تحریر و تحقیق: توقیر کھرل
5محرم الحرام 61ہجری بروز اتوار کوفہ میں امام حسین کی نصرت سے روکنے کے لئے ابن زیاد کی فوج کی ناکہ بندی کا دن ہے ۔
کربلا میں عمر بن سعد کے آنے بعد فوجوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ اس دن تک لشکر کی تعداد چھ ہزار سے زائد ہو گئی تھی۔
ابن زیاد کی طرف سے مزید فوج کربلا بھیجی جا رہی تھی شبث ابن ربعی کو چار ہزار، عروہ ابن قیس کو چار ہزار، سنان ابن انس کو دس ہزار، محمد ابن اشعث کو ایک ہزار, عبداللہ ابن حصین کو ایک ہزار کا لشکر دے کر روانہ کیا گیا۔
عراق کے شہر کوفہ میں سپاہِ کوفہ کو تیار کرکے کربلا کی طرف روانہ کیا جارہا ہے ابن زیاد نے ایک آدمی شبث بن ربعی کو بُلا لانے کے لئے بھیجا تاکہ وہ دار الامارہ میں حاضری دے مگر اس نے بیماری کا بہانہ بنایا ہوا تھا اور وہ چاہتا تھا کہ ابن زیاد سے کربلا جانے سے معاف کردے ۔
کیونکہ یہ شخص اُن لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے امام حُسین علیہ السلام کو کوفہ سے خطوط لکھے تھے مگر ابن زیاد نے اسے کہلا بھیجا کہیں ان لوگوں میں سے تو نہیں ہو جن کے متعلق قرآن کہتا ہے کہ:
( سورة بقرہ آیت 14)مومنوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لاچکے ہیں اور جس وقت اپنے شیطانوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تو تمہارے ساتھ ہیں اور مومنوں کے ساتھ مذاق کرتے ہیں ۔
ساتھ ہی اس نے یہ کہلا بھیجا کہ اگر تم ہمارے فرمانبردار ہو اور ہماری اطاعت کرتے ہو تو تمہیں ہمارے پاس آنا پڑے گا،
شبث یہ حکم سُن کر رات کے وقت ابن زیاد کے پاس آیا تاکہ اس کے چہرے کو بخوبی نہ پہنچا جاسکے اس کے دربار میں آتے ہی ابن زیاد نے اس کی خوب آئو بھگت کی اور اسے اپنے قریب بٹھا کر کہا تمہیں ہر حالت میں کربلا جانا پڑے گا۔
جسے شبث نے قبول کرلیا اور ابن زیاد نے اسے ایک ہزار کا لشکر دے کر کربلا بھیجا۔
یاد رہے کہ
( وسیلة الدارین کے مطابق) یہ شبث بن ربعی وہ شخص ہے جس نے پیغمبر اسلام کا زمانہ دیکھا ہے اور حضور کے مقابلے میں نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والی عورت سجاح بن حارث بن سوید تمیمی کا موذن رہا ہے پھر اسلام کی جانب لوٹ آیا اور جنگ صفین میں حضرت علی سے کٹ کر خوارج کے ساتھ جاملا۔
ایک عرصہ بعد توبہ کی اور آخر کار قاتلین امام حُسین میں شامل ہوکر ابدی لعنت کا مستحق ہوگیا۔
مورخ مدائینی کے بقول شبث بن ربعی کوفہ میں افواج شام کا متولی تھا اور عجلی کے بقول شبث ان لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے حضرت علی کے قتل کے لئے ابن ملجم کی مدد بھی کی تھی ۔
امام حسین علیہ السلام نے عاشورا کے روز شبث سے خطاب کر کے فرمایا۔
اے شبث بن ربعی، اے حجار بن ابجر، اے قیس بن اشعث اور اے یزید بن حارث کیا تم لوگوں نے مجھے خط لکھ کر نہیں بلایا تھا؟
اور لکھا تھا کہ ہمارے درختوں کے میوے تیار ہیں، ہمارے باغ سبز ہیں اور ہم نے آپ کی مدد کرنے کیلئے لشکر آمادہ کر رکھا ہے۔
اس وقت قیس بن اشعث نے کہا:
ہمیں نہیں معلوم آپ کیا کہہ رہے ہیں لیکن یزید اور ابن زیاد کے حکم کو قبول کرلیں جس پر حضرت نے فرمایا واللہ کبھی بھی تمہاری پستی کی طرف نہیں جھکوں گا اور تمہیں معاف بھی نہیں کروں گا۔
(تاریخ کوفہ ص 46،حوادث الایام ص 19)
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔