تحریر: محمد ابراہیم صابری بلتی
حوزہ نیوز ایجنسی। شہادت یقیناً عطیہ خداوندی ہے اور ایک مسلمان کے لئے بہت بڑی سعادت اور خوشبختی ہے، لیکن جیسے شہادت بہت بڑی سعادت ہے، اسی طرح ایک کریم استاد، شفیق دوست، باعمل عالم اور مردِ مومن کی جدائی کا دکھ بھی عظیم دکھ ہے۔
استادِ بزرگوار علامہ ڈاکٹر غلام محمد فخرالدین ہند و پاک کی معروف علمی شخصیات میں شمار ہوتے تھے۔ آپ کا تعلق پاکستان کی سرزمین سے آئین گلگت بلتستان کے قمراہ گاوں سے تھا۔ موصوف پاکستان میں کالج کے دور میں آئی ایس او کے ڈویژنل صدر رہ چکے تھے اور دینی تعلیم کے میدان میں آنے کے بعد جہاں آپ نے متعدد خدمات انجام دیں، وہیں پر قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ آپ قم، ایران میں مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ بھی تھے۔
چونکہ آپ علمی میدان کے ساتھ ساتھ سیاسی میدان میں بھی فعال تھے، لہذا گلگت بلتستان کے گذشتہ قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں جب اسکردو حلقہ نمبر دو کے لئے آپ کو الیکشن میں لانے کے لئے دوستوں نے کوششیں شروع کیں تو آپ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میں فی الحال علمی حوالے سے کام کرنا چاہتا ہوں۔ آپ المصطفٰی انٹرنیشنل یونیورسٹی ایران کے ممتاز طالب علم تھے اور حال ہی میں آپ نے المصطفٰی یونیورسٹی سے قرآنیات میں اپنے تھیسز کا کامیاب دفاع کرنے کے بعد پی ایچ ڈی کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ موصوف کو اس مقالے کی نہایت عالمانہ تکمیل پر ساڑھے اٹھانوے فیصد نمبر دیئے گئے۔ جب میں چھوٹا تھا، تب سے میں نے مختلف لوگوں سے ان کی تعریفیں سن رکھی تھیں اور جب میں نے آئی ایس او میں کام کرنا شروع کیا تو بہت سارے برادران مجھے نصیحت کرتے ہوئے یہی کہتے تھے کہ عالم بننا ہے تو آغا فخرالدین کی طرح بنو۔
مجھے موصوف سے اپنی پہلی ملاقات کا احوال اچھی طرح یاد ہے۔ میں نے جب ایران آنے کا ارادہ کیا اور اسی حوالے سے جب میری ملاقات مجلس وحدت کے اسلام آباد آفس میں آغا اعجاز بہشتی سے ہوئی تو انہوں نے بھی مجھے آغا شہید کا حوالہ دیا تو میں بہت خوش ہوا۔ ایک دفعہ جب حسینیہ بلتستانیہ قم ایران میں ایک مجلس کے دوران میں نے پہلی مرتبہ استادِ محترم سے میری ملاقات ہوئی۔ پھر اسکے بعد سے میری ملاقاتوں کا سلسلہ جتنا بڑھتا گیا، میں ان کا اتنا ہی گرویدہ ہوتا گیا۔ استادِ محترم کی ایک خاص خوبی یہ تھی کہ آپ عالمِ اسلام کے مسائل کے بارے میں خود بھی فکر مند رہتے تھے اور دوسروں کو بھی سوچنے کی دعوت دیتے تھے۔ سال 2014 میں حج سے واپسی پر جب میری ان سے ملاقات ہوئی اور میں نے ان سے ان کے سفر کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگے کہ مجھے بہت ہی افسوس ہے کہ دنیا نے مسلمانوں کے بارے میں کتنے ہی غلط پروپیگنڈے پھیلا رکھے ہیں، لیکن ہم ٹس سے مس نہیں ہو رہے۔
ناصر ملت اور آغا شہیدی کے بارے میں ہمیشہ فکرمند رہتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ شہید قائد کے بعد راجہ ناصر عباس اور آغا امین شہیدی قدرت کی طرف سے ہمارے لئے ایک بہترین تحفہ ہیں۔ ہمیں ان کی قدر اور حفاظت کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ وہ تکفیریوں کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ اسلام کو ان تکفیریوں نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ ایک علمی اور تنظیمی شخصیت ہونے کے علاوہ ایک عام آدمی کی حیثیت سے بھی شہید ایک منکسرالمزاج اور خلوص کے مجسّمے تھے۔ سال 2014 کے رمضان میں جب سارے دوست تبلیغ کے لئے گئے ہوئے تھے تو یہاں دفتری امور کی دیکھ بھال کی ذمہ داری مجھے سونپ دی گئی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دن میں جب دفتر پہنچا تو دفتر کی صفائی ہوچکی تھی، اگلے روز مجھے ایک صاحب نے بتایا کہ کل جب میں دفتر آیا تھا تو آغا شہید خود اپنی فیملی کے ساتھ دفتر کی صفائی کر رہے تھے۔
آخری مرتبہ جب آغا شہید نے پاکستان جانے کا فیصلہ کیا تو آغا شہید سے ملنے کے لئے جانے والوں میں ایک میں بھی تھا۔ اس مرتبہ میں نے خلافِ عادت آغا صاحب سے شکوہ کیا کہ آغا جان جب میرا نکاح ہوا تھا تو آپ کربلا گئے ہوئے، اب اگر میری شادی میں بھی آب نے شرکت نہیں کی تو میں بہت ناراض ہوجاوں گا۔ اس وقت آغا شہید نے مجھ سے وعدہ کیا کہ اگر زندہ رہا تو انشاء اللہ میں تمہاری شادی میں ضرور آوں گا۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ آغا شہید اس سفر سے کبھی بھی واپس نہیں آئیں گے اور یہ ملاقات ہماری آخری ملاقات ہے۔ بلآخر یہ نو ذی الحجہ 2015 کی رات تھی کہ جب میں دوستوں کے ساتھ واٹس اپ پر چیٹ کر رہا تھا کہ اچانک ایک انجانے نمبر سے میسج آیا ”سلام آقای ابراہیم میں فخرالدین مکہ مکرمہ سے ہوں۔“ جب میں نے استادِ گرامی کا یہ میسج دیکھا تو میں اتنا خوش ہوا کہ میں بیان نہیں کرسکتا۔
جب میں نے شکایت کی کہ آپ کے پاس اگر واٹس اپ تھا تو پہلے میسج کیوں نہیں کیا، شاید آپ ہمیں بھول گئے ہیں، تو اپنے اسی مخصوص انداز میں بلتی میں میں کہا کہ ”یری فونو لا ببجدوگا“ یعنی آپ کا چھوٹا بھائی آپ کو کیسے بھول سکتا ہے! آغا صاحب نے اس گفتگو میں بھی مجلس وحدت مسلمین قم کے حوالے سے بھی پوچھا، سارے دوستوں کا نام لے کر فرداََ فرداََ ان کے بارے میں پوچھا اور ساتھ ہی مختار مطہری جو کہ مجلس وحدت قم کے آفس سیکرٹری تھے، ان کا نمبر بھی، جس سے پتہ چلتا ہے کہ شہید اس وقت بھی دینی و تنظیموں دوستوں کے لئے اور ان کی فعالیت کے بارے میں فکرمند تھے۔ آخر میں بس اتنا کہوں گا کہ
استادِ بزرگوار ۔۔۔ تیری یادوں کے زخم دل میں ہیں