پیر 10 فروری 2025 - 09:00
محبت اور مودّت؛ زبانی دعوے سے مقامِ فداکاری تک

حوزہ/اہل بیت علیہم السّلام سے محبت ہر مومن کے دل میں موجود ہوتی ہے، لیکن محبت اور مودّت میں ایک بنیادی فرق ہے۔ محبت ایک فطری جذبہ ہے جو دل میں پیدا ہوتا ہے، مگر مودّت ایک عملی کیفیت ہے جو محبت کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے قربانی، وفاداری اور اطاعت میں ظاہر ہوتی ہے۔

تحریر: مولانا سید عمار حیدر زیدی قم

حوزہ نیوز ایجنسی|

اہل بیت علیہم السّلام سے محبت ہر مومن کے دل میں موجود ہوتی ہے، لیکن محبت اور مودّت میں ایک بنیادی فرق ہے۔ محبت ایک فطری جذبہ ہے جو دل میں پیدا ہوتا ہے، مگر مودّت ایک عملی کیفیت ہے جو محبت کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے قربانی، وفاداری اور اطاعت میں ظاہر ہوتی ہے۔

محبت (Love) ایک جذباتی وابستگی ہے، جیسے والدین کو اپنی اولاد سے یا کسی کو اپنے کسی عزیز سے ہوتی ہے۔

مودّت (Deep Affection & Devotion) محبت کی اس بلند ترین شکل کا نام ہے جو انسان کو محبوب کی اطاعت، فداکاری اور ہر حال میں اس کے ساتھ کھڑے ہونے پر مجبور کر دے۔

اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کے اہل بیتؑ سے صرف محبت کا مطالبہ نہیں کیا، بلکہ "مودّت" کا حکم دیا:"قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا ٱلْمَوَدَّةَ فِى ٱلْقُرْبَىٰ"(سورۃ الشوریٰ: 23)

ترجمہ: کہہ دو (اے رسولﷺ)، میں تم سے اس (رسالت) پر کوئی اجر نہیں مانگتا، مگر اپنے قریبیوں سے مودّت۔

یہاں محبت کے بجائے "مودّت" کا لفظ آیا ہے، کیونکہ محض محبت کافی نہیں، بلکہ اس محبت میں قربانی، وفاداری اور مکمل اطاعت بھی ہونی چاہیے۔

مودّت وہ دریا ہے جس میں محبت کے تمام سمندر ضم ہوتے ہیں اگر محبت کو سمندر کہا جائے تو مودّت ایک وسیع دریا ہے، جس میں محبت کے یہ تمام سمندر ضم ہوتے ہیں۔ محبت کے کئی درجے ہیں، مگر مودّت وہ آخری درجہ ہے جہاں انسان اپنی ہر چیز محبوب پر نثار کر دیتا ہے۔ اسی حقیقت کا اظہار ہم زیارتِ عاشورہ میں کرتے ہیں:"بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی، وَمَالِی وَأَہْلِی، وَمَا مَلَکَتْ یَدِی"

ترجمہ: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، میرا مال، میرا اہل و عیال اور جو کچھ میرے ہاتھ میں ہے، سب کچھ آپ پر قربان۔

یہ صرف زبانی محبت نہیں بلکہ حقیقی مودّت ہے، جہاں انسان اپنے محبوب کے لیے اپنی ہر شے کو قربان کرنے پر تیار ہو جاتا ہے۔

امام علیؑ نے حقیقی مودّت کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:"محبت کا تقاضا ہے کہ جس سے محبت کی جائے، اس کے اصولوں کو اپنایا جائے۔"

(نہج البلاغہ، حکمت 45)

امامؑ یہاں محض زبانی محبت کو رد کرتے ہیں اور عمل کی تاکید کرتے ہیں، کیونکہ جو شخص حقیقی مودّت رکھتا ہے، وہ محبوب کے راستے میں ہر قربانی دینے کے لیے تیار رہتا ہے۔

حقیقی مودّت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی زندگی کو اہل بیتؑ کی تعلیمات کے مطابق ڈھالیں اور ان کے دشمنوں کے مقابلے میں ہمیشہ ان کے ساتھ کھڑے رہیں۔ امام حسینؑ کے جانثاروں نے اسی مودّت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کیں اور کہا:"یَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ، لَنْ نُفَارِقَکَ أَبَدًا، نَقْتُلُ دُونَکَ وَنُقَطَّعُ أَلْفَ مَرَّةٍ وَنَحْنُ مَعَکَ"

ترجمہ: اے فرزندِ رسولؐ! ہم آپ کو کبھی نہیں چھوڑیں گے، ہم آپ کے لیے ہزار مرتبہ قتل ہونے اور ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے لیے بھی تیار ہیں۔

یہی وہ جذبہ ہے جو ایک سچے محب کو مقامِ فداکاری تک پہنچاتا ہے، جہاں وہ اپنی جان، مال، اولاد اور ہر چیز محبوب کے راستے میں قربان کرنے کے لیے آمادہ ہوتا ہے۔

محبت کا صرف زبانی دعویٰ کافی نہیں، بلکہ اسے مودّت کی صورت میں ثابت کرنا ضروری ہے۔ اہل بیتؑ سے سچی مودّت وہی رکھتا ہے جو ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلے، ان کی قربانیوں کو سمجھے، اور ان کے دشمنوں سے نفرت کرے۔ جو لوگ اپنی محبت کو مودّت میں بدلتے ہیں، وہی لوگ اللہ کے ہاں "مقامِ محمود" تک پہنچتے ہیں۔

اللہ ہمیں محبّت کو حقیقی مودّت میں ڈھالنے اور اہل بیتؑ کے راستے پر ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha