تحریر: سید عرفان کاظمی
حوزہ نیوز ایجنسی | ایک دور تھا کہ جب دنیا تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی اور زمانہ جاہلیت عروج پر تھا۔ اس وقت بنی نوع انسان گناہوں میں غرق ہو چکے تھےاور ان کے دلوں پر زنگ لگ چکے تھے اور تاریکی دلوں پر چھا گئی تھی۔ مرد اپنے آپ کو طاقتور و مضبوط سمجھتا اور عورت کو کمزور اور کمتر سمجھتا تھا۔ وہ یہ سمجھتا تھا کہ عورت کوئی حق نہیں رکھتی اس لئے وہ عورتوں کو پاؤں کی جوتی سمجھنا اور اگر کسی گھر میں بیٹی کی پیدائش ہوتی تو رات و رات اسے زندہ زمین میں دفن کردیتا۔ گمراہی اس قدر تھی کہ جنہوں نے اسے بچپن سے لیکر بڑا کیا، اسکے ناز نخرے اٹھائے اور ان کی ہر خواہش و ضرورت کو پورا کیا تو ان کے حقوق بھی وہ بھول بیٹھے تھے وہ والدین کو بوجھ اور اپنے ساتھ رکھنا بھی برا اور اپنی بے عزتی سمجھتا تھا۔ اس زمانے میں حق و باطل کا کوئی وجود تک نہ تھا۔
ربِ کائنات نے دنیا کو تاریکیوں سے نکالنے کیلئے سورج کو طلوع کیا اور اپنے محبوب حضرت محمّد صلی اللہ وسلّم کو نبی بنا کر بھیجا تو پھر پوری دنیا آخری نبی کے نور سے منور ہوگئی۔ اور خدا نے سب سے پہلے علم تخلیق کیا اور اپنے محبوب کو بھی علم سکھایا اور رب اکبر نے اپنے محبوب سے مخاطب ہوکر فرمایا: "(اِالَّذِیۡ عَلَّمَ بِالۡقَلَمِ ۙ﴿۴عَلَّمَ الۡاِنۡسَانَ مَا لَمۡ یَعۡلَمۡ ؕ﴿۵﴾
جس نے قلم کے ذریعے سے تعلیم دی۔ اس نے انسان کو وہ علم سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا"۔
علم کو تخلیق کرنے کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ انسانوں میں شعور پیدا ہو کیونکہ تعلیم شعور دیتی ہے اور یہ تعلیم ہی تھی؛ جس نے انسان کو اچھے برے صحیح غلط کا فرق بتلایا۔ اسی تعلیم کے ذریعے ہی اس دور کے جاہلوں کو ماں باپ کی عزت کرنا سیکھایا۔ جاہلیت کی زندگی سے نکال کر ایک نئی زندگی گزارنے کا سیقلہ سکھایا۔ جو لوگ عورت کو عبث سمجھتے تھے ان کے لیے عورت کو ایک عزت دار طبقہ سمجھایا اور ان کو ان کے تمام حقوق دلائے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا نے اس دنیا میں ایک ہادی بنا کر بھیجا تاکہ آپ لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچا کر ان کو صراط مستقیم کی طرف ہدایت کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علم کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "علم حاصل کرو ماں کی گود سے قبر تک"۔
"علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا ہی کیوں نہ پڑے"۔
"علم حاصل کرنا ہر مرد عورت پر فرض ہے"۔
علم کی اہمیت کے بارے میں ہزاروں کی تعداد میں احادیث اور بہت ساری قرآنی آیات ہمارے سامنے موجود ہیں مگر افسوس اس مقام پر ہوتا ہے کہ ہم جس دور میں جو علم حاصل کر رہے ہیں اس علم میں وہی جہالت ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے پہلے تھی۔ آج ہم ماں باپ کی عزت کرنا اور ان کا خیال رکھنا عیب سمجھتے ہیں اور اب تو نہ ہمیں چھوٹوں سے پیار اور بڑوں کی عزت کا پتہ ہے۔ نہ ہمارے اندر اس علم سے انسانیت پیدا ہو رہی ہے۔
یہاں جو کچھ بھی ہو رہا ہے سب سنت نبی کے خلاف ہی ہورہا ہے۔ تعلیم حاصل کرنے سے انسان کے اندر عقل و شعور پیدا ہوتا ہے لیکن آجکل جہالت پیدا ہوتی نظر آرہی ہے۔ جتنا پڑھتے جاتے ہیں؛ جہالت بڑھتی جاتی ہے۔ اس جدید دور میں انسان جتنا تعلیم حاصل کرنے لگتا ہے اتنا ہی اس کے اندر کا انسان اور انسانیت ختم ہوتی جارہی ہے۔
بقول شاعر: "رہی تعلیم مشرق میں، نہ مغرب میں رہی غیرت
یہ جتنے پڑھتے جاتے ہیں، جہالت بڑھتی جاتی ھے"۔
آج کل کے اسکولز اور کالجز میں تعلیم کم میوزک شو زیادہ، تعلیم پر کم توجہ ثقافت کے نام پر ڈانس شو پر توجہ زیادہ توجہ دی جارہی ہے۔ بات یہاں تک روکتی تو اچھا تھا مگر دل اس وقت خون کے آنسوں روتا ہے؛ جب ماں باپ، بچوں کے ہاتھ پکڑ کسی اچھے سکول یا کسی دینی مدارس میں لے جانے کی بجائے ڈانس کلب میں داخلہ کرواتے ہیں۔
اس کے نتیجے میں لوگوں کے اندر انسانیت نام کی کوئی چیز نظر ہی نہیں آتی۔ اولاد تو جانور بھی پال لیتے ہیں مگر اولاد کو شعور تربیت تہذیب سکھانا فقط انسان کے اختیار میں ہے۔ اس لئے ہر انسان کو سوچنا چاہیے کہ انکی عملی طور پر نسبت انسانوں سے ہے یا جانوروں سے؟
عزت کرنا کسے کہتے ہیں؟ یہ معلوم تک نہیں
اکثر لوگوں میں ماں بہن کا فرق تک ختم ہو چکا ہے۔ آج کے دور تعلیم سے ہم پلٹ کر وہی جہالت کے دور میں جا رہے ہیں۔ جہاں اچھے کاموں کی کوئی قدر و قیمت نہیں، والدین کی عزت نہیں، بڑوں سے پیار نہیں، بچوں کے ساتھ شفقت نہیں وغیرہ تو یہ سب جاہلیت میں شمار ہوتا ہے۔
اگر ہم ان تمام چیزوں سے نکلنا چاہتے ہیں تو جو علم قرآن میں خدا نے بیان کیا ہے اسکو اپنے معاشرے میں لاگو کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم علم کی حقیقت کو جان کر علم کو حاصل کرئے تو ہم خود کو اور اپنی آنے والے نسلوں کو البیرونی بنا سکتے ہیں۔
ہم خود کو بو علی سینا بنا سکتے ہیں۔
ہم خود کو جابر بن حیان بنا سکتے ہیں۔
شرط یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ڈانس کلب کے بجائے ایک اچھی تربیت گاہ کی طرف لے جائیں۔ اگر قرآن نے ہمیں غور و فکر کرنے کے ساتھ برائی سے بچنے اور اچھائی کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے تو اس کے لیے عملی میدان میں اتارنا پڑے گا۔
اگر ہم اسکولز اور کالجز میں ثقافت کے نام پر ہونے والے میوزک شو کی بجائے خود شناسی پر شو رکھیں تو؛ ہم نے خود کو پہچان لیا اور جس نے خود کو پہنچان لیا تو سمجھ لیے اس نے خدا کو پہنچا لیا اور جو خدا کو پہنچاتا ہے وہ دنیا و آخرت دونوں میں کامیاب ہوجاتا ہے۔
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔