تقوی ہونا چاہیے ،اتنا اللہ پر توکل ہونا چاہیے ،اتنی زحمت و مشقت اٹھانی چاہیے ۔اتنے شاگرد پیدا کرنے چاہئیں۔اتنی معاشرہ سازی کرنی چاہیے ۔پھر توقع کی جاسکتی ہے کہ شاید وہاں انقلاب آجائے۔ محال نہیں ہے نا ممکن نہیں ہے اور امام خمینی کوئی معصوم نہیں ہیں ۔یہ دو لفظیں تند و تیز لوگوں کو بہت چبھتی ہیں ۔لیکن میرا خدا جانتا ہے کہ جتنی مجھے عقیدت ہے ان سے پتہ نہیں کسی اورکو ہو ۔اس لئے کہ ہم نے اس وقت ساتھ دیا جب کوئی ساتھ دینے والا نہ تھا ۔ایک صاحب گئے نجف اشرف ہمارے دوستوں میں سے ہیں اب ایران میں رہتے ہیں غیر اہل علم ہیں توجب طلبہ سے مل کر آئے تو مجھ سے کہنے لگے کہ شاہ جی کس مصیبت میں آپ نے ڈال دیا ہم کو میں نے کہا کہ کیا ہوا ؟کہنے لگے مولوی صاحبان کہتے ہیں کہ وہ تو مجتھد نہیں ہیں کہ جس کی آپ نے تقلید کروادی ہے ۔آپ نے ہمیں ساری قوم کو پھنسا دیا آج وہ امام کہتے کہتے نہیں تھکتے تو بہرحال اقتدار کو تو سلام کرنا بہت آسان ہوتا ہے لیکن مشقت و مصیبت کے وقت ساتھ دینا بہت مشکل ہوتا ہے ۔

میری یہ خواہش تھی کہ امام جب پیرس میں پہنچ گئے تھے ایک وفد پاکستانی علماء کی طرف سے ان کی طرف بھیجیں اور ان کو جاکر کہیں کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں ایک آدمی بھی تیار نہیں ہوا جانے کے لئے یقین جانئے اس بات کا شاید اظہار اچھا نہ ہو میں اپنا مکان پیچ کر وہاں گیا تھا اپنے خرچ پر گیا تھا پھر یہ ہے کہ سلام کرنا تو آسان ہے میرے دل میں یہ احساس بھی تھا کہ یہ مشکلات میں پھنسے ہوئے ہیں لہٰذا ہمیں جتنا ہوسکے کچھ کرنا چاہیے جس دن امام پیرس سے واپس آئے ہیں اس دن کی رسید میرے پاس موجود ہے ۔تو کوئی بھی جانے کے لئے تیار نہ تھا صرف ایک سیٹھ صاحب تھے ان کے خاندان کو باقاعدہ بڑی مشکل سے راضی کیا گیا ۔کیونکہ وہ تازہ تازہ حج سے ہو کر آئے تھے کاروبار کا معاملہ تھا جب انہوں نے انکار کردیا ۔اور کہنے لگے کہ میرے بھائی سے پوچھیں اور جب ان کے بھائیوں سے پوچھا تو وہ کہنے لگے کہ ابھی تو دو مہینہ باہر کاٹ کر آئے ہیں بات بھی ان کی معقول تھی میں بہت مایوس ہوا ۔اب میں آپ کو ایک گر کی بات بتاؤں کہ میں جب کہیں معاملات میں پھنس جاؤں جو کام نہ نکلتا ہو تو پھر کسی خاص معصوم کے ساتھ توسل کرتا ہوں ۔مجھے یاد نہیں غالبا کسی معصوم کی ولادت تھی غالبا امام موسیٰ کاظم ؑ کی تھی میں نے کہا کہ مولا کہ اب ان سے نہیں کہوں گا کہ میرے ساتھ جائیں ۔میرا جتنا کام تھا کیا کوئی ساتھ نہیں دیتا تو میں کیا کروں ۔چنانچہ پھر سیٹھ صاحب کا ٹیلی فون آیا ۔کہنے لگے کہ کیا بنا آپ کی تیاری کا میں نے کہا کہ میں کیا بتاؤں مجھے تو زبان ہی نہیں آتی وہ ملک میں نے دیکھا ہی نہیں ہے ۔ تو اکیلا میں کیسے جاسکتا ہوں تو آپ تو جاتے ہی نہیں ہیں ۔کہنے لگے کہ اچھا پھر آپ اپنا پاسپورٹ بھیجیں چنانچہ پھر ہم دو آدمی یہاں سے گئے ۔

اس زمانے میں ہندوستان کی حکومت نے امام کو دعوت دی کہ آپ ہندوستان آجائیں لیکن مسلمانوں کے پاس ہندو جو بت پرست ہیں ان جتنی بھی عقل نہیں ہے اتفاق سے میں ان دنوں میں اسلام آباد میں تھا کچھ اور علماء بھی گلگت کے طلباء آئے ہوئے تھے ۔انصاری صاحب اس زمانے مذہبی امور کے وزیر تھے ۔ہم نے ٹیلی فون کیا کہ ہم آپ کو ملنا چاہتے ہیں تو خیر ہم پانچ سات مولوی صاحبان سب کے سب میرے سوا عبا قبا میں تھے ۔تو اس نے سمجھا کہ کوئی مطالبات لے کر آئے ہیں ۔تو میں نے کہا کہ ہم آپ کے شکرگزار ہیں کہ آپ نے اتنی جلدی وقت دے دیا ہے کہنے لگے کہ نہیں نہیں میرے نزدیک سب شیعہ سنی ایک ہیں ۔البتہ میں کسی کی رو رعایت نہیں کرتا ۔میں نے کہا نہیں ہم آپ سے کچھ مانگنے نہیں آئے ہیں ۔آپ کو کچھ دینے آئے ہیں خیر وہ ٹھنڈا ہوگیا کہنے لگا کہ کیا ۔میں نے کہاکہ وہ بات یہ ہے کہ یہ طے ہے کہ شاہ اب رہ نہیں سکتا ۔اور حالات اس جگہ پر پہنچ چکے ہیں کہ اب اس کا رہنا مشکل ہے ۔لہٰذا ہندوستان کی حکومت نے امام خمینی کو دعوت دی ہے نہ وہ ہندوستان جائیں گے اور نہ پاکستان آئیں گے یہ طے ہے۔لیکن اگر آپ اس وقت ان کو دعوت دے دیں تو ایران کی قوم تمہاری شکرگزار ہوگی۔کہنے لگا کہ آپ جانتے ہیں کہ یہ موقعے بڑے نازک ہوتے ہیں ۔کہنے لگا کہ وہ امام خمینی جو ہیں ان کو سب شیعہ تو نہیں مانتے ہیں۔اب اس نے نکتہ لگایا ۔اتفاق سے بعض آدمی ہوتے ہیں وہاں اس کا جو سیکریٹری تھا وہ شیعہ تھا تو اس کی طرف دیکھا کہ کیا خیال ہے ۔کہنے لگا کہ نہیں جی سارے مانتے ہیں ۔پورے شیعہ ان کے ساتھ ہیں ۔خیر اس نے کہا کہ ضیاء صاحب اس وقت نہیں ہیں سکھر گئے ہوئے ہیں وہ آئیں گے تو میں ضرور ان سے بات کروں گا تو بہرحال میرے عزیزویہ انقلاب کی ابتدائی باتیں ہیں ۔

الحمد للہ کہ انقلاب کامیاب ہوا جن مشکلات سے یہ انقلاب گذرا ہے حقیقتاًیہ خدا کی تائید نہ ہوتی تو کب کا ختم ہوگیا ہوتا ۔اور دشمنان اسلام نےپورا اپنا ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا ۔جتنا ان سے ہوسکتا تھا یہ تو میں سمجھتا ہوں کہ معجزہ کے طور پر یہ انقلاب بچا ہوا ہے دس سال نکال جانا ،ان حالات میں جبکہ اندر بھی دشمنان انقلاب تو وہ پارٹی وغیرہ انقلاب کو ختم کرنے میں لگی ہوئی تھی اور باہر سے استعمار نہیں چاہتا تھا کہ یہ انقلاب کامیابی کی منازل طے کرے۔

آپ کا کافی وقت خرچ کیا ہماری دعا ہے کہ یہ انقلاب اسلامی ایران اپنے حقیقی اہداف تک پہنچے۔اور خداوند ذوالجلال اس کے عظیم رہبر امام خمینی اور دیگر مسئولین کشور کو شر دشمنان و شیاطین سے محفوظ رکھے۔ والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .