حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجۃ الاسلام والمسلمین شیخ احمد علی نوری حوزه علمیه مشہد مقدس کے فارغ التحصیل ہیں اور آپ کا تعلق گلگت بلتستان کے علاقۂ گول سے ہے۔ آپ جامعۃ النجف سکردو کے نائب پرنسپل، گلگت بلتستان کونسل کے رکن اور مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے سکریٹری سیاسیات ہیں۔ موصوف مختلف فلاحی، سماجی اور دینی سرگرمیوں میں پیش پیش رہتے ہیں، جن میں پرائیوٹ سکولوں کی تاسیس، مدارس، مساجد و امام بارگاہوں کی تعمیر سمیت ضرورت مندوں اور یتیموں کی کفالت، تدریس، تحقیق اور تبلیغی فرائض کی انجام دہی شامل ہیں۔
حوزه نیوز ایجنسی نے حجۃ الاسلام والمسلمین شیخ احمد نوری سے مختلف موضوعات پر انٹریو لیا ہے، جسے قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔
حوزہ: آپ کو قم المقدسہ میں خوش آمدید کہتے ہیں، سب سے پہلے آپ اپنا مختصر تعارف کرائیں۔
شیخ احمد نوری: سب پہلے، حوزه ہائے علمیه ایران کے خبر رساں ادارہ، حوزه نیوز ایجنسی کی پوری ٹیم کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ اس عظیم پلیٹ فارم نے مجھے یہاں آ کر بات کرنے کا موقع فراہم کیا۔ میرا تعلق بلتستان پاکستان کے علاقۂ گول سے ہے۔ حوزه علمیه مشہد مقدس سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد، اس وقت بلتستان پاکستان میں مختلف پلیٹ فارمز کے توسط سے دینی، سماجی، ثقافتی اور سیاسی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ سکردو کی معروف دینی درسگاہ جامعۃ النجف کے نائب پرنسپل، گلگت بلتستان کونسل کے رکن، ایم ڈبلیو ایم بلتستان کے سکریٹری سیاسیات کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور ان امور کے ساتھ ساتھ تبلیغ، تدریس اور مختلف فلاحی وسماجی عظیم خدمات کو بھی حتیٰ الامکان انجام دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بندہ حقیر کا شمار وحدت المسلمین بلتستان کے بانیوں میں ہوتا ہے اور اسی پلیٹ فارم کے توسط سے ملی و قومی مسائل کو حل کرنے کی کوشش خصوصاً بلتستانی عوامی ایشوز، سیاسی و آئینی حقوق کے حوالے سے ایک طویل سفر میں بھر پور کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہم دنیا کے مظلوموں کی حمایت اور عالمی استکبار کی مخالفت کو اپنا شرعی فریضہ سمجھتے ہوئے اس میدان میں بھی ہم اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
حوزہ: جناب عالی کا تعلق گلگت بلتستان سے ہونے کے ناطے، ہم سب سے پہلے اس خطے کے مسائل کے حوالے سے جاننا چاہیں گے۔
شیخ احمد نوری: گلگت بلتستان کے مسائل میں سرفہرست اور بنیادی مسئلہ آئینی حقوق کا مسئلہ ہے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی، سینٹ اور دیگر ملکی اداروں میں گلگت بلتستان کی نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے ہم ملکی سیاست میں اپنا کردار ادا نہیں کرسکتے۔ آئینی حقوق کیلئے مجلس وحدت المسلمین نے دیگر سیاسی پارٹیوں، خصوصاً تحریک انصاف کے ساتھ مل کر اسی مقصد کے حصول کیلئے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی اور تیرہ نکات پر مشتمل ایک پلان کو ترتیب دیا، جن میں سرفہرست تحریک انصاف کی کامیابی کی صورت میں اس خطے کو محرومیت سے نجات دلانا اور آئینی حقوق دلانا تھا، کیونکہ اس طرح ہم ملکی سیاست میں اہم کردار دا کرسکیں گے۔ ہم نے گلگت بلتستان کونسل کے اراکین سے باہمی مشاورت کے بعد ایک جامع ترقیاتی پلان بنا کر پیش کیا ہے اور حکومت نے ان میں سے اکثر نکات پر عمل درآمد کرانے کی یقین دہائی کرائی ہے، جن میں تعلیم، صحت، زراعت اور سیاحت سمیت بہت سے دیگر مسائل کے حوالے سے ایک جامع حکمت عملی سکریٹریز، وزراء اور وزیر امور کشمیر کی موجودگی میں پیش کیا ہے اور اسے مستقبل میں ترقیاتی پلان کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ اس ترقیاتی پلان کو تیار کرنے میں گلگت بلتستان کی کونسل کے محترم اراکین و ماہرین نے مدد کی ہے۔
گلگت بلتستان تین ڈویژن پر مشتمل ہے، گلگت ڈویژن، دیامر ڈویژن اور بلتستان ڈویژن۔
حوزہ: گلگت بلتستان میں تمام مسالک کے درمیان ہم آہنگی اور بھائی چارگی کے حوالے سے آپ کیا کہنا چاہیں گے؟
شیخ احمد نوری: بلتستان ڈویژن میں مکتب اہل بیت کے پیروکاروں کی اکثریت ہے، یہاں کے امن و امان اور رواداری نہ صرف پاکستان، بلکہ پوری دنیا کے لئے ایک مثال ہے۔ دنیا مذہبی شدت پسندی سے متاثر ہے، لیکن میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ بلتستان ایک ایسا واحد خطہ ہے جہاں ہم آہنگی، رواداری اور بھائی چارگی ایک کامل اور بہترین صورت میں موجود ہے۔ مسلکی رواداری میں یہاں کے علماء اور دانشور حضرات کا اہم رول ہے جو امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ اور رہبرِ انقلاب اسلامی کے اتحاد و وحدت بین المسلمین کے افکار سے متاثر ہیں۔ بدقسمتی سے گلگت ڈویژن میں مذہبی فسادات کبھی کبھار سراٹھاتے ہیں، جس میں تکفیری سوچ کے ساتھ استعماری ہتھکنڈے بھی شامل ہیں، لیکن جب سے مجلس وحدت المسلمین نے وہاں رول پلے کرنا شروع کیا ہے، شدت پسندی میں کمی آئی ہے۔ دیامر ڈویژن میں شدت پسند کا تصور تھا لیکن اب الحمد للہ ایک اچھا ماحول بنا ہے۔ لوگ باشعور ہو گئے ہیں۔ باہمی روابط نے یہاں بھی شدت پسندی کو کم کردیا ہے۔ وحدت المسلمین کے اہداف میں سے ایک ہدف اہل سنت اور دیگر مذاہب کے ساتھ امن، آشتی اور اخوت کی فضا قائم کرنا ہے، جس میں ہم کامیاب ہوئے ہیں۔ باہمی اتحاد اور ہم آہنگی کے ساتھ ہی ہم اپنے مشترکہ مسائل کو حل کرسکتے ہیں، لہٰذا اس سلسلے میں علماء اور مشائخ کے مابین ہم آہنگی اور روابط ضروری ہیں۔
حوزہ: آپ کی نظر میں پاکستان کے اہم ترین مسائل کیا ہیں؟
شیخ احمد نوری: سب سے پہلا اور اہم مسئلہ، اس وقت پاکستان سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے، جس کا اثر ملکی معیشت پر پڑ رہا ہے اور اس مسئلہ کا بنیادی سبب سیاسی عدم برداشت کے ساتھ عالمی استعماری سازش بھی ہے۔ ان مسائل سے نمٹنے کا واحد طریقہ کار آزاد اور منصفانہ انتخابات ہیں۔ دوسرا اہم مسئلہ، قومی سطح پر شجاع اور قوم و ملت کیلئے درد مند قیادت کا فقدان ہے اور مذہبی جماعتوں کو قومی وملکی سیاست میں مثبت رول ادا کرنے کیلئے موقع نہ ملنا بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ چوتھا اہم مسئلہ، سیاسی جماعتوں کا ملکی خود مختاری کو نظر انداز کرنا ہے۔
حوزہ: پاکستان کی قومی اسمبلی میں جو توہین صحابہ بل پیش کیا گیا ہے، اس حوالے سے آپ کا کیا مؤقف ہے؟
شیخ احمد نوری: یہ بل استعماری طاقتوں کی معروف اور کار آزمودہ سازش ہے۔ استعماری طاقتیں اس بل کے ذریعے اپنے ناپاک اہداف کا حصول چاہتی ہیں۔ ان استعماری اہداف میں تکفیریت کو ہوا دینا، قوم کی توجہ کو بنیادی مسائل سے ہٹا کر مذہبی وجذباتی مسائل میں الجھانا اور واحد مسلم ایٹمی پاور ملک کو عدم استحکام کا شکار کرنا شامل ہے۔
حوزہ: انقلابِ اسلامی کے خلاف عالمی استکبار بالخصوص امریکہ کی سازشوں کے حوالے سے آپ کا نکتۂ نظر کیا ہے؟
شیخ احمد نوری: اس وقت دنیا فکری، معنوی اور روحانی خلاء شدت سے محسوس کر رہی ہے اور انقلاب اسلامی نے بھی انہی چیزوں کو مدنظر رکھا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس وقت مغرب کا تعلیم یافتہ طبقہ سرگرداں ہے۔ یقینی بات ہے کہ اسلام ناب محمدی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہے جو اس خلاء کو پر کر سکتا ہے۔ فرانس، امریکہ اور برطانیہ میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے جس سے مقابلے کیلئے انہوں تکفیری گروہوں کو وجود میں لایا اور پہلے مرحلے میں طالبان، القاعدہ اور داعش کو پروان چڑھایا، تاکہ مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر اسلامی ممالک کے قدرتی وسائل پر قبضہ کر سکیں۔ دنیا اچھی طرح سے جانتی ہے کہ استکبار اور استعمار کی راہ میں رکاوٹ محور مقاومت کے مرکز، اسلامی جمہوریہ ایران ہے، جس نے تکفیری عناصر کو خطے میں ناکام بنایا۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے جان ہتھیلی پر رکھ کر دنیا کے مظلومیں کی حمایت کی، چاہے وہ فلسطین ہو یا کشمیر، اسلامی جمہوریہ ایران نے جہاں بھی ظلم وستم ہوتا دیکھا وہاں پر حق کی آواز بلند کی ہے، لہٰذا دشمن کی خواہش ہے یہ مرکز کمزور ہو، لیکن دشمن کو یہ معلوم ہے کہ دنیا کے مظلوموں اور محروموں کی دعائیں اور ہمدردی بھی اس مرکز مقاومت کے ساتھ ہے۔ مرکز مقاومت نے الحمدللہ اس وقت دنیا کی سیاست میں ایک کلیدی کردار ادا کرکے اعلیٰ مقام حاصل کیا ہے اور یہ مختلف میدانوں میں ترقی کی جانب رواں دواں ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ جیسے سپر پاور کے دعویدار پر حملہ کرنے کا اعزاز بھی صرف محور مقاومت کو حاصل ہے۔ استعمار نے خیالی طاقت کا جو ڈھونگ رچایا تھا وہ بے نقاب ہو چکا ہے۔ آزادی اور حقوق بشر جیسے مغربی نعرے کی حقیقت کو اب دنیا جان چکی ہے، یہ نعرہ دنیا کو اپنے کنٹرول اور غلامی میں رکھنے کا ایک استعماری حربہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ جیسے سپر پاور کے دعویدار پر حملہ کرنے کا اعزاز بھی صرف محور مقاومت کو حاصل ہے۔ استعمار نے خیالی طاقت کا جو ڈھونگ رچایا تھا وہ بے نقاب ہو چکا ہے۔ آزادی اور حقوق بشر جیسے مغربی نعرے کی حقیقت کو اب دنیا جان چکی ہے، یہ نعرہ دنیا کو اپنے کنٹرول اور غلامی میں رکھنے کا ایک استعماری حربہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔اب دنیا کے علماء، جوانوں اور دانشوروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان سازشوں سے باخبر رہیں اور امت مسلمہ کو بیدار کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ انشاء اللہ وہ دن دور نہیں کہ دنیا میں سنی و شیعہ متحد ہو کر استعمار کے خلاف ایک امت واحدہ بن کر ابھریں گے اور نہ صرف قدس بلکہ تمام مظلومین بھی آزاد ہوں گے اور انسانیت امن و سکون کی سانس لے گی۔