۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
شجاعی

حوزہ/ ہمارے دور دراز اور پسماندہ علاقوں میں تعلیم و تعلم کا زبردست فقدان ہے اگرچہ ان علاقوں میں عزاداری کے لیے  بڑے بڑے امام باڑے تعمیر ہوئے ہیں اور ہورہے ہیں لیکن تعلیم و تربیت کے لیے ان علاقوں کے بچوں کو دو کمرے بھی نصیب نہیں۔

حوزه نیوز ایجنسیl
حدیث شریف ہے کہ "علماء انبیاء کے وارث ہے " بعثت انبیاء پر اگر طائرانہ نظر دوڑائی جائے ۔ہدف اور مقصد یہی ہے کہ جامع پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے  معاشرہ کا سدھار ۔
بہر حال حدیث شریف کے مطابق علماء بھی اسی مشن کے رہنماء و رہبر ہیں مذہبی سماجی و سیاسی طور پر سوئے ہوئے ضمیروں کو بیدار کرنا معاشرے میں پائی جانے والی برائیوں کا خاتمہ کرنا قوم کے ہر فرد میں شعور پیدا کرنا ۔اور معاشرے میں مسائل و مشکلات کو اجاگر کرکے ان مسائل کا حل ڈھونڈنا علماء کا فریضہ ہے۔
مسلم معاشرے میں حیات انسانی کو  ایک ڈاکٹر اور انجینئر وغیرہ کی طرح عالم دین کی بھی ضرورت ہوتی ہے جو اس کی زندگی کو نکھارنے سجانے اور سنوارنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے بے شعور معاشرے میں علماء کرام کو ظاہری طور پر عزت و احترام تو کیا جاتا ہے لیکن درحقیقت اس عظیم المرتبت والے طبقے کے تئیں وہ حق ادا نہیں کیا جاتا جس کا تقاضا ہے ۔علماء کا طبقہ ایک عظیم الشان طبقہ ہے جس کے بارے میں روز قیامت ہم سب سے سوال کیا جائے گا کہ اگر تمہارے معاشرے،تمہارے علاقے یا تمہارے محلے میں فلاح عالم دین تھا تو تم نے اس سے کیا حاصل کیا۔ ہم سب جوابدہ ہونگے ۔خدانخواستہ ایسا نہ ہو کہ ہم اس موقعہ پر شرمندہ ہوجائے اور پچھتانا پڑے ۔
الحمد للہ ہماری وادی گلپوش میں بھی علماء کرام کی ایک بڑی تعداد موجود ہے خدا ان سب کو حفظ و امان میں رکھے  اقتصادی لحاظ سے کمزور علماء کا یہ طبقہ دینی معاملے میں سادہ لوح عوام کی خدمات میں پیش پیش ہے اور موجودہ پرفتن دور میں دینی علوم کی ترویج و اشاعت میں اپنا خون پسینہ ایک کررہے ہیں ۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ہمارے یہاں جید اور ممتاز علمائے کرام کی ایک بڑی تعداد  فرقہ پرستی کے شکار ہوکر گوشہ نشین ہوگئے ہیں۔وقتاً فوقتاً فرقہ پرستوں نے ان علمائے کرام کی توہین کی اور اس نازیبا  حرکت میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔علماء سے استفادہ حاصل کرنا تو دور کی بات فرقہ پرستوں نے علماء پر تہمتیں لگائی، فرقہ پرستی کے نام پر علمائے کرام کے اوپر ناپاک ہاتھ اٹھائے ۔ لیکن ان مشکل اور کٹھن حالات کے باوجود علماء نے اپنا مشن جاری و ساری رکھا ۔علماء کی کاوشوں سے بحمد للہ  نئی نسل نے کچھ حد تک روایتی فرقہ پرستی کو خیر باد کہہ دیا۔ 
آج عالم بشریت کو جن چلینجز کا سامنا ہے خاص طور پر عالم اسلام جس طرح مسائل و مشکلات سے دوچار ہے ان تشویشناک حالات پر قابو پانے کے لیے اور عالم انسانیت کو ان مسائل ومشکلات سے نجات دلانے کے لیے عالمی سطح پر جید علماء کرام میدان عمل میں کمر کسے ہوئے برسرپیکار ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای اس کا واضع مثال ہے انسانیت کی بقاء کے خاطر جن کی  خدمات چودھویں چاند کی طرح روشن و عیاں ہے ۔ 
ہماری وادی میں بھی اگرچہ علماء کی ایک بڑی تعدد دینی خدمات میں سرگرم عمل ہے لیکن قومی ضروریات کے حوالے سے یہ طبقہ بہت  پیچھے نظر آرہا ہے۔وادی کشمیر میں علماء صرف امام جمعہ و جماعت ،تجہیز و تکفین ،فقہی مسائل، مجلس عزاداری ،فاتحہ خوانی ،اور ختم شریف،نکاح خوانی ،مسجد اور امامبارگاہوں کے دائرے تک محدود ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ معاشرے میں سدھار لانے اور قوم کی ترقی کے لیے اس طبقے کو محدود دائرے سے نکلنے کی اشد ضرورت ہے۔
 ہمارے دور دراز اور پسماندہ علاقوں میں تعلیم و تعلم کا زبردست فقدان ہے اگرچہ ان علاقوں میں عزاداری کے لیے  بڑے بڑے امام باڑے تعمیر ہوئے ہیں اور ہورہے ہیں لیکن تعلیم و تربیت کے لیے ان علاقوں کے بچوں کو دو کمرے بھی نصیب نہیں ۔ہمارے علماء اگرچہ ان پسماندہ علاقوں میں عزاداری کے بڑے بڑے اجتماع منعقد کررہے ہیں یا نہیں بھی کررہے ہیں لیکن مذکورہ علاقوں کی رابطہ سڑکیں آمد و رفت کے قابل نہیں ہے ۔صفائی تو دور کی بات پینے کے لیے پانی نہیں ہے ۔ نہ طبی سہولیات ہے نہ دیگر ضروریات زندگی میسر۔ 
ان معاملات میں علماء کا طبقہ چپ سادھ لیے ہوئے بیٹھے  ہیں ۔بڑے بڑے پریس بیانات لیکن عملی میدان میں سراب ثابت ہورہے ہیں ۔ 
علماء کا احترام ہم پر لازم ہے ہم علماء کی عزت و احترام کرتے ہیں ۔ لیکن علماء اگر معاشرے کو سدھارنے اور سنوارنے والے ہوتے ہیں ۔مشن انبیاء کے نمائندے ہوتے ہیں ۔تو معاشرے کی مرضوں کا مداوا کیوں نہیں کررہے ہیں ۔ اگر آج نہیں تو کب اپنی ذمہ داریاں انجام دیں گے ۔ ذرا سوچئے اگر دہائیوں پہلے علماء نے ایک ہی جنڈے تلے جمع ہوکر غریب طلباء کے لیےتعلیم کا کوئی انتظام کیا ہوتا ۔تو شاید آج زالپورہ سوناواری کی دس سالہ بیٹی کی میت حاصل کرنے کے لیے  باپ کو نہ تڑپتا پڑتا۔شاید تمام میدانوں میں ہمارے نمائندے ہوتے ہم اللہ کے سوا کسی طاقت کے محتاج نہ رہتے۔ 
افسوس کا مقام ہے کہ ایک ہی دین اور ایک ہی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام مختلف گرہوں میں بٹ گئے اپنے اپنے دکان سجائے اور اپنے اپنے دکانوں پر سادہ لوح عوام کے سروں کا سودا سجایا۔ 
جس معاشرے کے راہنما اپنے اپنے دکان سجانے کے لیے مختلف ٹولیوں میں بٹ جائیں گے مختلف ناموں کے سہارے قوم کا سودا کریں گے اس قوم کا مستقبل کیا ہوگا۔تاریک نہیں تو اور کیا ہوگا ۔ ذرا سوچئے
یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ جمہوری اسلامی ایران دن دوگنی رات چوگنی ترقی کررہا ہے اس ترقی و کامیابی میں ننانوے فیصد رول علماء کا ہے ۔ریکارڈ تورڈ اقتصادی ناکہ بندی کے باوجود علمی۔سائنسی، ٹیکنالوجی و دیگر میدانوں کی ترقی میں پیشرفت ہورہی ہے  اس کامیابی کا راز صرف اور صرف علماء کی جدوجہد میں مضمر ہے ۔ 
امام خمینی ،رہبر انقلاب، آیت اللہ شیخ عیسٰی قاسم ،آیت اللہ زکزکی ،سید حسن نصر اللہ شہید نمر النمر جیسے عظیم  المرتبت ہستیاں بھی اسی طبقہ سے وابسطہ ہیں لیکن یہ عظیم المرتبت ہستیاں اس مرتبہ اور اس مقام پر کیسے فائز ہوئے کیسے انہوں نے معرفت کی معراج اور معاشرتی تعمیر و ترقی کی منازل طے کیں۔ہمارے علماء کو اس بارے میں سوچنا چاہئے اور اپنی قوم کو بربادی سے نجات دلانے کے لیے ایک جامع  لائحہ عمل مرتب کرنا چاہیئے۔

تحریر ۔مجتبٰی ابن شجاعی  

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .

تبصرے

  • Bashir Athar IN 13:56 - 2020/04/20
    0 0
    یہ مراسلہ بہت ہی اچھا اور کارآمد ہے اللہ تعالیٰ کالم نگار کو اور زیادہ زور قلم عطا فرمائے آمین