۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
News ID: 362055
17 اگست 2020 - 13:36
مولانا زین العابدین

حوزه/ آج دنیا واقعۂ کربلا کے رنگ کو یہ کہہ کر پھیکا کرنا چاہتی ہے کہ کربلا کی جنگ دو بادشاہوں کی جنگ یا دو شہزادوں کی جنگ تھی جس میں ایک بادشاہ فاتح ہوا تو دوسرے نے شکست کھائی۔

تحریر: مولانا زین العابدین جونپوری نزیل قم ،ایران

حوزہ نیوز ایجنسی | یوں تو دنیائے تاریخ میں بہت سے واقعات گزرے ہیں جن سے تاریخ کے صفحات سیاہ کر دیئے گئے،جن میں ہزاروں واقعات ایک حادثہ کی طرح رونما ہوئے اور ختم ہو گئے جن کی مثال نقش برآب جیسی تھی، لیکن کچھ واقعات ایسے بھی ہیں جو آج بھی تاریخ کے صفحات میں نقش بر سنگ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔تاریخ کے خرابہ میں اگر نگاہ کی جائے تو ایسے بہت سے واقعات ملیں گے جس نے عالم انسانیت کے لئے عبرت آموز نشانیاں پیش کی ہیں لیکن وہیں بہت سے ایسے واقعات  بھی ملیں گے جن کی کوئی حیثیت و اوقات نہیں ہے اور مرور زمانہ کی نذر ہو گئے جن کا آج کوئی نام لیوا نہیں ہے۔اگر صفحات تاریخ پر نگاہ کی جائے تو بہت سی ایسی حکومیتں ملیں گی جنہوں نے مذہب کے نام پر سب کچھ لٹانا گوارا کیا اور ان کا مقصد رضائے الٰہی تھا لیکن بہت سی حکومتیں ایسی بھی ملیں گی جن کے یہاں مذہب ایک ڈھونگ تھا اور ان کے یہا ں فقط ہوا و ہوس ،خواہشات نفسانی،دولت وحکومت،قہر و غضب ،ظلم و بربریت کے علاوہ کچھ نہیں ملتا ہے،اور ایسی حکومتیں تاریخ کی ردی کی ٹوکری میں نظر آتی ہیں ۔کیونکہ یہ بات مسلم ہے کہ وہی واقعات تاریخ کے صفحات میں پا بر جا ثابت ہوئے جو حق و حقانیت کا پہلو رکھتے تھے اور ایسے ہی واقعات کی یاد آج بھی حرارت جسم کے ساتھ دلوں میں دھڑکنوں کی طرح بسی ہوئی ہے ۔واقعۂ کربلا بھی انہیں واقعات میں سے ایک نمایاں واقعہ ہے ایک تحریک ہے ،انقلاب ہے۔ جسکی بنیاد پاکیزہ اور مقصد بلند تھا جہاں رضایت الٰہی پر سب کچھ قربان اور سر تسلیم خم تھا۔لیکن ایسا پر آشوب ماحول جہاں انسانیت سسک رہی تھی،عالم بشریت گمراہی کے دلدل میں دھنسی جا رہی تھی،ظلم و ستم کا بازار گرم تھا،دہشت گردی و بربریت اپنے عروج پر تھی ،دل بے جان گوشت کے لوتھڑے کی طرح تڑپ رہا تھا اور سکون و اطمینان کوسوں دور ہی نہیں بلکہ معدوم ہو چکا تھا، اور کربلا وہ حد فاصل اور معیار حیات وموت،جہاں ظلم پر آہ،ہوا و ہوس پر قضا و قدر الٰہی،ظالم پر مظلوم،شمشیر پر خون،تشددوبربریت پر امن،برائی پر نیکی،باطل پر حق ،حیوانیت پر انسانیت اور موت پر زندگی کو فتح حاصل ہوئی کہ جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی ہے ۔واقعہ ٔ  کربلا ایک ایسا واقعہ ہے جس کی کوئی نظیر و مثل نہیں ملتی،جو تاریخ کے نصف النہار پر چمکتا ہوا وہ مہر تاباں ہے جس کی روشنی کبھی مدھم نہیں ہوسکتی ہے۔واقعہ ٔ  کربلا اپنی ابتدا سے لیکر آج تک عالم انسانیت کے لئے مشعل راہ بنا ہو اہے اور عالم بشریت کی ہدایت کر رہا ہے کیونکہ واقعۂ کربلا اور معرکۂ کربلا حق و باطل،حیوانیت و انسانیت کے درمیان ایک حد فاصل ہے جس نے باطل کے چہرے سے نقاب اسلام نوچ کر پھینک دیا اور صبح قیامت تک کے لئے انسانیت کو ایک معیار زندگی اور آئین و اصول حیات دے دیا کہ ''ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے۔''

کلیم کربلا حسین ابن علی علیھما السلام کا یہ فقط ایک جملہ نہیں تھا جو حباب بر آب کی طرح کربلا کے تپتے ہوئے صحرا میں دم توڑ دیتا ،نہیں !بلکہ یہ عالم بشریت کے لئے رہتی دنیا تک سر اٹھاکر جینے کا پیغام تھا،اوراسی دستور زندگی و آئین حیات کو اپنا کر اسلام کے چند جیالے ہزاروں درندوں کے مقابلے میں سینہ سپر ہو گئے،اور ایسا کیوں نہ ہوتا!اس لئے کہ وارث انبیاء حسین ابن علی علیھما السلام  نے مدینہ سے نکلتے ہوئے یہی تو کہا تھا کہ ''انی لم اخرج اشراً و لا بطراولا مفسداً ولا ظالما و انما خرجت لطب الاصلاح فی امة جدی''یعنی حسین ابن علی  علیھما السلام نے اپنا موقف و ہدف لوگوں کو بتا دیا،اور امت جد کی اصلاح میں بڑھنے والا یہ قدم جب عرب و حجاز کی وادیوں سے گزر رہا تھا تو راستے میں حسین ابن علی  علیھما السلام نے ایسے ایسے پھولوں کا انتخاب کیا کہ جب تک یہ پھول تر وتازہ رہے عالم انسانیت کو خدائی پیغام سنا تے رہے لیکن جب عصر عاشور کویہ پھول کربلا کے تپتے ہوئے ریگستان میں مر جھا گئے تو گلشن اسلام کو سر سبز و شاداب کر گئے اور اسلام و انسانیت کو حیات جاویداں عطا کر گئے ،اور ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے،کی صحیح وعملی تفسیر بن گئے۔

آج دنیا واقعۂ کربلا کے رنگ کو یہ کہہ کر پھیکا کرنا چاہتی ہے کہ کربلا کی جنگ دو بادشاہوں کی جنگ یا دو شہزادوں کی جنگ تھی جس میں ایک بادشاہ فاتح ہوا تو دوسرے نے شکست کھائی۔جب کہ ایسا نہیں ہے بلکہ یہ ایک مغالطہ ہے ایسا لگتا ہے کہ دنیاوالوں کی آنکھوں پرتعصب کے پردے پڑے ہوئے ہیں اور''صم بکم عمی فھم لا یرجعون'' کے مصداق ہوگئے ہیں۔آیا وارث انبیاء حسین بن علی علیھما السلام کا یہ جملہ جو انکار بیعت کے وقت زبان عصمت سے ادا ہوا تھا بھول گئے کہ''مثلی لا یبایع مثلہ''

 جب کتوں میں پلنے والا،شراب و کباب میں مست ،نجاست کا مجسمہ،ہوا و ہوس کا پجاری،شراب کے نشے میں مست وحی و شریعت الٰہی کا مذاق اڑانے والا فرزند ابلیس یزید ابن معاویہ نے، پروردۂ آغوش نبوت وعصمت ،سوار دوش رسول ﷺ دلبندعلی و بتول ،محافظ وحی و شریعت الٰہی، وارث انبیائ، فرزند رسول حسین ابن علی علیھما السلام  سے بیعت کا مطالبہ کیا۔یہ بیعت کا مطالبہ فقط حسین علیہ السلام سے نہیں تھا ۔بلکہ یزید تمام انبیاء گزشتہ کی شریعت سے ایک گھنونا کھیل کھیلنا چاہتا تھا کہ حسین ابن علی علیھما السلام  سے بیعت لے کروہ اپنی ساری کالی کرتوں پر پردہ ڈالنا چاہتا تھاحسین ابن علی  علیھما السلام  سے بیعت کا مطالبہ ہوا اب تمام انبیاء کرام کی نگاہیں حسین علیہ السلام کے جنبش لب پر تھیں کہ دیکھیں حسین علیہ السلام کیا جواب دیتے ہیں ۔کلیم کربلاحسین علیہ السلام نے بیعت سے انکار کر کے یزید کے چہرے سے نقاب اسلام نوچ کر پھینک دی ،ورنہ اگر حسین علیہ السلام بیعت کر لیتے تو تمام انبیاء گزشتہ کی محنتیں حباب بر آب ہو کر رہ جاتیں۔کلیم کربلا نے نہ صرف یہ کہ بیعت سے انکار کرکے تما م انبیاء ما سبق کے مقاصد کو بچا لیا بلکہ عالم بشریت کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا کہ کبھی بھی حق، باطل کے سامنے سرنگوں نہیں ہوسکتا۔کبھی بھی برائی، اچھائی پر حکمرانی نہیں کر سکتی۔کبھی بھی ظلم وستم، عطوفت و مہربانی پر فتح حاصل نہیں کر سکتا۔اور یہ حسین ابن علی علیھما السلام کے قول و قیام و درس کا اثر تھا کہ لبنا ن کے عزم شبیری رکھنے والے چند جیالوں نے کفر و باطل کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور انہیں حق کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔اور یہ ثابت کر دیا کہ قربانی حسین  رائیگاں نہیں ہوئی ہے۔یہ حسین علیہ السلام کے قیام کا اثر ہے کہ شیعیت اور انسانیت آج بھی بیدا رہے۔یہ صحیح ہے کہ حق کے پیروکار کم ہوتے ہیں اور باطل کے حوالی وموالی زیادہ ہوتے ہیں ۔لیکن یہ ہر دورمیں ہوتا رہا ہے ،کل کربلا کے میدان میں بھی جہاں ایک طرف حکومت تھی ،دولت تھی،سکوں کی جھنکار تھی،رے کی حکومت کی لالچ تھی ،عیش و عشرت تھی،ہوا و ہوس کی پاسبانی تھی ،پانی کی فراوانی تھی،اسبا ب تھے ،اسلحے تھے۔لیکن دوسری طرف نہ فوج تھی نہ اسلحے۔ نہ دولت تھی نہ حکومت ، بے سر و سامانی تھی ،جہاں لقاء اللہ او ر شہادت کا جذبۂ لامتناہی تھا،قضا و قدر الٰہی پر سر تسلیم خم تھے۔پیاس ،عطش ،تشنگی کی حکومت تھی۔لیکن حسین  کے ساتھی ایسے تھے جن کے بارے میں امام حسین علیہ السلام نے فخر سے کہا تھا’’انی لا اعلم اصحاباً او فیٰ ولا خیراً من اصحابی''جیسے ساتھی مجھے ملے کسی کونہیں ملےاور یہی چند افراد جب شمع امامت پر پروانہ وار قربان ہو گئے،تو معصوم امام نے آواز دی''بابی انتم و امی طبتم وطابت الارض التی فیھا دفنتم و فزتم فوزاً عظیمافیالیتنی کنت معکم فافواز معکم۔''والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .