حوزه نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، الہدیٰ فاؤنڈیشن بلتستان کے زیر اہتمام آئی او، آئی ایس او اور جامعۃ النجف کے تعاون سے ایک تعزیتی اجلاس مرحوم سید ثاقب اکبرنقوی اور شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی یاد میں جامعۃ النجف میں منعقد ہوا۔
تفصیلات کے مطابق، پروگرام کا آغاز تلاوت کلام الٰہی سے ہوا جس کا شرف قاری محمد تقی ذاکر معلم مرکز حفظ القرآن گمبہ سکردو نے حاصل کیا، جامعۃالنجف کے سینئر طالب علم سید امتیاز حسینی نے نعت رسولؐ مقبول پیش کی اور سید علی سیرمیکی نے منقبت پیش کی۔
تعزیتی پروگرام میں برادر شہباز علی نے دلوں کو زندہ کرنے کیلئے ترانہ شہداء پیش کیا، جبکہ شمال شاعر اہل بیت ع مولانا زہیر کربلائی نے اپنے خوبصورت کلام کے ذریعے دونوں شخصیات کو خراج تحسین پیش کیا۔ سٹیج کی نظامت کے فرائض آئی ایس او بلتستان کے سینئر برادر جناب شبیر حسین سراج نے انجام دیئے۔
چیئرمین الہدیٰ فاونڈیشن علی احمد نوری نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سابق مرکزی صدر امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان، رکن مرکزی نظارت آئی ایس او پاکستان، بانی اخوت اکیڈمی، ڈپٹی جنرل سکریٹری ملی یکجہتی کونسل پاکستان اور چیئرمین البصیرہ ٹرسٹ، شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے دیرینہ رفیق حجۃ الاسلام سید ثاقب اکبر نقوی کی رحلت اور بانی وسابق مرکزی صدر امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان سفیر انقلاب شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی ؒ کی ۲۸ویں برسی کی مناسبت سے ان دونوں شخصیات کی قوم وملت کی بے پناہ خدمات کی قدر دانی، ان کی روح کے ایصال ثواب اور خراج تحسین پیش کرنے کیلئے آج کا یہ تعزیتی اجلاس کا اہتمام کیا گیا ہے۔ ہم اس تعزیتی ریفرنس کی کامیابی میں کردار ادا کرنے والے افراد، شخصیات اور اداروں خاص کر صدر محفل، مہمان، شرکاء، علمائےکرام، اظہار نظر کرنے والے مقررین اور مالی معاونت کرنے والے صاحب ِ توفیق کرم فرماؤں، نیز دامے، درمے، سخنے، قدمے تعاون فرمانے والوں اور میڈیا ٹیم کے ہم تہہ دل سے ممنون اور مشکور ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کی توفیقات میں اضافہ کرے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سید ثاقب نقوی اور شہید ڈاکٹر علی نقوی دونوں باتقویٰ، باعمل، امام خمینی کے عاشق اور انقلاب اسلامی کے حقیقی سپاہی تھے اور امامیہ طلباء تنظیم کے بانیوں میں سے تھے۔ ان کی یاد منانے کا ایک اہم مقصد ان کی کاوشوں کو سمجھ کر ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرنا ہے۔ ان جیسی ہستیاں ہمارے درمیان میں سے بھی مصمم عزم و مخلصانہ عمل سے بن سکتی ہیں نیز جو ہمارے مابین زندہ ہیں ان کی قدر دانی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن بلتستان کے صدر عاشق حسین نے کہا کہ سید ثاقب اکبر نقوی اور ڈاکٹر شہید علی نقوی ایک جہد مسلسل کا نام تھے۔ تنظیم آئی ایس او کی فعالیت کیلئے ان کی گرانقدر خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ضیاءالحق کے آمرانہ دور میں تنظیم پر نامساعد حالات کے دوران ثاقب اکبر نقوی نے تنظیم کی فعالیت کے لئے کلیدی کردار ادا کیا۔ آئی ایس او، امام خمینی اور انقلاب اسلامی کیلئے ان کے انقلابی ترانے، نظم اور تحریر ایک مخزن کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تنظیمی جدوجہد کے ذریعے ان کی شخصیت کو زندہ رکھا جائے گا۔
ناظم امامیہ آرگنائزیشن بلتستان محمد اقبال ساجد نے سید ثاقب اکبر نقوی کی ابتدائی علمی زندگی اور ملی و تنظیمی اور سیاسی و ادبی خدمات پر تفصیلی مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ثاقب اکبر بیک وقت محقق، عالم، دانشور، انجینئر، شاعر، ادیب، مصنف، مترجم و تجزیہ نگار تھے۔ آئی ایس او کے دو بار مرکزی صدر رہے اور امامیہ آرگنائزیشن کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا۔ البصیرہ کے قیام کے ذریعے اتحاد بین المسلمین کیلئے عملی کام کیا۔ ان کے حلقہ احباب میں بہت سارے اہل سنت کے علماء بھی شامل تھے۔ سینکڑوں کتابیں اور لاتعداد ترجمے بھی ان کے اعزاز میں شامل ہوئے۔
زاہد علی خان رکن مرکزی نظارت آئی ایس او پاکستان جو شہید ڈاکٹر اور مرحوم ثاقب کے رفیق بھی رہے تھے نے کہا کہ دین و ملت کیلئے کام کرنے کے سلسلے میں دونوں کا خلوص و جذبہ اور افکار میں یکسانیت کی بناء پر ان میں کوئی فرق سرے سے موجود ہی نہیں تھا بلکہ دونوں یک جان دو قالب تھے۔ افکارامام خمینی اور انقلاب اسلامی کے پرچار میں دونوں مگن رہے۔ دونوں کے تنظیمی ادوار میں ملک بھر میں ملت تشیع کی تنظیم بام عروج کو پہنچا۔ جناب ثاقب اکبر نے ملک کے بیشتر علاقوں میں تنظیم کی آواز پہنچائی اور اس طرح سے مختلف ڈویژنز اور یونٹس بنے۔
انہوں نے مزید کہا شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی تنظیم سے لگاؤ کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ اپنی شادی کے دوران رسم حنا کے دن بھی پوسٹرز چھپوانے گئے ہوئے تھے اور اپنی دلہن سے کہا کہ تم سے دوسری شادی کررہاہوں جبکہ میری پہلی شادی امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے ہوئی ہے۔ دونوں شخصیات پائے کے معاملہ فہم تھے اور ملت کے لئے ہمہ تن جدوجہد کرتے رہے۔
انہوں نے دونوں شخصیات کو امامیہ طلباء تنظیم کے ہر فرد کیلئے رول ماڈل قرار دیا۔
جامعۃ النجف کے نائب پرنسپل اور جی بی کونسل کے رکن شیخ احمد علی نوری نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سید ثاقب نقوی و شہید ڈاکٹر علی نقوی ملک و ملت کے درخشان و تابندہ ستارہ تھے۔ دونوں منفرد مقام ومرتبہ کے حامل تھے۔ شہید نقوی کے آراء و افکار کو سید ثاقب نقوی نے قلم کے ذریعے محفوظ کیا۔ ملی یکجہتی کونسل کے قیام میں ثاقب اکبر نقوی کا اہم کردار رہا اور اتحاد بین مسلمین میں پیش پیش رہے۔اس ضمن میں ان کے جملے، تحاریر، تقاریر، تجاویز و آراء کو غیر شیعہ بھی وثوق سے تسلیم کرتے تھے۔ انہوں نے تکفیریت کو بے نقاب کیا۔ استعماریت واستکباریت نیز دہشت گردوں اور اسلام دشمنوں کے خلاف ان کا قلم ہتھیار کی مانند چلا۔ پاکستان کے اندر شیعہ ملت کے اکثر انقلابی نعروں کے خالق بھی ثاقب اکبر ہی تھے۔
شیعہ علماء پاکستان و امام جمعہ حسین آباد سکردو آغا سید مظاہر حسین الموسوی نے مختصر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شہید محمد علی نقوی اور ثاقب اکبر نقوی دونوں باعمل اور انقلابی علماء کی تربیت کی وجہ سے اس مقام پر پہنچے تھے، لہٰذا باعمل و انقلابی علماء کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے تاکہ ہمارے جوانان بھی ڈاکٹر محمد علی نقوی و ثاقب نقوی بنیں۔اس کیلئے شیعہ تنظیموں کو خصوصی توجہ اور کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے درمیان کاچو زاہد علی خان کی زندہ شخصیت موجود ہے کہ جن میں خالصتاً شہید ڈاکٹر علی نقوی کی روح موجزن دیکھائی دیتی ہے۔
خطبۂ صدارت پیش کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم کے صوبائی صدر آغا سید علی رضوی نے کہا کہ اگر آج بھی امامیہ طلباء تنظیم کو ابتدائی ادوار کی طرح علماء کی زیر سرپرستی مضبوط خطوط پر استوار کردیا جائے تو ڈاکٹر شہید نقوی اور ثاقب نقوی جیسے افراد پیدا ہوں گے، کیونکہ ان دونوں کی بھی زیادہ تر تربیت اسی تنظیم سے ہوئی تھی۔لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ آئی ایس او کو مضبوط سے مضبوط تر بنائیں۔
انہوں نے تنظیمی جوانوں کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ اپنے کردار کو ایسا بنائیں کہ اپنی شخصیت میں جاذبیت پیدا کرسکیں اور لوگ آپ کی جانب مائل ہوں۔
ایم ڈبلیو ایم گلگت بلتستان کے رہنما نے کہا کہ ان دونوں شخصیات نے تنظیم کیلئے پورا وقت دیا اور فعالیت میں اہم کردار ادا کیا اور ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ تنظیمی اکائیوں کی موجودگی کو تمام علاقوں میں یقینی بنایا جائے اور اس ضمن میں درکار مالی و مادی معاونت کیلئے حتی المقدور کوشش کیلئے ہمہ وقت تیار ہیں۔
آغا سید علی رضوی نے رہبر معظم اور مجتہدین عظام کی سلامتی، عالم اسلام کی سربلندی، عالم کفر کی نابودی، مملکت پاکستان کے استحکام و سلامتی اور گلگت بلتستان کے امن وسلامتی کیلئے خصوصی دعا کی۔
تعزیتی ریفرنس کا اختتام دعائے حضرت آخر الزمان امام زمانہ (عج )سے ہوا جس کا شرف مولانا محمد حسین محمودی نے حاصل کیا۔