تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
حوزہ نیوز ایجنسی | یہ توفیق اللہ اپنے خاص بندوں کو عطا کرتا ہے کہ انہیں قرآن کی خدمت کا موقع فراہم کر دیتا ہے۔ مادر علمی جامعۃ الکوثر میں پورے قرآن مجید کی تفسیر درسا مکمل ہو ئی اس کا آخری درس تھا۔ہم بھی بڑے عرصے بعد شریک بزم قرآن ہوئے۔
استاد محترم، مفسر قرآن، شیخ محسن علی نجفی دام عزہ نے اپنے خاص اسلوب میں آیات کے اہم الفاظ پر لغوی بحث کی پھر لفظ آیت میں جس معنی میں استعمال کیا گیا ہے وہ بتایا،قرآن کے دیگر مقامات پر اگر اس معانی کی آیات آئی ہیں تو ان کا تذکرہ ہوا اور پھر احادیث شریفہ سے آیات کی مزید وضاحت کی۔آخر میں کلی پیغام کا ذکر کیا۔ایک دو دنوں کی بات نہیں ہے اس عمل میں پورے چودہ سال لگے۔الحمد للہ پوری تفسیر استاد محترم کی زبانی ریکارڈ کی گئی۔
استاد محترم قرآن کے عاشق ہیں۔ ہمارے آپ کے درس قرآن میں شرکت کو بھی بیس سال ہو گئے۔ ہم دو ہزار دو میں جامعہ اہلبیت میں داخل ہوئے تو ماہ مبارک رمضان میں استاد محترم عوام کے لیے درس تفسیر دیا کرتے تھےیہیں سے ہم بھی شریک درس ہوئے۔آج دل چاہتا ہے کہ استاد محترم کی کچھ خدمات قرآنی کا ذکر کر لیا جائے۔
استاد محترم نے قرآن مجید پر سید الفقہاء آیۃ اللہ العظمی سید ابوالقاسم خوئیؒ کی شہر آٖفاق تفسیر البیان فی تفسیر القرآن کا ترجمہ استاد محترم علامہ محمد شفاء نجفی صاحب سے کرایا اور اسے طبع کرایا۔اگرچہ آغا خوئی ؒنے اس کی صرف ایک جلد لکھی جو مقدمہ اور سورہ فاتحہ کی تفسیر پر مشتمل ہے مگر سید کے قلم نے جمع و تدوین قرآن سے لے کر تحریف قرآن کی نفی تک ایسی خوبصورت ابحاث سپرد قلم کیں کہ علوم قرآنی کے طالب علموں کے لیے علم و دانش کا خزانہ ہیں۔
استاد محترم نے قرآن مجید کا ترجمہ کیا اورحاشیہ بھی تحریر فرمایا۔یہ عام و خاص میں مقبول ترجمہ قرآن ہے چند سال پہلے متحدہ جمعیت اہل حدیث کے سربراہ مولانا ضیاء اللہ شاہ بخاری صاحب فرما رہے تھے کہ میں شیخ صاحب کے ترجمہ کو اپنی گاڑی میں رکھتا ہوں اور اپنے اہلحدیثوں سے کہتا ہوں کہ ترجمہ دیکھیں اگر نام ہٹا دیا جائے تو تم کہو یہ ہمارا ترجمہ ہے۔اس ترجمہ قرآن اور اس کے حواشی پر انشاء اللہ کسی وقت تفصیل سے کوئی علمی مقالہ تحریر کروں گا۔اس کی یہ خصوصیت اسے ممتاز کرتی ہے کہ اس میں سائنس سے متعلقہ ابحاث جدید تحقیقات کی روشنی میں بہت دقت سے پیش کی گئی ہیں۔ہمارے ایک محقق دوست بتا رہے تھے کہ میں کسی موضوع پر کام کر رہا تھا اور اس پر ایک پوری کتاب پڑھی اور پھر اس بحث سے متعلقہ چند آیات کا حاشیہ دیکھ لیا تو مجھے اس حاشیہ سے زیادہ فائدہ ہوا۔
ترجمہ قرآن میں آپ نے اپنے استاد بزرگوار کی پیروی میں ایک وقیع مقدمہ قرآن تحریر کیا اور جمع و تدوین قرآن پر مستشرقین کی طرف سے اٹھنے والے سوالات کے جوابات دیے۔اسی میں آپ نے تحریف قرآن کی بحث کو بھی بہت خوبصورتی سے کیا۔یہ مقدمہ اتنا پسند کیا گیا کہ اسے الگ سے کتابی صورت میں شائع کیا گیا۔اہل علم نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔
شیخ صاحب کی بڑی خدمت عصر حاضر کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک وقیع علمی و تحقیقی تفسیر کا لکھنا ہے۔ آپ نے دس جلدوں پر مشتمل الکوثر فی تفسیر القرآن کے نام سے تفسیر لکھی۔ اہل علم نے تفسیر الکوثر کا استقبال کیا۔پاکستان کی جامعات میں اس پر ایم فل کے کئی تھیسز ہو چکے ہیں اور پی ایچ ڈی کے کئی تقابلی مقالوں میں ایک اہم تفسیر کے طور پر منتخب کی گئی ہے۔
جامعۃ الکوثر کا شعبہ علوم قرآن استاد محترم کی محبت قرآن کا ایک شاہکار ہے۔آپ نے مدارس میں قرآن اور علوم قرآن کی کمی کو محسوس کیا اور اپنےحوزہ علمیہ قم میں موجود شاگردوں کے لیے ایک قرآنی موسسہ بنایا جس میں انہیں علوم قرآن پر حوزہ علمیہ قم کے بہترین اساتذہ سے تعلیم و تربیت دلوائی گئی۔یہ علمائے کرام جامعۃ الکوثر میں واپس تشریف لائے اور یہاں انہوں نے علوم قرآن کا شعبہ قائم کیا اور جدید اسلوب تدریس کے طریقہ ہائے کار کی روشنی میں انہوں نے چار سالہ نصاب تربیت دیا۔یوں میری معلومات کے مطابق جامعۃ الکوثر پاکستان کا پہلا مدرسہ بن گیا کہ جہاں الگ سے چار سالہ علوم قرآن کا سلیبس پڑھایا جاتا ہے اور جدید روش تحقیق سکھائی جاتی ہے۔اس کے اثرات بہترین لکھنے والوں کی صورت میں آج معاشرے کے سامنے ہیں۔پاکستان کے ایک بڑے اہلسنت مدرسہ کے شعبہ علوم قرآن کو نصاب کی تشکیل میں مشکلات تھیں ہم نے انہیں جامعۃ الکوثر کی سکیم آف سٹڈی بھیجی جو انہوں نے بہت پسند کی اور اپنے کورس کی تدوین میں اس سے فائدہ اٹھایا۔
محبت قرآن کا ایک سلسلہ حفظ قرآن کے مدارس کا قیام ہے۔آپ نے سکردو میں مدرسہ حفاظ القرآن سکردو کے نام سے ایک عالی شان مرکز حفظ قرآن کی بنیاد رکھی۔یہ مرکز صرف روایتی حفظ قرآن نہیں کراتا بلکہ ترجمہ قرآن بھی سکھایا جاتا ہے۔یہاں کے طلبہ حفظ قرآن میں اتنے ماہر ہوتے ہیں کہ آپ آیت کے چند الفاظ بولیں وہ فورا اس کا نمبر سورہ کا نام ،پارہ کا نام اور صفحہ کے دائیں بائیں تک بتا دیتے ہیں۔ مجھے یاد ہے ہمارے ایک دوست پروفیسر عرفان شہزاد صاحب ہمارے پاس آئے اور ذہن میں یہ بات بٹھائے ہوئے تھے کہ شیعوں کے حافظ قرآن نہیں ہوتے مگر جب ان بچوں سے ملوایا اور انہوں نے قرآن پڑھنا شروع کیا تو اتنے حیران ہوئے اور ان کے ذہن میں موجود غلط تصور ایسا ٹوٹا کہ انہوں نے ایک تفصیلی تحریر اس پر لکھی جس میں اس پروپیگنڈا کرنے والوں کی خوب خبر لی تھی۔اسی طرح کا ایک ادارہ چنیوٹ میں حفظ القرآن ماڈل سکول کے نام سے چنیوٹ میں بنایا گیا ہے جہاں اسی طریقہ کار کے مطابق سینکڑوں طلبا زیر تعلیم ہیں۔
جب استاد محبت قرآن سے سرشار ہو اور شاگردوں کی ایسی تربیت کرے تو شاگرد بھی خادم قرآن بنتے ہیں۔ محسن ملت کی سرپرستی میں مولانا سید محمدعلی ہمدانی نے الھادی ایجوکیشن سسٹم کے نام سے چند سال پہلے شروع کیایہ ادارہ اب ملک بھر میں اپنی شناخت بنا چکا ہے۔ گنجائش سے زیادہ طلبا ہیں اور اب دسیوں کنال پر مشتمل چکوال کیمپس تیزی سے بن رہا ہے جہاں پانچ سو سے زیادہ طلبا کی گنجائش ہو گی۔ ان شاء اللہ ہم جلد اس چمن قرآنی کو آباد ہوتے دیکھیں گے۔
دورہ تفسیر کے تکمیل کی آخری کلاس میں ایک خوبصورت نصیحت فرمائی کہ وہ عجب و غرور میں مبتلا نہ ہوں کہ میں نے زیادہ کام کر لیا اصل بات عمل کے قبول ہونے کی ہے اور عمل کا قبول ہونا بڑا مشکل ہے۔دعا مانگنی چاہیے کہ اللہ ہمارے عمل کو قبول کر لے۔ اگر عمل میں ریاکاری ہو تو سب کچھ منہ پر مارا جائے گا۔ استاد محترم کی اس نصیحت کے بعد میں اپنے گریبان میں جھانک رہا تھا کہ کچھ کیا بھی نہیں پر ساتھ ہی سمجھتے ہیں کہ جیسے بڑے تیر مار لیے اور لوگوں کو بتاتے پھرتے ہیں، جو ہماری تعریف نہ کرے ہمیں اچھا نہیں لگتا۔
استاد محترم کی بات پر ہی ختم کرنا چاہوں گا کہ خدا کی عطا اندھی بندر بانٹ نہیں ہے وہ انہیں کو عطا کرتا ہے جن میں اہلیت ہوبس یہی دعا ہے کہ خدا ہم میں کچھ اہلیت پیدا کر دے۔
خدا استاد محترم کا سایہ ہمارے سروں پر قائم رکھے۔