۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
مولانا سید غافر رضوی

حوزه/ نبوت کی زبانی، امامت کی کہانی سننے میں جو لطف ہے وہ شیرینی کسی اور کی زبان میں میسر کہاں! پیغمبراکرمۖ کی زبان مبارک سے صادر ہوئے فقرے وحی الٰہی کے ترجمان ہیں اسی لئے آنحضرت کے متفق علیہ اقوال زریں کو تبرک کے طور پر پیش کررہے ہیں۔

تحریر: مولانا سید غافر رضوی فلک چھولسی،مدیر ساغر علم فاؤنڈیشن دہلی

حوزہ نیوز ایجنسی | نبوت کی زبانی، امامت کی کہانی سننے میں جو لطف ہے وہ شیرینی کسی اور کی زبان میں میسر کہاں! پیغمبراکرمۖ کی زبان مبارک سے صادر ہوئے فقرے وحی الٰہی کے ترجمان ہیں اسی لئے آنحضرت کے متفق علیہ اقوال زریں کو تبرک کے طور پر پیش کررہے ہیں:

١۔حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں: پہلاجملہ تو ہر نانااپنے نواسہ کے لئے کہہ سکتا ہے لیکن دوسرے جملہ میں جو لطافت ہے وہ صرف پیغمبراکرمۖ کی زبان مبارک سے ہی اچھا لگتا ہے کیونکہ امام حسین محافظِ دین پیغمبرۖ ہیں جب کہ ہر نواسہ اپنے نانا کے اہداف و مقاصد کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب نہیں ہوتا۔ حضوراکرمۖ کے دہن مبارک سے نکلا ہوا فقرہ بتا رہا ہے کہ حسین آنحضرت کے تمام اہداف و مقاصد کو عملی جامہ پہنانے والے ہیں۔

٢۔بے شک حسین چراغ ہدایت اور کشتیِ نجات ہے: اگر اس قول کو امام حسین کے اس قول سے ملایا جائے جو آپ نے مدینہ سے رخصت ہوتے وقت فرمایا تھا تو سب کچھ صاف نظر آئے گا اور سمجھ میں آجائے گا کہ حسین کس طرح چراغِ ہدایت اور کشتیِ نجات قرار پائے! آپ نے مدینہ سے نکلتے وقت فرمایا: میں فساد اور خونریزی کے لئے نہیں بلکہ اپنے ناناکی امت کی اصلاح کے لئے قیام کررہا ہوں اب اگر دونوں حدیثوں کو ملایا جائے تو یہی نتیجہ نکلے گا کہ ذات حسین ، امت محمدی اور بشریت کی خاطر سرچشمۂ ہدایت و نجات ہے۔

٣۔ میرے نواسے حسن و حسین علیہماالسلام جنت کے جوانوں کے سردار ہیں: حسنین علیہماالسلام کی سرداری صرف دنیا تک محدود نہیں بلکہ جنت بھی انہی کی جاگیر ہے اور وہ تمام اہل جنت کے سردار ہیں، جس طرح ان کی حکومت اِس دنیا پر ہے اسی طرح اُس دنیا پر بھی ہے۔

٤۔ تمام روئے زمین پر سب سے زیادہ پاکیزہ سرزمین، زمین کربلا ہے؛ در حقیقت کربلا جنت کا ایک ٹکڑا ہے: ذات حسین وہ ہے کہ جس جگہ پر اس کے قدم پڑجائیں وہ معلی بن جائے اور جس مہینہ میں ولادت ہو وہ معظم ہوجائے،جس زمین میں آپ دفن ہوئے اس کو جنت کا ٹکڑا قرار دیا گیا۔

٥۔ حسین کے گنبد کے نیچے دعا مستجاب ہوتی ہے، اس کی قبر کی مٹی میں شفا ہے اور اس کے بیٹے معصوم امام ہیں: یہ فضائل جو حضوراکرمۖنے امام حسین کی شان میں بیان کئے ہیں کسی اور معصوم کے لئے نہیں ملتے، یہ بھی صرف امام حسین کی ہی خاصیت ہے کہ خود تو آپ کا جنازہ بے کفن پڑا رہا مگر آج دنیا بھر کے مومنین کربلا کے کفن کی آرزو کرتے ہیں اور انہیں کربلا کا کفن نصیب ہوتا ہے۔

٦۔ حسن و حسین علیہماالسلام میرے دو بیٹے ہیں، جو ان کو دوست رکھے گا وہ میرا دوست ہے اورجو میرا دوست ہے وہی خدا کا دوست ہے اور جو خدا کا دوست ہے وہ جنت میں جائے گا؛ جو ان سے دشمنی کرے گا وہ میرا دشمن ہے اور میرا دشمن خدا کا دشمن ہے اور دشمن خدا کوجہنم میں جھونکا جائے گا: حضورۖ نے سلسلہ قائم کرتے ہوئے یہ سمجھانا چاہا ہے کہ حسین کی دوستی یا دشمنی صرف حسین تک محدود نہیں رہتی بلکہ خدا تک پہنچتی ہے۔

٧۔ جو میرا دوست ہے اسے حسن وحسین علیہماالسلام سے بھی دوستی رکھنی چاہئے کیونکہ ان دونوں کی محبت کا حکم خدا کی جانب سے آیا ہے اسی لئے میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں: خدا کا حکم ماننا ہر مسلمان کا فرض ہے جو خدا کا حکم نہ مانے وہ دائرہ ٔاسلام سے خارج ہے۔ حضوراکرمۖ کے قول مبارک کی رو سے ، حسین کی محبت حکم الٰہی ہے لہٰذاحکم الٰہی کو عملی جامہ پہنانا ہمارا فریضہ ہے۔

٨۔ جو شخص حسن و حسین اور ان کے والدین سے محبت رکھے گا وہ بروز قیامت میرے درجہ میں ہوگا: حضوراکرمۖ کی زبان، وحی کی ترجمان ہے جس میں ذرہ برابر شک کی گنجائش نہیں لہٰذا جو آپۖ نے فرمایا ہے وہ ہوکر ہی رہے گا لہٰذا ہمیں یہ سوچنا ہے کہ ہمیں کہاں رہنا ہے؟ کس کے ساتھ رہنا ہے!۔

٩۔ اے لوگو! یہ حسین ہے اس کو پہچان لو، قسم خدا کی یہ خود بھی جنت میں جائے گا ، اس کا دوست بھی جنت میں جائے گا اور اس کے دوست کا دوست بھی جنت میں جائے گا: ظاہر سی بات ہے جنت انہی کی جاگیر ہے، جسے چاہیں جنت میں لے جائیں لیکن ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا کہ وہ تو ہمیں جنت میں لے جائیں گے لیکن کیا ہم میں اتنی صلاحیت ہے کہ ہم جنت میں چلے جائیں! کیا ہمارے اعمال اجازت دیتے ہیں!۔

١٠۔ جو حسین سے خالص محبت کرے (بغیرکسی لالچ کے)تو آتش جہنم کے شعلے اسے جلا نہیں پائیں گے: کیا ہم واقعی امام حسین سے محبت کرتے ہیں؟ کیا ہمارے دلوں میں امام حسین کی محبت خالصانہ ہے؟ اگر ان کی محبت خالصانہ ہے تو پھر مجلس و ماتم میں ریاکاری اور خودنمائی کا کیا مطلب ہے؟ اگر ہمیں امام حسین سے واقعی محبت ہے تو پھر امامباڑوں اور انجمنوں کے ذریعہ گروہوں میں تقسیم کیوں؟

لمحہ فکریہ ہے!۔ کیا امام حسین ہمیں ایسا ہی دیکھنا چاہتے ہیں جیسے ہم اس وقت ہیں؟ ہرگز نہیں... امام حسین نے تو دشمن کے ساتھ بھی اتحاد کا ثبوت دیا! جو حسین اپنے دشمنوں کے درمیان بھی اختلاف نہ دیکھنا چاہے اسے یہ کیسے برداشت ہوگا کہ اس کے چاہنے والے خود اسی کے نام پر انجمنوں اور امامبارگاہوں میں تقسیم ہوجائیں کہ یہ فلاں کی انجمن ہے، اس سے ہمارا کیا مطلب اس میں تو ہم نوحہ نہیں پڑھیں گے، اس میں تو ہم ماتم نہیں کریں گے!۔ وہ تو فلاں کا امامبارگاہ ہے وہ اپنی مجلس خود کریں ہم تو اپنے امامباڑے میں جائیں گے!۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم نے جو انجمن بنائی، ہم نے جو امامبارگاہ بنایا، وہ سب امام حسین کے نام پر تھے لیکن یہ انانیت کہاں سے آگئی؟ یاد رہے کہ جس دل میں انانیت گھر کرلے وہاں سے حسینیت کوچ کرجاتی ہے۔ یہ ایسا پرآشوب دور آگیا ہے کہ نام تو انجمن حسینی ہے لیکن وہ انجمن امام حسین کی نہیں بلکہ ہماری یا تمہاری انجمن ہے۔

امامباڑہ کا نام تو امام حسین کے نام پر ہی رکھا ہے لیکن وہ امامباڑہ فلاں صاحب کا ہے! اب خود سوچئے کہ ان باتوں میں کون سے پہلو سے اخلاص کی بو آرہی ہے؟ مکمل طریقہ سے سب کچھ اپنی ذات سے مخصوص کرلیا ہے!۔ اب نہ تو مجلس امام حسین کی رہی نہ کوئی انجمن امام حسین کی رہی اور نہ کوئی امامبارگاہ امام حسین کا رہا، سب کچھ ہمارا ہوگیا۔

جب سب کچھ میرا اور تیرا ہوگیا تو پھر'' انانیت کے کاندھوں پر اخلاص کے جنازہ کا نظارہ کرتے رہئے...'' ایسے عمل کی کوئی جزا ملنے والی نہیں ہے۔ اگر کسی عمل کی جزا چاہئے تو اس میں اخلاص پیدا کرنا ہوگا۔ پروردگار عالم سے دست بہ دعا ہوں کہ معبود! ہمارے ہر عمل کو زیادہ سے زیادہ زیورِاخلاص سے مزین فرما تاکہ ہم اپنے اعمال کے ذریعہ بہترین جزا کے مستحق قرار پائیں۔ ''آمین'' ۔ ''والسلام علی من اتبع الہدی''

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .