پیر 12 مئی 2025 - 19:05
علماء کی آخرت میں بازپرس

حوزہ/ امام خمینیؒ نے اپنی معروف کتاب جِہادِ اکبر میں علماء اور طلاب کے لیے نہایت اہم اخلاقی اور اجتماعی سفارشات بیان کی ہیں، جن میں واضح کیا گیا ہے کہ روحانی طبقے کی زندگی محض ایک فرد کی ذاتی زندگی نہیں بلکہ پوری ملت کے دین و ایمان کا عکس ہوتی ہے۔ ان سفارشات میں بتایا گیا ہے کہ علماء کا کردار نہ صرف خود ان کے لیے بلکہ پورے سماج کے لیے نیکی یا بربادی کا سبب بن سکتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امام خمینیؒ نے اپنی معروف کتاب جِہادِ اکبر میں علماء اور طلاب کے لیے نہایت اہم اخلاقی اور اجتماعی نصیحتیں بیان کی ہیں، جن میں واضح کیا گیا ہے کہ روحانی طبقے کی زندگی محض ایک فرد کی ذاتی زندگی نہیں بلکہ پوری ملت کے دین و ایمان کا عکس ہوتی ہے۔ ان سفارشات میں بتایا گیا ہے کہ علماء کا کردار نہ صرف خود ان کے لیے بلکہ پورے سماج کے لیے نیکی یا بربادی کا سبب بن سکتا ہے۔

امام خمینیؒ فرماتے ہیں کہ طلاب اور علماء کی ذمہ داریاں عام لوگوں سے مختلف اور کہیں زیادہ سنگین ہیں۔ بہت سے ایسے امور جو عام لوگوں کے لیے مباح یا جائز ہو سکتے ہیں، وہی کام علماء کے لیے حرام اور مضر ثابت ہو سکتے ہیں، کیونکہ عوام ان سے اعلیٰ اخلاق اور تقویٰ کی توقع رکھتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر کسی معمولی تاجر یا ملازم سے کوئی بد عملی سرزد ہو، تو لوگ اسے انفرادی سطح پر دیکھتے ہیں اور صرف اسی فرد پر تنقید کرتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی روحانی یا عالم دین غلطی کرتا ہے تو پوری روحانیت اور اسلام پر انگلیاں اٹھتی ہیں۔ امام خمینیؒ نے افسوس کے ساتھ فرمایا: "ای کاش لوگ صرف اس فرد سے بدگمان ہوتے، لیکن جب ایک عالم سے غلطی ہوتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ 'عالم سب ایسے ہی ہوتے ہیں'"۔

امام خمینیؒ کی نگاہ میں یہ ایک عظیم مصیبت ہے کہ عالم دین کی ایک خطا دین سے دوری کا سبب بن سکتی ہے۔ ایسی صورت میں صرف فرد نہیں بلکہ پوری روحانیت بدنام ہو جاتی ہے۔ اسی لیے علماء کو چاہیے کہ وہ اپنے اعمال پر خاص طور پر نظر رکھیں اور خود کو اخلاقی طور پر سنوارنے میں کوتاہی نہ کریں۔

امام خمینیؒ نے احادیث کی روشنی میں علماء کی آخرت کی جوابدہی کو بھی نہایت سخت قرار دیا۔ ایک روایت کے مطابق، جب عالم کی جان لبوں تک پہنچتی ہے تو اس کی توبہ قبول نہیں کی جاتی، جبکہ جاہل کی توبہ موت کے آخری لمحے تک قبول کی جا سکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عالم کی گناہ سے صرف وہی نہیں بلکہ دوسروں کا بھی دین و ایمان متأثر ہوتا ہے۔

ایک اور حدیث میں فرمایا گیا: "اللہ تعالیٰ ستر گناہ جاہل کے معاف فرما دیتا ہے اس سے پہلے کہ عالم کا ایک گناہ معاف کرے"، کیونکہ عالم کا گناہ اجتماعی اثر رکھتا ہے اور اسلام کی بدنامی کا سبب بن سکتا ہے۔

آخر میں امام خمینیؒ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اگر کوئی عالم دین راہِ حق سے ہٹ جائے تو وہ صرف اپنی ذات کو نہیں بلکہ اسلام اور دیگر علماء کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ لہٰذا علماء کو چاہیے کہ وہ اپنی علمی و عملی ذمہ داریوں کا شدت سے احساس کریں اور معاشرے میں دین کا حقیقی چہرہ پیش کریں۔

یہ اخلاقی نصیحتیں آج کے دور میں اور بھی اہمیت رکھتی ہیں، جب ذرائع ابلاغ کے ذریعے معمولی غلطیاں بھی بڑے پیمانے پر پھیل جاتی ہیں۔ روحانیت کی عزت و حرمت کو قائم رکھنے کے لیے علماء کرام کو ہر قدم پر ہوشیاری، تقویٰ اور اخلاص سے کام لینا چاہیے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha