تحریر: شاہد عباس ہادی
حوزہ نیوز ایجنسی। ہر معاشرہ ایک خاص حد تک معاشی، عسکری یا مذہبی پریشر برداشت کرسکتا ہے لیکن جب پریشر حد سے گزرتا ہے تو تحریکیں اٹھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے جب پاکستانی معاشرے میں استعمار نے قدم رکھے، جب عبدالوہاب کی فکر نے تکفیری و جھنگوی لشکروں کی بنیاد رکھی اور ضیاءالحق کی حکومت نے اس فکری انحراف کو مزید جلا دی اور پچیس ہزار تکفیری مدارس ضیاءالحق کی سرپرستی میں قائم ہوئے جو دہشتگردوں کو نرسری فراہم کرنے کا کام کرتے تو اس دہشت گردوں کے مقابل اسلامی مقاومت حزب الله اور شہید نواب صفوی کی طرح پاکستاqن میں بھی مقاومتی تحریکیں وجود میں آئیں جن کا تنہا مقصد ظلم کے مقابل قوم و ملت کی بقاء اور عوام کا تحفظ تھا۔ شہید علی ناصر صفوی ایسی مزاحمتی تحریکوں میں سے ایک کے بانی تھے، جو تکفیری دہشتگرد اور متشدد افکار کی حامل جماعتوں کے ظلم و ستم کے مقابل وجود میں آئی۔ شہید صفوی کی تحریک نے باطل کی دیواروں کو لرزا کر رکھ دیا، شہید کا ہر قدم استعمار کے لئے خوف کی علامت بن جاتا، اس مقاومتی تحریک نے امریکہ کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس تحریک کی تفصیلات شاید میسر نہ ہوں سکیں مگر شہید کی زندگی اور عمل و کردار حریت پسند جوانوں کےلئے مشعل راہ ثابت ہوئی۔
شہید کی زندگی کا بغور جائزہ لیا جائے تو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، زمانہ طالب علمی، مدرسہ دینیہ کی تعلیم اور مبارزاتی زندگی۔ شہید علی ناصر کا زمانہ طالب علمی جوکہ ادراک و فھم کا مرحلہ ہوتا ہے، دین کی خدمت میں گزرا، کالج کے زمانے میں ISO جوائن کی اور اس پلیٹ فارم سے بےپناہ خدمات انجام دیں، بیچلر کرنے کے بعد دینی مدرسے میں داخلہ لے کر مکتب کی خدمت کو اپنا ہدف قرار دیتے ہیں لیکن حکمت عملی دیکھئے کہ دوران تحصیل شہید جب ملت کی بقا کو خطرہ محسوس کرتے ہیں تو کسی مصلحت کا شکار ہوئے بغیر فوراً میدان عمل میں اتر آتے ہیں، ایک فرض شناس کی طرح اپنی ذمہ داری متعین کرتے ہیں اور خود کو ملت کے لئے وقف کردیتے ہیں۔ شہید علی ناصر کے بقول جب مکتب فزیکلی محفوظ نہ ہو تو اس کے رشد یا کسی دوسری خدمت کا تصور بعید ہے۔ جب انسانیت کو جانوروں کی طرح ذبح کیا جارہا ہو تو زبانی منطق و لغت کس کام کی، بہرحال شہید صفوی نے کسی رہنماء و مشیر کا انتظار نہیں کیا۔ یہ وہ نکتہ ہے جو شہید کو سماجی و قومی شخصیات سے ممتاز کرتا ہے، پس شہید نے ذمہ داری متعین کرنے کے بعد میدان عمل میں کود جانے کا فیصلہ کیا، مہینوں کا کام منٹوں میں کیا کرتے، ایک جگہ پر رکنے کے قائل نہیں تھے، کسی بھی منزل کو آخری منزل تصور نہیں کیا اور تیزی سے آگے بڑھتے رہے۔ آندھیاں اور پرخطر راستے شہید کو نہ روک پائے۔ بقول شہید "راستوں کی ویرانیوں اور جلتی دھوپ سے ڈرنے والے کبھی اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکتے"
شہید کی متحرک زندگی سے امریکہ و برطانیہ جیسے اسلام دشمن ملک خوفزدہ ہوگئے۔ شہید کی عملی زندگی بھی انتہائی سادہ تھی، عملی میدان میں بھی خود سے زیادہ دوسروں کا خیال رکھتے۔ ایک دفعہ جب رینجر و پولیس شہید کو تلاش کررہی تھی اور شہید دوستان کے ساتھ کار میں سفر کررہے تھے، جب دوستان نے راستے میں ناکہ لگا ہوا دیکھا تو رک گئے، شہید ہنسے اور گاڑی سے اتر کر کہا آپ لوگ جائیں، میں پیدل سفر کرنے کو ترجیح دوں گا، دوستان نے روکنے کی بہت کوشش کی کہ آپ کی جان کو خطرہ ہے مگر شہید آگے بڑھے اور ناکہ پر پہنچ کر سلام کیا اور آگے بڑھ گئے، کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ سادہ شخص اس قدر بلند ہمت ہوسکتا ہے، یہ واقعہ اس لحاظ سے بھی نتیجہ خیز ہے کہ شہید نے ہمیشہ تواضع و انکساری کے ساتھ دوسروں کا خیال رکھا، ہدف و مقصد کو کبھی فراموش نہیں ہونے دیا، شہرت و دولت کو ہمیشہ ٹھکرایا، سادہ زیستی اور تقوی و پرہیزگاری کی مجسم تصویر بن گئے، اس سادہ زیستی اور تقویٰ نے ان کی روح کی پرواز کو کبھی رکنے نہیں دیا، انہوں نے مسلسل اپنا سفر جاری رکھا اور بالآخر استعمار نے دیکھا کہ اب ناکامی و نامرادی مقدر بنتی جارہی ہے تو اس نے بزدلانہ وار کیا، امریکی و استعماری دنیا کی کمانڈ میں سپیشل فورس ایک شخص کےلئے اکٹھی ہوئی۔ ضلع بھر کی ناکہ بندی کی گئی، فورسز کے دستوں نے گھر میں داخل ہوکر شہید اور ان کی حاملہ بیوی پر گولیاں چلائیں جیسے دنیا کے سب سے بڑے دہشتگرد ہوں۔ مگر شہادت کے بعد دنیا نے جان لیا کہ شہید پر لگائے گئے الزامات سوائے جھوٹ، تہمت اور بہتان بازی کے کچھ نہیں تھے۔ مظلومانہ شہادت نے بتا دیا کہ کسی مظلوم کا خون رائیگاں نہیں جاتا، لہذا استعمار کے مقابلے میں شہید کی تحریک آج بھی زندہ ہے۔
تم ظلم کی حد کو پار کرو
ہم صبر کا دامن تھامے ہیں
تم آؤ ہم کو قتل کرو
ہم خون بہانا جانتے ہیں
تم بھٹکے ہوئے ہو منزل سے
ہم منزل کو پہچانتے ہیں
ہے جان ہماری قرضِ حسین
یہ جان تو ہم نے دینی ہے
تم کتنے حسینی مارو گے
یہ ساری قوم حسینی ہے