۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۴ شوال ۱۴۴۵ | Apr 23, 2024
News ID: 362181
22 اگست 2020 - 14:35
تقویم حوزہ: ۲ محرم الحرام ۱۴۴۲

حوزہ/تقویم حوزہ: ۲ محرم الحرام ۱۴۴۲،کربلا میں امام علیہ السلام کا داخلہ۔

حوزہ نیوز ایجنسیl
تقویم حوزہ:
 آج:عیسوی: Saturday - 22 August 2020
قمری: السبت،2 محرم 1442

 آج کا دن منسوب ہے:
پبغمبر  اسلام حضرت محمد مصطفی صلی الله علیه و آلہ وسلّم

 آج کے اذکار:
- یا رَبَّ الْعالَمین (100 مرتبه)
- یا حی یا قیوم (1000 مرتبه)
- يا غني (1060 مرتبه)  غنی ہونے کے لیے

 اہم واقعات:
کربلا میں امام حسین(ع) اور اہل حرم کا ورود
اتمام حجت کیلئے  امام حسین(ع) نے اہل کوفہ کے نام قیس ابن مسھر کے ذریعہ سے ایک خط ارسال فرمایا

 رونما تاریخ:
8 دن عاشورہء حسینی میں
22دن امام سجاد علیہ السلام کی شہادت میں
32  دن شهادت حضرت رقیہ خاتون سلام الله علیها میں
47 دن اربعین حسینی میں
55 دن شهادت حضرت رسول اور امام حسن علیهما السلام میں

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
کربلا میں امام علیہ السلام کا داخلہ :- 
امام علیہ السلام کوفہ کی جانب سفر کررہے تھے مگر تقریباً 20 روز کے مسلسل سفر کے بعد جب کوفہ کے قریب پہنچے تو ابن زیاد کے لشکر کے ایک سالار حر ابن یزید ریاحی نے آپ (ع) کو کوفہ میں داخل نہ ہونے دیا۔ امام علیہ السلام نے حر کے ساتھ طویل مذاکرات کیے اور آخر میں حر نے کہا:
اب جبکہ آپ کوفہ نہیں جائیں گے تو ایسے راستے کا انتخاب کریں جو نہ کوفہ کی طرف جاتا ہو اور نہ مدینہ کی طرف تا کہ میں اپنے امیر (یزیدی گورنر عبیداللہ بن زیاد) کو خط لکھوں۔ امام علیہ السلام نے قادسیہ کی طرف رخ کیا اور اسی طرف چل دیئے۔ حر کا لشکر امام کے ساتھ ساتھ چلتا رہا تا آنکہ 2 محرم الحرام کو نینوا کے نزدیک یزیدی گورنر کا خط حر کو موصول ہوا جس میں اس (ابن زیاد) نے لکھا تھا:
''میرا خط ملتے ہی امام حسین علیہ السلام کو روک دو اور ان پر دباؤ بڑھاؤ اور انہیں ایک بے پناہ اور بے آب و گیاہ ریگستان میں اترنے پر مجبورکرو''۔
حر نے امام حسین علیہ السلام اور آپ کے اصحاب با وفا پر سختی کی تا کہ آپ (ع) اسی بے آب و گیاہ مقام پر پڑاؤ ڈالیں۔ امام علیہ السلام نے حر سے فرمایا:
وائے ہو تم پر ہمیں کسی گاؤں اور کسی آبادی والے علاقے میں اترنے دو
"۔ حر نے کہا: خدا کی قسم میں اس بات کی اجازت نہیں دے سکتا کیونکہ عبیداللہ بن زیاد نے اس قاصد کو میرے اوپرجاسوس قرار دیا ہے اور آپ کو یہیں اترنا پڑے گا"۔
"زہیر" جو امام علیہ السلام کی اصحاب و انصار میں سے تھے، نے عرض کیا:
"یا ابن رسول اللہ (ص)! ان لوگوں کے ساتھ لڑنا اس جماعت کی خلاف جنگ سے زیادہ آسان ہے جو اس کے بعد ان سے ملنے آ‏ئیں گے، آپ ہمیں ان کے ساتھ لڑنے کی اجازت عطا فرمائیں"۔ امام علیہ السلام نے فرمایا:
"میں جنگ آغاز کرنے والا نہیں ہونگا"۔
زہیر نے کہا: "یہاں سے نزدیک فرات کے کنارے ایک آبادی ہے جو قدرتی طور ایک مستحکم جگہ ہے ہم وہاں پڑاؤ ڈالیں گے۔ امام حسین (ع) نے اس جگہہ کا نام پوچھا تو زہیر نے کہا اس کا نام عقر ہے۔ امام (ع) نے فرمایا: "میں خدا کی پناہ مانگتاہوں "عقر!" سے۔ (الاخبار الطوال، ص۲۴۶).
اس کے بعد امام علیہ السلام نے اس لق و دق صحرا کا نام پوچھا۔
کسی نے کہا اس مقام کا نام ''غاضریہ'' ہے۔
آپ (ع) نے پھر پوچھا: اس زمین کا نام کیا ہے:
کسی نے کہا: اس کا دوسرا نام "نینوا" ہے
آپ نے پھر پوچھا کہ اس زمین کا کوئی اور نام بھی ہے ؟
بتایا گیا کہ اس کو کربلا بھی کہا جاتا ہے۔
امام علیہ السلام کربلا کا نام سن کر گریہ کرنے لگے اور فرمایا:
"اللہم انی اعوذ بک من الکرب و البلاء۔
یہ رنج و غم اور اندوہ و الم کا مقام ہے۔
یہیں اتر آؤ کیونکہ مجھے اپنی نانا رسول اللہ صلی اللہ نے فرمایا تھا کہ ہمارا خون اسی مقام پر بہایا جائے گا اور ہم یہیں دفن ہوجائیں گے
"۔امام علیہ السلام نے خیام کی تنصیب کا حکم دیا اور برلبِ فرات خیمے نصب کئے گئے۔ نصبِ خیام کے بعد ابھی آپ خیمے میں داخل نہ ہوئے تھے۔ کہ چند اشعار آپ کی زبان پر جاری ہوئے۔جنابِ زینب سلام اللہ نے جونہی اشعار کو سنا اس درجہ روئیں کہ بے ہوش ہوگئیں۔ امام نے رخسار پر پانی چھڑک کر ہوش دلایا- پھر آلِ محمد داخل خیمہ ہوئے۔ اس کے بعد بنی اسد سے ساٹھ ہزار درہم پر ١٦ (سولہ) مربع میل زمین خرید کر چند شرائط کے ساتھ انھیں کو ہبہ کر دی۔
ایک روایت میں ہے کہ جب امام علیہ السلام سے عرض کیا گیا کہ اس سرزمین کا نام "کربلا" ہے تو آپ (ع) نے اتر کر مٹھی بھر خاک اٹھائی اور اسے سونگھا تو روتے ہوئے فرمایا:
"ام سلمہ نے مجھے خبر دی ہے کہ ایک روز جبرئیل (ع) رسول اللہ (ص) کی خدمت میں حاضر تھے اور میں آپ (امام حسین (ع)) کو اٹھا کر آپ (ص) کی خدمت میں لے گئی۔ آپ (ص) نے آپ کو اپنی گود میں بٹھایا اور آپ کو لبھانے لگے۔ جبرئیل نے یہ دیکھ کر عرض کیا:
"آپ کی امت آپ کے اس فرزند کو قتل کردےگی۔ اور اس کے بعد جبرئیل (ع) نے کربلا کی مٹی رسول اللہ (ص) کو پیش کی۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بہت روئے۔ خدا کی قسم یہ وہی کربلا کی مٹی ہے۔
روایت ہے کہ جب علی علیہ السلام یزید کے باپ معاویہ بن ابی سفیان کے خلاف لڑنے کے لئے صفین کی طرف عزیمت فرما رہے تھے تو نینوا کے نواح میں پہنچے اور پوچھا: اس سرزمین کا کیا نام ہے؟ عرض ہؤا یا امیر المؤمنین! یہ کربلا ہے۔ اور امیرالمؤمنین علیہ السلام بہت روئے یہاں تک کہ زمین آپ کے اشکوں سے نم ہوئی۔
2محرم الحرام 61 ھ بروزجمعرات کو امام حسین علیہ السلام وارد کربلا ہو گئے۔ واعظ کاشفی اور علامہ اربلی کا بیان ہے کہ جیسے ہی امام حسین (ع) نے زمین کربلا پر قدم رکھا زمین کر بلا زرد ہو گئی اور ایک ایسا غبار اٹھا جس سے آپ کے چہرئہ مبارک پر پریشانی کے آثار نمایاں ہوگئے۔یہ دیکھ کر اصحاب ڈرگئے اور جنابِ اُم کلثوم رونے لگیں۔

صاحب مخزن البکا لکھتے ہیں کہ کربلا پر درود کے فوراََ بعد جنابِ ام کلثوم نے امام حسین (ع) سے عرض کی،بھائی جان یہ کیسی زمین ہے کہ اس جگہ ہمارادل دھل رہا ہے۔ امام حسین (ع) نے فرمایا بس یہ وہی مقام ہے جہاں بابا جان نے صفیں کے سفر میں خواب دیکھا تھا۔یعنی یہ وہ جگہ ہے جہاں ہمارا خون بہے گا۔
کتاب مائتین میں ہے کہ اسی دن ایک صحابی نے ایک بیری کے درخت سے مسواک کے لیے شاخ کاٹی تواس سے خون تازہ جاری ہو گیا۔
کربلا پہنچنے کے بعد آپ نے سب سے پہلے اتمام حجت کیلئے اہل کوفہ کے نام قیس ابن مسھر کے ذریعہ سے ایک خط ارسال فرمایا۔ جس میں آپ نے تحریر فرمایا کہ تمھاری دعوت پر میں کربلا تک آگیا ہوں ۔
قیس خط لیے جارہے تھے کہ راستے میں گرفتار کر لیے گئے۔اور انھیں ابن زیاد کے سامنے کوفہ لے جاکر پیش کر دیا گیا۔ ابن زیاد نے خط مانگا۔ قیس نے بروایتے چاک کرکے پھینک دیا اوربروایتے اس خط کو کھا لیا ابن زیاد نے انھیں بضرب تازیانہ شہید کر دیا۔ جب قیس کی شہادت کی خبر امام حسین علیہ السلام تک پہنچی تو آپ بہت روئے اور فرمایا:
“ اللهم اجعل لنا و لشیعتنا عندک منزلاً کریماً، و اجمع بیننا و بینهم فی مستقر من رحمتک اِنک علی شیء قدیر”
(اے اللہ! اپنے پاس ہمارے اور ہمارے شیعوں کا اعليٰ مقام قرار دے اور اپنی رحمت سے ہمیں اور انہیں ایک جگہ جمع فرما،بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے )۔ (تقویم شیعه)
علامہ ابن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ امام حسین (ع) کے کربلا پہنچنے کے بعد حرنے ابن زیاد کو آپ کے کربلا پہنچنے کی خبردی۔ اس نے امام حسین (ع) کو فوراََ ایک خط ارسال کیا جس میں لکھا کہ مجھے یزید نے حکم دیا ہے کہ میں آپ سے اس کے لیے بیعت لے لوں، یا آپ کو قتل کر دوں۔
امام حسین (ع) نے اس خط کا جواب نہ دیا۔ ''اَلقَاہُ مِن یَدِہ'' اور اسے زمین پر پھینک دیا۔ اس کے بعد آپ نے محمد بن حنفیہ کو اپنے کربلا پہنچنے کی ایک خط کے ذریعہ سے اطلاع دی اور تحریر فرمایا کہ میں نے زندگی سے ہاتھ دھولیا ہے اور عنقریب عروس موت سے ہم کنار ہو جاؤں گا۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .