۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
استاد علامہ غلام حسین انجم دنیوری کی سوانح حیات، خدمات و کردار

حوزہ / استاد غلام حسین انجم گلگت کی معروف علمی، دینی، سماجی و سیاسی شخصیت تھے۔ جن  کی پوری عمر تبلیغ، تدریس، تحقیق، تحریر اور سماجی و سیاسی خدمات میں گزری۔ ان کے چہلم کے موقع پر ان کے فرزند حجۃ الاسلام ڈاکٹر اشتیاق حسین انجم (جو کہ پی ایچ ڈی اسکالر اور عالم دین ہیں) سے  مرحوم کے حوالے سے ایک انٹرویو لیا گیا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، استاد غلام حسین انجم گلگت کی معروف علمی، دینی، سماجی و سیاسی شخصیت تھے۔ جن کی پوری عمر تبلیغ، تدریس، تحقیق، تحریر اور سماجی و سیاسی خدمات میں گزری۔ ان کے چہلم کے موقع پر ان کے فرزند حجۃ الاسلام ڈاکٹر اشتیاق حسین انجم (جو کہ پی ایچ ڈی اسکالر اور عالم دین ہیں)سے مرحوم کے حوالے سے ایک انٹرویو لیا گیا جو کہ مرحوم استاد انجم کی شخصیت کی زندگی پر ایک جامع و مختصر تاریخ ہے۔ جس میں ان کی خدمات و کردار سے آگاہی دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہم اس حوالہ سے ڈاکٹر اشتیاق انجم کے مشکور و ممنون ہیں۔

استاد علامہ غلام حسین انجم دنیوری کی سوانح حیات، خدمات و کردار / مرحوم استاد دین کو سیاست سے جدا نہیں سمجھتے تھے

سوال:

استاد علامہ غلام حسین انجم دنیوری کی پیدائش، ابتدائی تعلیم اور اساتذہ کے حوالے سے مختصر وضاحت فرمائیں۔

ڈاکٹر اشتیاق انجم:

استاد علامہ غلام حسین انجم دنیوری گلگت کے مضافاتی علاقے دنیور میں 24 دسمبر 1947ء کو پیدا ہوئے۔ استاد کے والد بزرگوار احسان علی مرحوم مذہبی آخوند تھے اور صاحب منبر تھے نیز ننھیال والے بھی خاندانی آخوند تھے۔ اس حوالے سے مرحوم کی چھٹی حس میں تعلیم کا رجحان تھا مگر یتیمی اور گھریلو مجبوریوں کی وجہ سے تعلیم کی طرف صحیح راہنمائی نہ ہو سکی۔

اس زمانے میں پورے دنیور میں ایک پرائمری سکول تھا اور ماسٹر محمد علی صاحب اکلوتے استاد تھے۔ والدہ انہیں ماسٹر صاحب کے پاس لے گئی اور انہوں نے غلام حسن انجم کو اول ادنیٰ میں داخل کیا۔ پانچویں جماعت کے بعد مزید تعلیم کا سلسلہ منقطع ہوا اور ہائی سکول گلگت میں جا کر مزید تعلیم جاری رکھنے سے قاصر رہے مگر اس پر آشوب وقت میں ممتا کا سہارا بھی چھوٹ گیا اور والدہ کی وفات کے بعد پورا ایک سال پریشانی میں گزارا۔ اس کے بعد غلام حسین انجم خومر گلگت میں اپنے رشتے کی پھوپھی کے پاس چلے گیے تو انہوں نے آغا ابراہیم شاہ موسوی کے پاس مذہبی تعلیم شروع کرائی۔پھر یہ تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے کی غرض سے اپنے پسندیدہ شہر لاہور چلے گئے۔

سوال 2-

دنیاوی و دینی تعلیم کہاں تک حاصل کی اور معروف اساتید کون تھے؟

ڈاکٹر اشتیاق حسین انجم:

پرائمری تعلیم دنیور سکول سے حاصل کی، لاہور شہر کے حوزہ علمیہ جامہ المنتظر سے درس نظامی و سلطان الفاضل مساوی ایم اے اسلامیات و عربی کی سند حاصل کی۔ نیو لائٹ کالج اور بیدار بخت کالج لاہور سے عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔

معروف اساتذہ میں ، علامہ حسن ظفر امروھی ، علامہ طالب جوہری ، آیۃ اللہ حافظ بشیر النجفی قابل ذکر ہیں۔

سوال 3- ان کا رجحان تصنیف و تالیف کی جانب کب سے ہوااور کتنی کتابیں تالیف کیں؟۔

ڈاکٹر اشتیاق حسین انجم:

استاد محترم بچپن سے ہی نہایت ذہین اور تخلیق کار ذہن کے مالک تھے۔ ان کے ہم عصر دوست و احباب اکثر کہا کرتے تھے کہ سکول کے زمانے میں وہ "فی البدیہہ" (بغیر کچھ فکر کئے) شعر کہا کرتے تھے۔ اسی وجہ سے سکول کالج اور حوزہ کے عظیم استادوں سے علم کا سمندر سمیٹا اور گلگت کی سرزمین کو سیراب کیا۔ سانحہ 1988 ء تک ایک متحرک فرد اور فرض شناس استاد کی حیثیت سے معاشرے کی اصلاح کی ۔ اس سانحہ کے بعد قلم کی قوت کو مزید مضبوطی سے تھاما اور تصنیف و تالیف کی جانب گامزن ہوئے۔ ان کی پہلی کتاب غالباً “جلال آباد جل رہا تھا” اور آخری کتاب “نظام کائنات اور تصور امام مہدیؑ” ہے جو کہ ابھی شائع نہیں ہوئی ہے۔

موصوف ادبی، علمی شخصیت کے حامل تھے اس لیے تا ایں دم ادب، شاعری تاریخ، معاشرتی و سیاسی موضوعات پر 32 تصانیف کا سہرا ان کے سر جاتا ہے اور 15 کے قریب تصانیف ابھی شائع نہیں ہوئی ہیں۔

استاد علامہ غلام حسین انجم دنیوری کی سوانح حیات، خدمات و کردار / مرحوم استاد دین کو سیاست سے جدا نہیں سمجھتے تھے

سوال 4- ان کی تعلیمی، ثقافتی، مذہبی اورسماجی خدمات پر مختصر روشنی ڈالیں۔

ڈاکٹر اشتیاق حسین انجم:

استاد علامہ غلام حُسین انجم پیشے کے اعتبار سے درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہے، بطور معلّم 30 برس کے طویل عرصے تک گورنمنٹ ہائی سکول نمبر ایک اور گورنمنٹ ہائی سکول دنیور کے ہزاروں طلباء کو علم کے زیور سے آراستہ کیا۔ ان کے طلباء پاکستان اور دنیا بھر میں مختلف شعبہ ہائے زندگی میں انسانیت کی خدمت انجام دے رہے ہیں اور مملکتِ خداداد پاکستان کا نام روشن کر رہے ہیں۔

استاد محترم نے اپنی زندگی گلگت بلتستان کی تاریخ اور ثقافت کے مطالعہ کے لیے وقف کر رکھی تھی، ان کی قدیم تاریخ اور شینا ادب پر خصوصی توجہ تھی۔ اپنی تحقیقی تصانیف سے گلگت بلتستان کی قدیم تاریخ اور شینا ادب اور شاعری اور گلگت بلتستان کی تاریخ سے آگاہی اور ثقافت کی ترویج کے لیے قابل ذکر اور لازوال خدمات سرانجام دیں۔

استاد محترم کے گلگت بلتستان کے لیے کی جانے والی ادبی اور ثقافتی خدمات کو مقامی اور ملکی سطح پر سراہا گیا اور اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے تعریفی اسناد سے بھی نوازا گیا۔ اس ضمن میں ان کی مشہور تصانیف “شیناادب اور شاعری”، “شینا زبان اور تصوف و عرفان”، “اسلام گلگت میں”، “شیعیت گلگت میں”، “فضائل پنجتن مقام مصطفیﷺ”، “ولایت یا حکومت”، تصوف وعرفان اور ثقافت جعفریہ”، “ فلسفہ عزاداری”، “کمال انسانیت”، “ ابو طالب نگہبان رسالت”، ”دیو یور سےدنیور تک“، ”شبہات“، ”سارگن گلیت یا گلگوت“, ”شمالی قوم کے نام مختصر یاداشت“، “نظام کائنات اور تصور امام مہدی” اور “آستان رومی و اقبال” کا ذکر کرنا لازمی ہے۔ ان کے تحقیقی کاموں نے گلگت بلتستان کے بارے میں علم اور تفہیم میں ایک انمول شراکت کی ہے جو اپنے پیچھے ایک لازوال میراث چھوڑ گئی ہے جو دلوں اور دماغوں میں باقی رہے گی۔ مختصراً آپ گلگت بلتستان کی تاریخ اور ادب کے علمبردار ہیں۔

استاد غلام حسین انجم مختلف سماجی مسائل کے حل کے لیے بھی لگن سے کام کرتے تھے۔آپ نے طلباء کو پبلک لائبریری فراہم کرنے کے نیک مقصد میں ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے دنیور میں محسن ملت پبلک لائبریری کی تعمیر شروع کر دی تھی جس کے مکمل ہونے پر چار سے پانچ ہزار کتابیں رکھی جا سکتی ہیں اور پوری تحصیل دنیور میں طلباء کے لیے یہ واحد پبلک لائبریری ہوگی۔

استاد غلام حسین انجم آئی ایس او کے بانی ڈاکٹر محمد علی نقوی کے انتہائی عزیز ساتھیوں میں سے تھے۔ آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ امامیہ اسٹوڈنٹ آرگنائیزیشن کواس وقت گلگت بلتستان کی سرزمین میں متعارف کرایا جب علماءکرام اور ذمہ دار حضرات بھی اس طلباء تنظیم سے تعاون کے لئے تیار نہ تھے۔ ابتدائی سالوں میں اس کی مالی مدد کرنے میں استاد محترم نے خلوص سے تعاون کیا۔انجمن امامیہ گلگت کے سکریٹری اور جنرل سکریٹری اور ناظم مسجد کی حیثیت سے مسجد امامیہ گلگت کے اندر اس تنظیم کے لئے دفتر اور دیگر سہولتیں مہیا کیں۔ استاد محترم نے خود اس تنظیم کی سرپرستی کی تاکہ قوم کی یہ نئی پودایک فلاحی اسلامی معاشرے کے قیام کے لئے بڑھ چڑھ کر کام کر سکے۔

استاد غلام حسین انجم گلگت میں 1962ء میں قائم ہونے والے بگروٹ ہاسٹل کے اہم شخصیات میں سے ایک تھے۔ انہوں نے ذاتی طور پر اس کی تعمیر کی نگرانی کی اور چوبیس سال تک ہاسٹل کے جنرل سیکرٹری رہے۔اعزازی طورپروہ ہاسٹل کے تاحیات رکن کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔ گزشتہ برسوں کے دوران، بگروٹ ہاسٹل نے گلگت بلتستان کے ہزاروں طلباء کو تعلیمی مواقع فراہم کیے ہیں، جن میں سے بہت سے اب پاکستان اور بیرون ملک باوقار عہدوں پر فائز ہیں۔

انہیں شمالی علاقہ جات کی ٹیچرز ویلفیئر آرگنائیزیشن کی طرف سے بھی ان کی لازوال تعلیمی خدمات اور تعلیم سے اس مٹی کو سیراب کرنے کے عظیم مقصد کے اعتراف میں سراہا اور سرٹیفیکیٹ سے بھی نوازا گیا۔ گلگت بلتستان کے لوگ انہیں دل کی گہرائیوں سے خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان خدمات کے عوض استاد علامہ غلام حسین انجم کا نام صدارتی سول ایوارڈ برائے حسن کارکردگی کے لئے بھی نامزد کر دیا گیا ہے۔

سوال 5- گلگت بلتستان کی سیاست میں مرحوم کاکردار کیا رہا۔؟

ڈاکٹر اشتیاق حسین انجم:

مرحوم استاد دین کو سیاست سے جدا نہیں سمجھتے تھے۔مگر پاکستان کے اندر انگریزوں کی تابعداری میں سیاست اور دین کو الگ سمجھا جاتا ہے جو سراسر غلط ہے۔ان کا یہ ماننا تھا کہ سیاست میں حصہ لینے سے انکار کرنے کی سزا میں سے ایک یہ ہے کی نا اہل لوگ آپ پر حکومت کرینگے۔

مرحوم استاد محترم زمانہ طالبعلمی سے ہی گلگت بلتستان کی سیاست میں متحرک تھے۔ چاہے ایوب خان کا دور ہو، ذوالفقار علی بھٹو کا یا فوجی آمر ضیاءالحق کا دور ہو۔ انہوں نے ہر دور میں گلگت بلتستان کی شناخت کی جدوجہد اور سیاسی شعور پھیلانے کے ساتھ ساتھ ملت تشیع کے حقوق کے تحفظ کی بھر پور کو شش کی۔

1965ء میں پہلی بار مذہب کے پلیٹ فارم پر کام کیا۔ ملت شیعہ کے مذہبی حقوق و مسائل کے حل کی خا طر آل پاکستان شیعہ مطالبات کمیٹی بنائی گئی تھی اسی تنظیم کے ذریعہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور حکومت میں شیعہ اوقاف، جدا گانہ دینیات، زکوۃ اور عزاداری سید الشہداء ؑ جیسے خاص مسائل کو مرحوم نے بھر پور انداز میں اٹھایا۔

مرحوم استاد محترم نے جب سے ہوش سنبھالا تب سے گلگت بلتستان کی سیاست میں اپنا حصہ ڈالا۔ پہلے سیاسی کارکن کی حیثیت سے اور پھررہبر و معلم کی حیثیت سے۔

1972ء میں پاکستان پیپلزپارٹی نے پہلی بار خطہ شمال کے باسیوں کو سیاست اور سیاسی پارٹی کا تصور دیا۔ خطہ شمال کے اس بے آئین علاقے کی گردن سے ایف سی آر کے کالےقانون کے طوق غلامی کو پیپلز پارٹی نے کچھ ڈھیلا کردیا تو مرحوم استا د محترم نے پاکستان پیپلز پارٹی گلگت میں حصہ لیا۔ مرحوم کوعوام کی طرف سے متفقہ طور پردنیور پیپلزپارٹی کا پہلا صدربھی چنا گیا۔

اس کے بعد جنرل ضیاءالحق کے دور میں پاکستان کی مذہبی اور سیاسی حالات کے تناظر میں ایک فعال اور مضبوط شیعہ تنظیم کی ضرورت محسوس کی گئی تب علماء کرام نے مل کر تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے نام سے ایک خالص مذہبی تنظیم کی بنیاد رکھی اورحضرت مفتی جعفر حسین نے اس کی قیادت سنبھالی۔ مرحوم استادمحترم نے مرکزی انجمن امامیہ شمالی علاقہ جات گلگت کے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے لئے اپنی مدد آپ کے تحت خلوص سے کام کیا۔ نیز گلگت میں تحریک کو متعارف بھی آپ ہی نے کرایا۔ مرحوم نے جہاں اور جب موقع ملا، اپنا فرض منصبی سمجھ کر اس تنظیم کے لئےبھر پور کوششیں کی۔ حضرت مفتی صاحب اعلیٰ اللہ مقامہ کا دورہ شمالی علاقہ جات ہو یاقائد شہید کے دورے ہوں۔ مرحوم نے انتظامی کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کو بھر پور انداز میں نبھایا۔ حضرت مفتی جعفر حسین کے سانحہ ارتحال کے بعد جب علامہ عارف حسین حسینی تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے سربراہ بنائے گئے تو اس نوجوان قائد نے تنظیم کو میدان سیاست میں بھی روشناس کرایا اس وقت بھی مرحوم استاد محترم قائد کےشانہ بشانہ کھڑے رہے۔

سوال 6- مرحوم کے کچھ اخلاقی اوصاف اور نمایاں خصوصیات بیان کریں؟

ڈاکٹر اشتیاق حسین انجم:

استاد علامہ غلام حسین انجم دنیوری ایک بزرگ ادیب، تاریخ دان، استاد اور مفکر تھے جن کی شخصیت میں بہت سارے اخلاقی اوصاف اور نمایاں خصوصیات پائی جاتی تھیں۔ وہ ایک نیک دل، محبت بھرے اور دوسروں کے لئے توجہ رکھنے والے شخص تھے۔ انہوں نے صبح جلدی جاگ کر نماز کے بعد چہل قدمی کرنا، جانوروں کو چارہ پانی ڈالنا، اپنا کام خود کرنا، روزانہ کے اوقات مقرر کرکے کام کرنا، سفید پوش غریبوں کی مدد کرنا، بچوں سے پیار کرنا اور دوسروں کی خدمت کرنا وغیرہ سب کو مثالی طور پر عملی زندگی میں تسلیم کیا تھا۔ ان کی مہمان نوازی اور خدمت بہت مشہور تھی اور وہ ہمیشہ دوسروں کے لئے دستیاب رہتے تھے۔

دوسری جانب، استاد محترم ایک خاموش اور تحمل مزاج شخص تھے۔ وہ فضول گفتگو سے پرہیز کرتے تھے اور دوسروں کی باتوں کو دل سے سنتے تھے۔ ان کی باتوں میں معنی اور تعمیل کی توجہ موجود ہوتی تھی۔ اپنی تحریرات میں بھی فضول گفتگو سے بچتے۔ ان کی تحریرات میں عموماً تفکری، سماجی اور اخلاقی مسائل پر غور کیا جاتا تھا جو لوگوں کی ذہنیت کو روشن کرتی تھی۔

یہ اخلاقی اوصاف اور نمایاں خصوصیات مرحوم استاد غلام حسین انجم کی شخصیت کے اہم حصے تھے جو ان کو لوگوں کے درمیان محبوب بناتی تھیں۔

مرحوم استاد علامہ غلام حسین انجم دنیوری نے ایک مثالی زندگی گزاری جس کی ہر کوئی خواہش کرسکتا ہے۔ اپنے آخری دن بھی خود اور خدا شناسی میں گزارے۔ 15 اپریل صبح10 بجے کے قریب شنگوٹ مسجد چلے گئے جو کہ قریب ہی ہے حالانکہ طبیعت ناساز تھی ۔کچھ دیر محلے کے بزرگوں کے ساتھ گفتگو کی اور دوران گفتگو ہی مسجد کے صحن میں دل کا دورہ پڑا اور خالق کے گھر میں ہی خالق حقیقی سے جا ملے۔

استاد علامہ غلام حسین انجم دنیوری کی سوانح حیات، خدمات و کردار / مرحوم استاد دین کو سیاست سے جدا نہیں سمجھتے تھے

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .