تحریر: عون نقوی
حوزہ نیوز ایجنسیl کربلا میں جہاں پر عظیم الشان کردار موجود ہیں دوسری جانب پست فطرت کردار بھی موجود ہیں جنکی شخصیت کو سمجھنا اس لیے ضروری ہے کہ ہم آج کے زمانے میں ان شخصیات کے مالک افراد کو پہچان سکیں اور ان سے اپنی راہ جدا کریں، رہبر معظم فرماتے ہیں کہ کربلا ایک درسگاہ ہونے کے ساتھ ساتھ عبرت گاہ بھی ہے. انسان ان عبرتوں سے درس لے اور خود کو ان شخصیات کے ساتھ مقائسہ کرے، کربلا کے انہیں منفی کرداروں میں سے ایک کردار شبث بن ربعی کا ہے، یاد رہے شبث ایک شخص نہیں بلکہ ایک کردار و ایک شخصیت کا نام ہے جو ہر دور میں پائی جاتی ہے.
اس کا پورا نام ابو عبدالقدوس شبث بن ربعی مذحجی ہے، اس نے زندگی کے ابتدائی ایام دوران جاہلیت میں گزارے اور بعد میں مسلمان ہوگیا، کربلا میں عمر بن سعد کی فوج میں تھا اور امام حسین علیہ السلام کے خلاف لڑا. رحلت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد مرتد ہوا اور سجاح نامی جھوٹے نبی کا پیرو بنا، اسکا ایک عرصے تک ساتھ دیا، جھوٹے نبی کا مؤذن بنا رہا لیکن بعد میں توبہ کرکے دوبارہ مسلمانوں کی صفوں میں شامل ہوگیا.
اس شخص کا کردار اس لیے بھی بہت اہم ہے کہ اس نے ذاتی مفاد کی خاطر بار بار مختلف گروہوں سے اپنی وفاداری کی قسم کھائی، جہاں پر بھی اقتدار، منصب و پیسہ ملنے کے چانس ہوتے وہاں پہنچ جاتا، امیرالمومنین علیہ السلام کی ظاہری خلافت کے بعد امام علیہ السلام کے ناصران کے ساتھ پیوست ہوا. واقعہ جمل میں امام علی علیہ السلام سے مخالفت کی اور ابو موسیٰ اشعری کے کہنے پر کوفے والوں کو بھی امام علیہ السلام کا ساتھ دینے سے روکتا رہا.
شبث جنگ صفین میں پھر سے امام علی علیہ السلام کی صفوں میں شامل ہوگیا اور امام علیہ السلام کی جانب سے بنی حنظلہ کا فرماندار منتخب ہوا، جنگ صفین کے شروع ہونے سے پہلے امام علیہ السلام کی جانب سے ایک وفد معاویہ کی جانب بھیجا گیا جس کا کام معاویہ کو کتاب خدا کی طرف دعوت دینا تھا، شبث اس وفد کا رکن تھا، صفین میں عمرو بن عاص کے مکر و حیلے کے بعد جب اس نے قرآن کریم کو نیزوں پر اٹھایا تو شبث ان لوگوں میں سے ہوگیا جنہوں نے امام علیہ السلام پر زور ڈالا کہ فورا جنگ بند کی جائے اور فیصلہ حکمیت کے سپرد کردیا جائے.حکمیت کے بعد شبث اپنے چند کوفی ساتھیوں کے ہمراہ امام علی علیہ السلام کی فوج کو ترک کردیتا ہے اور خوارج میں شامل ہوجاتا ہے، خوارج نے شبث کو سربراہان میں سے قرار دیا، لیکن جلد ہی اس نے دوبارہ خوارج کو بھی ترک کیا اور امام علی علیہ السلام کی فوج میں واپس آگیا، جنگ نہروان یعنی خوارج کے خلاف جنگ میں امام علی علیہ السلام نے اسے لشکر کوفہ کے میسرہ کی فرماندہی عطا کی.
اس نے کبھی بھی امام علیہ السلام کا ساتھ اس بنا پر نہیں دیا تھا کہ اسے امام کی معرفت ہو گئ تھی یا یہ امام علی علیہ السلام کو امام حق منصوص من اللہ جانتا ہو، اس لیے شہادت امیرالمومنین علیہ السلام کے فورا بعد یہ شخص امیر شام سے منسلک ہوجاتا ہے اور اسکے سخت حامیوں میں سے قرار پاتا ہے، لیکن جیسا کہ اسکی طبیعت اور شیطانی فطرت تھی اس نے امیر شام کی وفات کے بعد کوفہ کی شیعی جماعتوں کے ساتھ تحرکات میں حصہ لینا شروع کر دیا. یہ اس تحریک میں پیش پیش تھا جس میں کوفہ کے شیعوں نے امام حسین علیہ السلام کو کوفہ دعوت دینے کے لیے خطوط لکھے، اس نے نہ صرف امام حسین علیہ السلام کو خط لکھا بلکہ ان کو دعوت دی اور اطاعت کی قسم کھائی، امام حسین علیہ السلام کو خط لکھتا ہے جس میں کہتا ہے: " باغ ہرے بھرے ہوگئے ہیں، میوہ تیار ہو چکا ہے، نہروں کا پانی بھر چکا ہے لہذا اگر آپ اس بات کی طرف مائل ہوں کہ اس فوج کے ساتھ پیوست ہو جائیں جو آپ کے لیے آمادہ ہوچکی ہے تو جلدی کریں".
کوفہ میں جب تک مسلم بن عقیل علیہ السلام کے تحرکات جاری تھے یہ شخص شیعوں کے درمیان اور بہت متحرک تھا لیکن جیسے ہی ابن زیاد کوفہ میں داخل ہوتا ہے یہ شخص ابن زیاد کے ساتھ پیوست ہوجاتا ہے اور اسکے کہنے پر کوفہ کے اشراف کے ساتھ مل کر مسلم بن عقیل علیہ السلام کے ساتھیوں کو منتشر کرنے اور انکو ڈرانے دھمکانے میں کردار ادا کرتا ہے. مسلم ابن عقیل علیہ السلام کی شہادت کے بعد جب کوفہ میں خبریں پہنچتی ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کربلا کی طرف تشریف لے گئے ہیں تو ابن زیاد نے کوفہ سے فوجیں نکالنا شروع کیں، شبث اس خوف سے کہ کہیں مجھے بھی امام علیہ السلام کے خلاف لڑنا نا پڑجاۓ بیماری کا بہانہ کرکے گوشہ نشین ہوجاتا ہے، ابن زیاد کو اس کے مکر کا پتہ چل جاتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ خود کو مریض مت ظاہر کرو اگر ہمارے وفادار ہو تو جلد عمر سعد کے ساتھ ملحق ہو جاؤ، شبث بھی ابن زیاد کے کہنے پر مجبور ہو کر ایک ہزار پیادہ نظام کا لشکر لے کر کربلا کی طرف روانہ ہوجاتا ہے اور ابن سعد کے ساتھ ملحق ہوتا ہے.
شبث کربلا میں ابن سعد کی جانب سے یزیدی فوج کے پیادہ سواروں کا فرماندہ مقرر ہوتا ہے، چونکہ شبث ان افراد میں سے تھا جنہوں نے کوفہ سے امام علیہ السلام کو خط لکھ کر دعوت دی تھی اور اپنی وفاداری کا اظہار کیا تھا اس لیے امام علیہ السلام کے سامنے آنے سے کترا رہا تھا، صبح عاشور ابن سعد نے حملے کا حکم دیا عزرہ بن قیس یزیدی لشکر کی جانب سے چند گھڑ سوار لے آگے بڑھا لیکن لشکر امام علیہ السلام کی جانب سے اس حملے کا شدید جواب دیا گیا مجبور ہو کر بن قیس نے ابن سعد سے مدد طلب کی، بن سعد نے شبث کو بھیجنا چاہا لیکن شبث نے جانے سے امتناع کیا. حتی اس نے ابن سعد کے بعض قبیح اور گھٹیا کاموں کی غیر علنی صورت میں مخالفت کی، مثلا مسلم بن عوسجہ کے مارے جانے اور خیام حسینی کے جلاۓ جانے کی شمر کی دھمکی کی مخالفت کی. بعض روایات کے مطابق عصر عاشور امام حسین علیہ السلام نے اپنے خطبے میں اشراف کوفہ کے خطوط کا ذکر کیا جن میں سے ایک خط شبث بن ربعی کا تھا، شبث نے جب اپنی رسوائی ہوتے دیکھی تو اس خط کا ہی منکر ہوگیا.
یزید کے جہنم واصل ہونے کے بعد اس نے اپنی وفاداری خاندان بنو امیہ سے توڑ کر عبداللہ بن زبیر سے جوڑ لی، عبداللہ بن زبیر کے گماشتے عبداللہ بن مطیع سے کوفہ میں بیعت کی. مختار ثقفی کے قیام کے بعد ابن مطیع کی حکومت کو بچانے کیلئے اس نے مختار کے خلاف جنگ لڑی لیکن شکست کھائی، مجبور ہو کر قصر کوفہ میں چھپ گیا. قیام مختار کی کامیابی کے بعد اور مختار کے انتقام کے ڈر سے شبث اور اس طرح کے بقیہ فراری بغاوت کی سازشیں کررہے تھے، لیکن انکی کوئی بھی بغاوت و لڑائی کارگزار ثابت نہ ہوئی مجبور ہو کر بصرہ کی طرف فرار کیا اور مصعب بن زبیر سے بصرہ میں ملحق ہوا.
شبث نے آل زبیر کا ساتھ دیا یہاں تک کہ کوفہ میں قیام مختار کو زبیریوں کے ہاتھوں ناکامی حاصل ہوئی. آل زبیر کے ساتھ وفاداری بھی زیادہ دیر تک نہ ٹک سکی آخر میں آل مروان یعنی بنو امیہ کی دوسری لڑی کے ساتھ پیوست ہوا. شبث بن ربعی عبدالملک بن مروان کے ساتھ ملحق ہوا، بعض تاریخی منابع کے مطابق یہ شخص 70 ھجری میں مرا.
(تحریر میں کسی قسم کی تبدیلی کی اجازت نہیں)
➖➖➖➖➖➖➖➖
منابع:
١. ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، ج٦، ص٢٤١.
٢. طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، ج١١، ص٦٦٥.
٣. زرکلی، خیرالدین، الإعلام، ج٣، ص١٥٤.
٤. مسکویہ، ابو علی، تجارب الأمم، ج٢، ص١٦٨.
٥. مسعودی، علی ابن الحسین، التنبیہ والإشراف، ص٢٤٨.
٦. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الإشراف، ج١٢، ص١٦٢.
٧. ابن اثیر، علی بن ابی الکرم، الکامل فی التاریخ، ج٢، ص٢١١.
٨. خلیفہ بن خیاط، تاریخ خلیفہ بن خیاط، ص١١.
٩. دینوری، ابو حنیفہ احمد بن داوود، الأخبار الطوال، ص١٧٣.
١٠. الطوال، تحقیق عبدالمنعم، ص٢١٠.
١١. شیخ مفید، محمد بن نعمان، الإرشاد، ج٢، ص٥٢.
بشکریہ:البِرّ اسلامی فڪـرى مرڪـز
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔