جمعہ 10 اپریل 2020 - 01:05
مسلمانوں کا میڈیا ٹرائل

حوزہ/ میڈیا نے اپنے بنیادی مقاصد کو فراموش کرکے افواہیں پھیلانے، جہالت کو فروغ دینے اور انتشار پھیلانے کا کاروبار شروع کررکھاہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی| یوں تو صحافت کے بنیاد گذاروں نے اس کے سینکڑوں ضابطے وضع کئے ہیں لیکن جن پانچ بنیادوں پر صحافت کی عمارت کھڑی کی گئی ہے، ان میں سچائی کو اس کی اصل قرار دیا گیا ہے۔اس کے علاوہ آزادی، شفافیت،غیر جانب داری، انسانیت نوازی اور جوابدہی اس کے دیگر عوامل ہیں۔لیکن صحافت کی موجودہ شکل وصورت کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس وقت ان پانچوں بنیادوں سے منحرف ہو چکی ہے۔ سچائی، دیانت داری، غیر جانبداری اور ہر قسم کی جواب دہی سے آزاد آج کی صحافت انسانیت کے خلاف برسر پیکار ہے۔ میڈیا نے اپنے بنیادی مقاصد کو فراموش کرکے افواہیں پھیلانے، جہالت کو فروغ دینے اور انتشار پھیلانے کا کاروبار شروع کررکھاہے۔یہی وجہ ہے کہ بیشتر نیوز چینل اور اخبارات ایسی خبروں کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں جن کے ذریعے سماج میں نفرت کی دیواریں کھڑی کرسکیں۔ اس کی تازہ مثال تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کے خلاف میڈیا کی انتہائی اشتعال انگیز مہم ہے، جس کا مقصد ہمیشہ کی طرح مسلمانوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنا ہے۔
 تبلیغی جماعت کے عالمی مرکز میں کورونا وائرس کے سینکڑوں مریضوں کی برآمدگی کے بعد تو ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ملک میں کورونا وائرس کی موذی وبا پھیلانے کی تمام ذمہ داری مسلمانوں کے سر پر ہے۔ تبلیغی مرکز اور اس کے ذمہ داروں کی غفلت کانشانہ ایسیمسلمانوں کو بھی بنایا جارہا ہے جن کا تبلیغ سے نہ تو کوئی تعلق ہے اور نہ ہی انھوں نے کبھی مرکز کا منہ دیکھا ہے۔اس بے ہودہ پروپیگنڈے کا زور اتنا شدید ہے کہ جا بجا مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ان پر بے ہودہ اور انسانیت سوزالزامات لگائے جارہے ہیں۔انھیں بدی کا محور قرار دے دیاگیا ہے۔یہاں تک کہ مہاراشٹر نونرمان سینا کے صدر راج ٹھاکرے نے تبلیغی جماعت کے لوگوں کو گولی مارنے تک کا حکم جاری کردیا ہے اور کئی لوگوں نے تبلیغیوں پر یہ ہنر آزمانے کی کوشش بھی کی ہے۔وہی راج ٹھاکرے نے جن کے چچا آنجہانی بال ٹھاکرے نے کسی زمانے میں مسلمانوں کو بحر عرب میں ڈبودینے کی دھمکی دی تھی۔
کورونا وائرس پھیلانے کے لئے مسلمانوں کو مورد الزام قرار دینے کا سب سے زیادہ پروپیگنڈہ نیوز چینلوں نے کیا ہے۔یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ ملک کے بیشتر نیوز چینل ایسے موضوعات کی تلاش میں رہتے ہیں جن میں وہ مسلمانوں کو ملک دشمن، جہادی اور دہشت گرد ثابت کرسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب تبلیغی جماعت کے عالمی مرکز میں ملک وبیرون ملک سے جمع ہوئے لوگوں میں کورونا کی علامات پائی گئیں تو ان ٹی وی چینلوں نے کورونا وائرس کے خلاف جاری جنگ کو اچانک مسلمانوں کے خلاف’جہاد‘ میں تبدیل کردیا۔ بعض چینلوں نے تو بے غیرتی کی ساری حدیں پار کرتے ہوئے یہاں تک کہا کہ تبلیغی مرکز میں جمع ہوئے لوگ دراصل ’کوروناجہادی‘ ہیں جو منصوبہ بند طریقے سے ملک میں اس خطرناک وبا کو پھیلانے کے لئے بھیجے گئے ہیں۔ان چینلوں نے تبلیغی مرکز کے خلاف اتنی افواہیں پھیلائیں کہ ملک کے عوام مسلمانوں کو’کورونا جہادیوں‘کے طور پر دیکھنے لگے۔سوشل میڈیا پر مسلمانوں کے سوشل بائیکاٹ کی مہم شروع کردی گئی اور ان سے کاروباری رشتے توڑنے کی اپیلیں کی جانے لگیں۔ نفرت اس حد تک بڑھی کہ جے پور کے سرکاری اسپتال میں ایک مسلمان حاملہ خاتون کو اسپتال میں داخل کرنے سے انکار کردیا گیا۔ اس خاتون نے ایمبولینس میں ہی بچے کو جنم دیا، لیکن طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے وہیں بچے کی موت واقع ہوگئی۔ اس قسم کے کربناک واقعات ملک کے دوسرے حصوں میں بھی ہوئے ہیں۔ تبلیغی جماعت کے لوگوں کو اپنی اسکوٹر پر بٹھاکر کہیں پہنچانے والے ایک مسلم نوجوان کو اتنا ہراساں کیا گیا کہ اس نے خودکشی کرلی۔غرض یہ کہ پورے ملک میں کورونا کے خلاف جنگ مسلم مخالف جنگ میں تبدیل ہوگئی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں کورونا وائرس کی سب سے زیادہ تباہ کاریاں امریکہ میں ہورہی ہیں اور وہاں لاکھوں لوگ اس سے متاثر ہیں۔ یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ وہاں کورونا کی وبا چین سے پہنچی ہے۔ چار لاکھ سے زیادہ لوگوں کی چین سے امریکہ آمد نے وہاں زبردست تباہی مچائی ہے، لیکن ابھی تک کسی ایک بھی امریکی شہری نے نہ تو اس معاملے میں چین کا نام لیا ہے اور نہ چین کے خلاف کوئی پروپیگنڈہ کیا گیا ہے۔اگر ایسا ہمارے ملک میں ہوتا تو اب تک چینیوں کو زندہ درگور کردیا گیا ہوتااور چینی اشیا ء کے بائیکاٹ کی مہم چل رہی ہوتی۔
یہ کوئی پہلا موقعہ نہیں ہے کہ میڈیا نے مسلمانوں کو حالات کا ایندھن بنانے کی کوشش کی ہے بلکہ یہ کام بہت منظم پیمانے پرعرصے سے کیا جارہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ میڈیا کو مسلم مخالف غذا فراہم کرنے میں کچھ ایسی سیاسی پارٹیاں بھی پیش پیش ہیں جن کی دکان مسلم دشمنی اور فرقہ وارانہ پروپیگنڈے سے ہی چلتی ہے۔ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے کہ دہلی کے شمال مشرقی حصہ میں فرقہ وارانہ فسادکی رپورٹنگ  کے دوران میڈیا نے بہت ہی جانبدارانہ کردار ادا کیا تھا۔اس فساد کوبھڑکانے اور برپا کرنے میں ایک مخصوص سیاسی گروہ کا ہاتھ تھا اور اسی کے تربیت یافتہ غارت گروں نے مسلم آبادیوں کو نشانہ بنایا تھا۔ اس فساد میں 52افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں 90 فیصد مسلمان تھے، لیکن میڈیا نے اس کا سارا قصور مسلمانوں کے سر ڈال دیا۔ لہٰذا پولیس نے یک طرفہ گرفتاریاں کیں اوریہ سلسلہ ہنوزجاری ہے۔ جبکہ اس فساد کومنصوبہ بند طریقے پر بھڑکانے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ وہ آج بھی پولیس کے تحفظ میں آزاد گھوم رہے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اس فساد اور اس کے اصل مجرموں کی نقاب کشائی کرنے والے کیرالا کے دوچینلوں پر حکومت نے 48گھنٹے کی پابندی کا تو اعلان کیا لیکن مسلمانوں کے خلاف نفرت پھلانے والے چینلوں سے یہ بھی نہیں پوچھا گیاکہ ان کے منہ میں کتنے دانت ہیں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تبلیغی مرکز کے ذمہ داروں سے بڑی بھاری چوک ہوئی اور ان کی غفلت کے نتیجے میں خود تبلیغ کے سینکڑوں لوگ اس خوفناک وبا کی چپیٹ میں آگئے۔ کئی لوگوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا اور سینکڑوں تبلیغی کارکنوں کو قرنطینہ بھی بھیجا گیا ہے۔ اس غفلت کی سزا انھیں دی جارہی ہے۔پولیس اور سرکاری مشینری نے ان کاپورا شجرہ کھنگالنا شروع کردیا ہے۔ لیکن میڈیا نے اس معاملے کو جس خطرناک انداز میں ملک کے سامنے پیش کیا ہے،اس کا لب لباب یہ تھا کہ اس وقت تبلیغی جماعت ہی ساری خرابیوں کی جڑ ہے اور جب تک بیماری کی جڑ پر وار نہیں کیا جاتا،اس وقت تک اس بیماری کا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔اطلاعات کے مطابق مسلم مخالف بے ہودہ پروپیگنڈہ کرنے والے کئی چینلوں اور انکے اینکروں پر ملک کے کئی شہروں میں مقدمات قایم کئے گئے ہیں اور نامزد رپورٹیں درج کرائی گئی ہیں۔ اس سلسلے میں مولانا ارشد مدنی کی قیادت والی جمعیۃ العلماء نے بھی سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن داخل کر کے خاطی چینلوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت سماج میں انتشار پھیلانے اور فرقہ وارانہ جذبات بھڑکانے والے ان چینلوں کے خلاف کیا موقف اختیا ر کرتی ہے۔بنیادی بات یہ کہ اگر اسی طرح مسلمانوں کو بدی کا محور قرار دینے کی یہ مہم پروان چڑھتی رہی اور اس کا سدباب نہیں کیا گیا تو اس ملک میں مسلمان ہونا سب سے بڑا جرم ہوجائے گا۔ بیس کروڑآبادی والی ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے ساتھ یہ سوتیلا سلوک جہاں اسے زبردست نفسیاتی خوف میں مبتلا کرے گا،وہیں اس سے ملک میں خانہ جنگی جیسے حالات پیدا ہونے کا بھی خطرہ ہے۔

تحریر: معصوم مرادآبادی

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .