تحریر: مولانا سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری
حوزہ نیوز ایجنسی | تاریخ اسلام پرگہری نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ صحابائے کرام میں "سعد"نام کے کئی صحابی گزرے ہیں، ایک تو حضرت عبادہ کے صاحبزادے تھے جنہوں نے یہودیوں کے قتل کا فیصلہ کرکے ٹھنڈے کلیجے کے ساتھ موت قبول کی ۔ ایک ابو وقاص کے صاحبزادے تھے جنہوں نے اپنی سیاسی مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے حق کا گلا گھونٹ دیا اور ان کے صاحبزادے نے تو حد ہی کردی ۔ ایک سبزہ زار کی گورنری کے لئے فرزند رسول کو ان کے اصحاب و اعزہ کے ساتھ بیدردی سے شہید کردیا ۔
لیکن بحار الانوار میں بحوالۂ کافی ایک اور سعد نام کے صحابی کا تذکرہ ملتاہے جو اصحاب صفہ میں بڑے نیک اور پارسا تھے ، ان کی عبادت، جماعت میں حاضری ، خدمت رسالت میں بھرپور خود سپردگی جیسے مظاہرات ایسے تھے جن کی وجہ سے رسول خداؐان پر بہت زیادہ مہربان تھے لیکن تھے فقیر اور مفلس …ان کے فقر و فاقہ پر رسولؐ کا دل کڑھتا تھا، ان کی پریشاں حالی دیکھ کر فکر مند ہوجاتے تھے۔ رسول خداؐنے کبھی ان کی اس حالت کے متعلق پوچھا بھی تو ان کا جواب رضا بالقضاسے ہم آہنگ ملا، انہیں باتوں کی وجہ سے ختم نبوت کی توجہات ان پر کچھ زیادہ ہی تھیں ، آپ چاہتے تھے کہ ان کی معاشی حالت بہتر ہوجائے ، عبادت میں روٹی روزی کی فکر رخنہ نہ ڈالے ۔
آپ نے ایک بار فرمایابھی کہ اے سعد! اگر کبھی موقع ملا تو میں تمہیں غنی کردوں گا ، تم مالدار ہوجاؤ گے لیکن کافی عرصہ گزر گیا ، سعد کو غنی کرنے کا موقع نہ مل سکا۔
ایک بار رسول خداؐان کے لئے کچھ زیادہ ہی فکر مند تھے کہ جبرئیل امین نازل ہوئے ، رسول کو غمگین دیکھ کر آپ کی خدمت میں دو درہم تقدیم کرتے ہوئے عرض کی:اللہ کے رسولؐ!خداوندعالم فرماتاہے کہ آپ کی طرح ہم بھی سعد کے فقر سے واقف ہیں ، اگر اس حالت سے نجات دلانا چاہتے ہیں تو اسے یہ دو درہم دے دیجئے وہ اس سے غنی ہوجائے گا ۔
رسول خداؐنے وہ دو درہم جبرئیل سے لے لئے اور نماز ظہر کے بعد سعد سے پوچھا: سعد!کیا تم تجارت کا ارادہ رکھتے ہو؟
سعد نے جواب دیا : ضرور کروں گا لیکن حضور!میرے پاس پونجی کہاں ہے ؟
رسول خداؐنے سعد کو وہ دو درہم دے دئیے اور فرمایا :اس سے تجارت کرو، خدا تمہیں برکت دے گا۔
بس پھر کیاتھا…رسول کی عطا تھی ، برکت کا وعدہ تھا، ہمت اور لگن بڑھ گئی ، وہ جٹ گئے تجارت میں۔
ایک چیز دو درہم میں لی اور چار درہم میں لینے کے لئے گاہک آگیا، چار درہم کی چیز چھ درہم میں ، چھ کے بارہ …دیکھتے ہی دیکھتے وہ پیسے والے ہوگئے ، مسجد کے قریب ہی ایک دوکان کرائے پر لے لی اور پھر وہ اچھے خاصے مالدار ہوگئے۔ ان کی حالت بالکل بدل گئی اور واقعی ان کی حالت بدل گئی ، وہ پہلے جماعت میں اول صف میں رہتے تھے ، اب نماز سے بھی غیر حاضر رہنے لگے ، دوکان کی بھیڑ بھاڑ انہیں جماعت اور نماز کا موقع ہی نہیں دیتی تھی ، وہ کرتے تو کیا کرتے ، بال بچے بھی نہیں تھے کہ دوکان ان کے حوالے کرکے نماز جماعت میں حاضر ہوجاتے ۔
رسول خداؐان کی اس تبدیلی کو ملاحظہ فرماتے رہے ، بلال نے اذان کہی ، رسول خداؐمسجد میں آئے ، نماز پڑھائی اور واپس ہوگئے اور سعد سامان اور پیسے میں مشغول رہتے ، انہیں نماز جماعت میں حاضر ہونے کا موقع ہی نہیں ملتا ۔
ایک بار آپ نے سعد سے فرمایا : اے سعد! دنیا کی فکر نے تمہیں بہت زیادہ مشغول کردیا ہے ۔
سعد نے عرض کی : یا رسول اللہؐ! کیا کروں؟ اپنا کوئی شریک ہوتا تو مسجد میں حاضر ہوتا ۔ ذرا آپ ہی دیکھئے ، ابھی ایک گاہک آیا ، اس نے ایک کپڑا لے کر اس کا دام دیا کہ دوسرا گرم چادر لے کر بنڈل بندھوانے لگا ، اب اگر اس سے پیسہ نہ لوں تو میرا نقصان ہوجائے گا،اس سے پیسہ لیتے ہی تیسرا ٹپک پڑتا ہے ، جلدی میں مجھ سے سامان کا مطالبہ کرنے لگتا ہے۔
رسول خداؐنے اس کی گفتگو سے اس کی تبدیلی کو محسوس فرمایا ، اس کا معیار فہم دنیا کے نقصان میں محدود ہوکر رہ گیا تھا، اب اسے آخرت کے نقصان کا خیال بھی نہ تھا … دولت بجائے خود بری چیز نہیں ہے ، وہ تو کارکردگی اور معاملات کا وسیلہ ہے ، مقصد تک پہنچنے کا ذریعہ ہے ، دولت بڑی اچھی چیز ہے لیکن اسے دنیا تک محدود کرلینا ، اس کے فائدے اور نقصان کو وقتی اور عارضی مرحلے کا ذریعہ بنا لینا برا ہے ۔
انسان کا سفر دنیا سے آخرت تک کا ہے ، اس سفر کا وسیلہ صرف آدھی مسافت تک محدود کرلینا نادانی ہے ۔
اس نے کہا کہ اس سے پیسہ نہ لوں تو نقصان ہوجائے گا …اسے یہ خیال نہیں آیا کہ نماز چھوڑ دوں تو نقصان ہوجائے گا ، مالی حالت کی بربادی کاخیال ہے ، دینی حالت کی بربادی کا خیال نہیں۔
رسول خداؐ اس کی بات سن کر غمگین ہوگئے، ایک باپ کو… شفیق باپ کو اپنے فرزند کی تباہی پر غمگین ہونا ہی چاہئے…آپ بوجھل قدموں سے آگے بڑھے کہ جبرئیل نازل ہوئے :
خدائے تعالیٰ آپ کے غم سے مطلع ہوا ، سعد کے غم میں آپ بہت زیادہ ملول ہیں ، اس کی عبادت سے غفلت پر فکر مند ہیں ، آپ ہی فرمائیے، آپ کو اس کی کون سی حالت پسند ہے ، اس کی پہلی حالت یا یہ دوسری حالت ؟
رسول خداؐنے فرمایا : نہیں ، اس کی پہلی حالت بہتر تھی۔
جبرئیل امین نے کہا : سنعیدھا سیرتھا الاولیٰ…''ہم بہت جلد اس کی پہلی حالت اسے پلٹا دیں گے ، آپ نے اسے جو دو درہم عطا فرمائے تھے ، آپ اس سے وہ لے لیجئے ، بہت جلد وہ اپنی پہلی حالت پر پلٹ جائے گا ۔
رسول خداؐ نماز ظہر کے بعد اس کی دوکان پر تشریف لے گئے ، دیکھا وہ بہت زیادہ مشغول ہے ، آپ نے تھوڑی دیر انتظار فرمایا ، دیکھا کہ وہ گاہکوں میں اس قدر مشغول ہے کہ ذرا بھی توجہ نہیں دیتا ۔
آپ نے فرمایا:تمہیں دوکانداری سراٹھانے کی مہلت نہیں دیتی ، اس قدر مشغول ہوکہ گرد و پیش کا جائزہ بھی نہیں لیتے ، خدا کا شکر ہے کہ تم اب بڑے مالدار ہوگئے ہو، زندگی کی تمام ضروری چیزیں مہیاہیں ، اب تو تم آرائش کے سامان سے بھی ما لامال ہو ، اب تم ہمارا وہ دو درہم دے دو جو میں نے تمہیں دیا تھا۔
سعد نے یہ سنتے ہی عرض کی : بہت بہتر ہے حضور !اور پھر انتہائی عقیدت سے کہا: اگر آپ فرمائیں تو آپ کی خدمت میں اس کے بدلے دوسو درہم پیش کردوں !
آپ نے مسکراتے ہوئے فرمایا:نہیں …وہی دو درہم واپس کردو ۔ سعد نے فرمانبرداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے آنحضرت کی خدمت میں دو درہم تقدیم کردئیے ۔
ظاہر ہے اصل سرمایہ سے برکت کے دو درہم الگ ہو چکے تھے، کچھ ہی دنوں بعد سعد کااقتصاد پہلی حالت پر واپس آگیا ، وہ پہلے کی طرح فقیری کی زندگی گزارنے لگے…اب وہ پہلے ہی کی طرح مسجد آنے لگے ، نماز جماعت کی پہلی صف میں عبادت و نماز کی لذت محسوس کرنے لگے اور رسول اکرمؐکی معنوی صحبت میں دنیا کی مادی اور وقتی لذتوں سے آزاد ہوکر آخرت کی ابدی چاشنیوں سے لطف اندوز ہونے لگے ۔