پیر 10 فروری 2025 - 11:36
22 بھمن اور ایرانی تاریخ

حوزہ/ 22 بہمن کو ایران میں ایک نہایت منفرد رسم ادا کی جاتی ہے؛ 22 بھمن بمطابق 10 فروری کی رات کو ایران میں انقلابِ اسلامی کی سالگرہ کے موقع پر "اللہ اکبر" کے نعروں سے پورا ملک گونج اٹھتا ہے، جو 11 فروری 1979 کو شہنشاہیت کے خاتمے اور اسلامی جمہوریہ کے قیام کی علامت ہے، یہ نعرے عوام کی یکجہتی، اسلامی نظام کے ساتھ وفاداری اور دشمنوں کے مقابلے میں مزاحمت کا اظہار ہیں، جسے ہر سال رات گئے چھتوں اور گلیوں سے بلند کیا جاتا ہے۔

تحریر و ترتیب: سید فصیح کاظمی

حوزہ نیوز ایجنسی|

22 بہمن کو ایران میں ایک نہایت منفرد رسم ادا کی جاتی ہے؛ 22 بھمن بمطابق 10 فروری کی رات کو ایران میں انقلابِ اسلامی کی سالگرہ کے موقع پر "اللہ اکبر" کے نعروں سے پورا ملک گونج اٹھتا ہے، جو 11 فروری 1979 کو شہنشاہیت کے خاتمے اور اسلامی جمہوریہ کے قیام کی علامت ہے، یہ نعرے عوام کی یکجہتی، اسلامی نظام کے ساتھ وفاداری اور دشمنوں کے مقابلے میں مزاحمت کا اظہار ہیں، جسے ہر سال رات گئے چھتوں اور گلیوں سے بلند کیا جاتا ہے۔

22 بہمن کی رات ایران میں "اللہ اکبر" کے نعروں کی گونج محض ایک رسم نہیں، بلکہ اس کے پیچھے گہرے تاریخی، سماجی اور سیاسی معنی چھپے ہیں؛ ذیل میں ان پہلوؤں کو مختصراً سمجھتے ہیں۔

۱۔ تاریخی بنیاد: انقلاب کی آواز بننے تک کا سفر

- شاہی آمریت کے خلاف پہلا قدم: 1970 کی دہائی کے آخر میں جب شاہ پہلوی کی حکومت عوام پر جبر کر رہی تھی، لوگوں نے احتجاج کا ایک انوکھا طریقہ اپنایا۔ رات کے اندھیرے میں چھتوں پر کھڑے ہو کر "اللہ اکبر" پکارنا نہ صرف مذہبی عقیدت کا اظہار تھا، بلکہ یہ ظالم حکومت کو یہ بتانے کا بےخوف انداز تھا کہ عوام خاموش نہیں بیٹھیں گے۔

- امام خمینی کی حکمت عملی: امام خمینیؒ نے اس نعرے کو عوامی تحریک کا مرکز بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ "یہ آوازیں توپوں اور ٹینکوں سے زیادہ طاقتور ہیں"۔ درحقیقت، جب شاہ کی فوج نے گولیاں چلائیں، تو عوام کے نعرے اس کی طاقت کو چیلنج کرتے رہے۔

۲۔ رات کو نعرے لگانے کی خاص وجوہات

- خفیہ احتجاج کا ذریعہ: دن میں کھلے عام احتجاج کرنے والوں کو گرفتار کیا جاتا تھا یا تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ اس لیے رات کا وقت محفوظ سمجھا جاتا تھا۔ چھتوں پر کھڑے ہو کر نعرے لگانا ایسا تھا جیسے پورا شہر ایک ساتھ بغاوت کے لیے اٹھ کھڑا ہو۔

- وحدت کی علامت: جب ایک محلے سے "اللہ اکبر" کی آواز اٹھتی، تو دوسرے محلے کے لوگ بھی جواب دیتے۔ یہ سلسلہ پورے ملک میں پھیل جاتا، جس سے ہر فرد کو یقین ہوتا کہ وہ تنہا نہیں، بلکہ ایک بڑی تحریک کا حصہ ہے۔

- مذہب اور سیاست کا امتزاج: یہ نعرہ ظاہر کرتا تھا کہ انقلاب صرف سیاسی تبدیلی نہیں، بلکہ اسلامی اقدار کی بحالی کا نام ہے۔ اس لیے یہ نعرہ مذہبی حمایت حاصل کرنے میں بھی اہم تھا۔

۳۔ ۲۲ بہمن کی رات: کیوں اور کیسے؟

- انقلاب کی فیصلہ کن گھڑی: 21 بہمن کی رات کو شاہ نے ملک بھر میں فوجی حکومت (مارشل لاء) نافذ کی، لیکن عوام نے 22 بہمن کی صبح تک فوجی چیک پوسٹس توڑ دیں اور شاہ کے محلات پر قبضہ کر لیا۔ اس رات کو "اللہ اکبر" کے نعرے عوامی ہمت کی علامت بن گئے۔

-روحانی جذبات کا اظہار: آج بھی یہ نعرے لگانا ان لوگوں کو خراجِ تحسین پیش کرنا ہے جنہوں نے شاہ کے ٹینکوں کے سامنے ڈٹ کر جانوں کی قربانی دی۔

- نوجوان نسل کے لیے سبق: اس رات بوڑھے لوگ اپنے بچوں کو بتاتے ہیں کہ کس طرح آوازوں نے طاقت کے بت کو گرایا۔ یہ نعرے نئی نسل کو بتاتے ہیں کہ اتحاد سے کوئی طاقت ناقابلِ شکست نہیں۔

۴۔ آج کے دور میں نعروں کی تبدیلی اور تنازعات

- حکومتی تشہیر کا حصہ: موجودہ حکومت اس رات کو بڑے پیمانے پر جشن مناتی ہے، جس میں اسکول کے بچوں سے لے کر فوجی اہلکار تک "اللہ اکبر" کے نعرے لگواتے ہیں۔ اسے قومی یکجہتی کا مظہر قرار دیا جاتا ہے۔

۵۔ سماجی زندگی پر گہرے اثرات

- خاندانی روایات: دیہاتوں میں بزرگ رات کو بچوں کو چھت پر لے جاتے ہیں اور کہانیاں سناتے ہیں کہ کس طرح انہوں نے شاہ کے ہوائی جہازوں کے شور میں بھی "اللہ اکبر" پکارا تھا۔

- ثقافتی شناخت: ایرانی ڈراموں اور دستاویزی فلموں میں اکثر ان نعروں کو دکھایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، فلم *جنگِ شہر* میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح یہ نعرے فوجیوں کے حوصلے توڑ دیتے تھے۔

- مذہبی تقریبات کا حصہ: بعض مساجد میں 22 بہمن کی رات کو خصوصی دعائیں منعقد کی جاتی ہیں، جہاں نعرے لگانے کے بعد اجتماعی دعا کی جاتی ہے۔

خلاصہ:

نعرے کیسے تاریخ بن گئے؟

"اللہ اکبر" کا نعرہ ابتدا میں ایک مذہبی علامت تھا، لیکن ایرانی عوام نے اسے اپنی آزادی کی جنگ کا نعرہ بنا لیا۔ آج یہ نعرہ نہ صرف ماضی کی کہانی سناتا ہے، بلکہ موجودہ نسلوں کو یہ بھی بتاتا ہے کہ کس طرح ایمان اور عزم کسی بھی طاقت کو شکست دے سکتے ہیں۔ ہر سال 22 بہمن کی رات یہ آوازیں ایران کی گلیوں میں گونجتی ہیں تو لگتا ہے جیسے تاریخ ایک بار پھر زندہ ہو گئی ہو۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha