۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
تجلیل قرآن و القدس کانفرنس سکردو

حوزه/ حوزہ علمیه جامعۃ النجف، مجمع القراء بلتستان اور مجلس وحدت مسلمین شعبہ تربیت کے زیر اہتمام علامہ اقبال آڈیٹوریم انچن کیمپس سکردو میں ایک عظیم الشان" تجلیل قرآن و القدس کانفرنس" کا انعقاد کیا گیا۔

حوزه نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حوزہ علمیه جامعۃ النجف، مجمع القراء بلتستان اور مجلس وحدت مسلمین شعبہ تربیت کے زیر اہتمام علامہ اقبال آڈیٹوریم انچن کیمپس سکردو میں عظیم الشان"تجلیل قرآن و القدس کانفرنس" کا انعقاد کیا گیا، کانفرنس میں قرآن سے شغف رکھنے والے مؤمنین کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔

فلسطین کی آزادی کا مسئلہ کسی مسلک کا نہیں، بلکہ مسلم امہ کی غیرت و حمیت کا مسئلہ ہے، مقررین

تفصیلات کے مطابق، کانفرنس کی صدارت مجلس وحدت المسلمین کے صوبائی صدر گلگت بلتستان آغا سید علی رضوی نے کی جبکہ مہمان خصوصی استاد حوزہ شیخ سجاد حسین مفتی تھے۔ رکن جی بی کونسل اور جامعۃ النجف کے نائب پرنسپل شیخ احمد علی نوری اور صوبائی وزیر محمد کاظم میثم بھی اس کانفرنس میں شریک تھے۔

تجلیل قرآن کے ضمن میں "آل بلتستان مقابلہ حسن قرأئت کا" خاص اہتمام کیا گیا تھا، جس میں بلتستان بھر سے قاریان قرآن شریک ہوئے۔

حسن قرائت مقابلے کے منصفین بلتستان کے مشہور و معروف قاریان قرآن و برجستہ عالم دین شیخ ذاکر حسین آغا، شیخ غلام محمد صابری، شیخ محمد تقی ذاکر اور قاری عنایت علی تھے اور قرآنی پروگرام کی نظامت کے فرائض کرامت علی صاحب نبھا رہے تھے، جبکہ القدس کانفرنس کی نظامت شیخ محمد اشرف مظہر نے کی۔

فلسطین کی آزادی کا مسئلہ کسی مسلک کا نہیں، بلکہ مسلم امہ کی غیرت و حمیت کا مسئلہ ہے، مقررین

اس اہم کانفرنس کے مہمان خصوصی شیخ سجاد حسین مفتی نے "قرآن مجید دستور حیات" کے موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی۔

انہوں نے کہا کہ قوموں کی تاریخ عروج و زوال کی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔ 1457سالوں میں قرآن کو ماننے والے مسلمانوں کے لیے کافی نشیب و فراز آئے۔ موجودہ دور مسلم امہ کی تاریخ کا بدترین دور ہے۔ جس طرح فرعونی ریاست میں حضرت یعقوب علیہ السلام کی قوم زندگی گزار رہی تھی۔ یہی حالت آج کل ہماری بنی ہوئی ہے۔ یکسوئی، توازن اور زندگی کے مختلف شعبوں میں طاقت کا حصول کسی بھی ملت کی سربلندی کے لیے ضروری ہے۔

فلسطین کی آزادی کا مسئلہ کسی مسلک کا نہیں، بلکہ مسلم امہ کی غیرت و حمیت کا مسئلہ ہے، مقررین

شیخ سجاد مفتی نے مزید کہا کہ فلسطینی مسلمان اسرائیلی مظالم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ اس طرح کے مظالم سے نجات کے لیے ہمیں صراط مستقیم پر چلنے کی ضرورت ہے۔ کلام الٰہی اس راستے کی بہترین رہنمائی کرتا ہے۔ قرآن سے دوری کے نتیجے میں ہمارا معاشرہ متعدد اخلاقی و روحانی بیماریوں کا شکار ہے۔ان بیماریوں سے کامل شفا قرآن عطا کرتا ہے۔ بشر ہونے کے ناطے ہمیں زندگی کے ہر موڑ پر تائید خداوندی درکار ہے اور مدد خداوندی بھی قرآن کے راستے آسکتی ہے۔ اسی طرح ہم زندگی میں کامیابی کے خواہاں ہیں۔ اس کامیابی کی بشارت بھی ہمیں قرآن دیتا ہے، غرض ہمیں اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کو تاریکی سے نکال کر ہدایت کی راہ پر گامزن کرنے کی ضرورت ہے اور تاریکی کو مٹا کر روشنی لانے والی کتاب بھی قرآن مجید ہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ قرآن مجید حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا سب سے بڑا معجزہ ہے۔ حضرت علی علیہ السلام آپ ﷺ کا برحق جانشین کیونکر بنے؟ اس لیے کہ آپ ؑدیگر کے مقابلے میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد سب سے زیادہ تعلیمات قرآنی سے آشنا تھے۔ حضرت علی ؑ اور دیگر آئمہ معصومین علیہم السلام کے دشمن وہی تھے جو قرآن کے دشمن تھے۔ چونکہ آئمہ کرام علیہم السلام انسانی معاشرے میں قرآن کو دستور حیات کے طور پر نافذ کرنا چاہتے تھے۔ اسی کوشش کے نتیجے میں آئمہ معصومین علیہم السلام شہادت کے درجے پر فائز ہوئے ہیں۔

شیخ سجاد مفتی نے مزید کہا کہ جس دن ملت اسلامیہ نے قرآن مجید کو دستور زندگی سے نکال کر محض گھروں کی زینت بنائے رکھنے کا سلسلہ شروع کیا اسی دن سے یہ ملت زوال پذیر ہوئی۔ بیسویں صدی میں امام خمینی نے اپنے انقلابی منشور قرآنی تعلیمات کو قرار دیتے ہوئے ایرانی معاشرے میں قرآنی نظام نافذ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ آج ایران تمام تر عالمی پابندیوں کے باوجود علمی، سیاسی، ٹیکنالوجی اور ہر شعبہ زندگی میں ترقی کر رہا ہے۔ یہ سب قرآن کو اہمیت دینے کا نتیجہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ قرآن کو اللہ تعالیٰ نے ریاست، دلوں، جسموں اور گھروں پر حکومت کرنے کے لیے نازل کیا ہے، ہمیں اگر انفرادی، اجتماعی، ملکی اور بین الاقوامی میدانوں میں ترقی کرنی ہے تو قرآن مجید کو فروغ دینے اور تعلیمات قرآن کو انفرادی اور اجتماعی زندگی میں عملی طور پر نافذ کرنے کی ضرورت ہے اس ضمن میں ترجمہ قرآن، تفسیر قرآن اور تفہیم قرآن کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس طرح کی کانفرنس قرآن شناسی کی راہ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔

کانفرنس سے ممبر جی بی کونسل و نائب پرنسپل جامعۃ النجف سکردو شیخ احمد علی نوری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تجلیل قرآن اور قدس کی آزادی آج کے دور کے دو اہم موضوعات ہیں۔ قرآن ہمیں آزادی کا درس دیتا ہے اور ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا پیغام دیتا ہے۔ قرآنی تعلیمات کو سامنے رکھتے ہوئے مسئلہ فلسطین مسلم امہ کے لیے تین مختلف زاویوں سے اہمیت کا حامل ہے۔ خوبصورت و زرخیز سرزمین کا مسئلہ، مسجد اقصی یعنی ہمارے قبلۂ اول کا مسئلہ اور مظلوم فلسطینی مسلمانوں کا مسئلہ۔ اس وقت تینوں حوالوں سے فلسطین پر اسرائیل کا غاصبانہ اور ناجائز قبضہ ہے۔

فلسطین کی آزادی کا مسئلہ کسی مسلک کا نہیں، بلکہ مسلم امہ کی غیرت و حمیت کا مسئلہ ہے، مقررین

انہوں نے مزید بتایا کہ مفسر قرآن و معلم قرآن امام خمینی نے کلام الٰہی کی روشنی میں اس مسئلے کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ یہی وجہ ہے کہ امام راحل نے خوبصورت سر زمین کی آزادی، قبلۂ اول کے تقدس کی بحالی اور مظلوم فلسطینی مسلمانوں کو اسرائیلی مظالم سے نجات دلانے کے لیے جمعۃ الوداع کو یوم القدس قرار دیا۔ اس زاویے سے اس دن کو یوم اللہ کا درجہ بھی حاصل ہوتا ہے۔ امام خمینی ؒ نے اسرائیل کے ناجائز قبضے سے اس مقدس سرزمین اور اس کے باسیوں کو نجات دلانے کےلیے ایک اہم جملہ کہا تھا کہ" اگر مسلمانان عالم ایک ایک بالٹی پانی بھی اسرائیل کی طرف پھینکیں تو وہ اسی پانی میں غرق ہو کر صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔ فلسطین کی آزادی کا مسئلہ کسی مسلک کا نہیں بلکہ مسلم امہ کی غیرت و حمیت کا مسئلہ ہے اور ساتھ وقت کے بڑے ظالم کی مخالفت کرتے ہوئے قبلۂ اول کے تقدس اور آزادی کا مسئلہ ہے۔

شیخ احمد نوری نے مزید کہا کہ فلسطین پر اسرائیل کا ناجائز قبضہ جہاں ایک المیہ ہے وہاں ہمارے لیے عبرت کا سبق بھی ہے۔ یعنی اپنی سرزمین کی اہمیت کو جانتے ہوئے اس کی حفاظت کریں۔ مظلوم فلسطینیوں نے ابتدا میں اپنی دھرتی کی اہمیت کو درک نہیں کیا آج اپنے ہی وطن میں مہاجرین کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، لہٰذا یوم القدس جہاں فلسطین کی آزادی کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا دن ہے وہاں اپنی دھرتی کے تحفظ کا شعور بھی حاصل کرنے کا دن ہے۔

کانفرنس کے صدر آغا سید علی رضوی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ نور خدا کی حفاظت اللہ خود کرے گا۔ انسان اپنے آپ کو نورانی بنائے۔ قرآن نورانی کتاب ہے، اہل بیت علیہم السلام نورانی شخصیات ہیں۔ ان سے ہم نے نور حاصل کرنا ہے۔ روح کی بھی دو شکلیں ہوتی ہیں۔ ہماری مرضی ہے کہ قرآن سے متمسک ہو کر اسے نورانی بنائے یا تارک قرآن بن کر شیطانی۔ قرآن انسانی روح کو نورانی بنانے کے لیے نازل ہوا ہے۔ ماہ مبارک رمضان میں نزول قرآن اور روزے کی فرضیت کا بنیادی فلسفہ یہی ہے تاکہ ہماری روح اور باطن نورانی ہو۔

انہوں نے مزید کہا کہ سال بھر میں قرآن سے دوری اور مادی وسائل میں غرق رہنے کی وجہ سے جو منفی اثرات ہماری روح پر مرتب ہوتے ہیں قرآن اور روزہ کے ذریعے ان اثرات کو زائل کر سکتے ہیں۔ اسی طرح دیگر فرائض مثلاً فطرہ، خمس زکواۃ بھی ہماری زندگی کو نورانی اور قرآنی بنانے کے لیے فرض کیا گیا ہے۔ سب سے اہم یہ ہے کہ ہماری خلوت و جلوت نورانی ہو، لہٰذا رمضان المبارک میں ہم بھی اس نور کے دائرے میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔ قرآن ہمیں نور کے راستے کی ہدایت دیتا ہے۔

فلسطین کی آزادی کا مسئلہ کسی مسلک کا نہیں، بلکہ مسلم امہ کی غیرت و حمیت کا مسئلہ ہے، مقررین

آغا سید علی رضوی نے کہا کہ امام خمینی ؒ نے جو انقلاب لایا وہ کوئی سیاسی و معاشی انقلاب نہیں تھا بلکہ پوری دنیا کو اس انقلاب کے نورانی اثرات سے منور کرنے کے لئے تھا۔ آج شام، لبنان اور عراق نے آزادی حاصل کی ہے تو یہ سب کچھ ولایت فقیہ کے نور سے متصل ہونے کا نتیجہ ہے۔ فلسطین کی کامیابی بھی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک فلسطینی عوام ولایت فقیہ سے متصل نہ ہو جائیں اور ولی فقیہ کی ہدایات پر عمل کرنے کے لیے آمادہ نہ ہو۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ فلسطینی مجاہدین کو اب تک ملنے والی کامیابیاں آیت اللہ خامنہ ای کی ہدایات پر عمل کرنے کا نتیجہ ہے۔

ایم ڈبلیو ایم بلتستان کے رہنما نے مزید کہا کہ استعمار بھی اس نور کو بجھانے کے لیے تین حربے استعمال کرتا ہے: پہلا حربہ مسئلہ فلسطین کی اہمیت کو بالکل ختم کرنا۔ امام خمینی نے فلسطین کو اہمیت دی۔ دوسرا مسلم امہ میں مسلکی تنگ نظری کو فروغ دینا ہے۔ جب استعمار نے مسئلہ فلسطین کو شیعہ سنی مسئلہ بنانے کی کوشش کی تو امام خمینی ؒ نے جمعۃ الوداع کو یوم اللہ قرار دیا۔ تیسرا حربہ طاقت کا استعمال، جب مذکورہ دونوں حربے ناکام ثابت ہوئے تو استعمار نے مسلم معاشرے میں مسلح گروہوں کی مدد سے بدامنی پھیلانے کی ناکام کوشش کی۔

آغا علی رضوی نے کہا کہ گلگت بلتستان میں بھی ہمیں ان تینوں حربوں کا سامنا ہے۔ ہم بھی ان شاء اللہ بھرپور انداز سے ان حربوں کا مقابلہ کریں گے اور ہم اپنی زمینوں کا بھرپور دفاع کریں گے۔

پروگرام کے آخر میں مجمع القرآء بلتستان کی جانب سے پوزیشن حاصل کرنے والے قاریوں میں انعامات تقسیم کئے۔ حسن قرائت کے اس مقابلے میں قاری حافظ سید ساجد رضوی نے پہلی اور مدرسہ مرکز حفظ القران سکردو کے طالبعلم حافظ محمد عبد اللہ جمال نے دوسری جبکہ مدرسہ حفاظ القرآن سکردو کے حافظ منیر احمد نے تیسری پوزیشن حاصل کی اور چوتھی پوزیشن مدرسہ حفاظ القرآن کے حافظ علی رضا آغا اور پانچویں پوزیشن کے انعامات مدرسہ مرکز حفظ القرآن سکردو کے حافظ شبیر حسن کے حصے میں آئے۔

فلسطین کی آزادی کا مسئلہ کسی مسلک کا نہیں، بلکہ مسلم امہ کی غیرت و حمیت کا مسئلہ ہے، مقررین

مجمع القرآء بلتستان کی جانب سے پہلی پوزیشن کے لئے 10000 ہزار روپے دوسری پوزیشن کے لئے 7000 ہزار روپے اور تیسری پوزیشن کے لئے 5000 روپے نقد انعام کے ساتھ انہیں سرٹیفکیٹ اور اعزازی شیلڈ سے بھی نوازا گیا۔

فلسطین کی آزادی کا مسئلہ کسی مسلک کا نہیں، بلکہ مسلم امہ کی غیرت و حمیت کا مسئلہ ہے، مقررین

حجۃ الاسلام آغا سید علی رضوی کی جانب سے 5000 ہزار روپے پہلی پوزیشن، 3000 روپے دوسری اور 2000 ہزار روپے تیسری پوزیشن حاصل کرنے والے قرا ء میں تقسیم کئے گئے۔

فلسطین کی آزادی کا مسئلہ کسی مسلک کا نہیں، بلکہ مسلم امہ کی غیرت و حمیت کا مسئلہ ہے، مقررین

جامعۃ النجف سکردو کی جانب سے پہلے پانچ پوزیشن ہولڈرز کو خصوصی انعام سے نوازا گیا۔ قرآن سے شغف رکھنے والے شرکاء نے اس منفرد پروگرام کے انعقاد پر منتظمین کی کوششوں کو سراہا۔

فلسطین کی آزادی کا مسئلہ کسی مسلک کا نہیں، بلکہ مسلم امہ کی غیرت و حمیت کا مسئلہ ہے، مقررین

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .