۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
News ID: 362039
16 اگست 2020 - 14:50
مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزه/ انسان کے اندر دو ایسی چیزیں ہیں جو دکھتی نہیں لیکن انکے اثرات صدیوں پر اثر رکھتے ہیں: ایک عقل و شعور ہے دوسرے جذبات و خواہشات ہیں۔ 

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی 

حوزہ نیوز ایجنسی | انسان کے اندر دو ایسی چیزیں ہیں جو دکھتی نہیں لیکن انکے اثرات صدیوں پر اثر رکھتے ہیں: ایک عقل و شعور ہے دوسرے جذبات و خواہشات ہیں۔ 
عقل جسکی تعریف میں معصوم نے فرمایا:  " عقل! جسکے ذریعہ رحمن خدا کی عبادت کی جائے اور جنت حاصل کی جائے" (کافی ج 1 ص 11)
 یعنی ہر وہ بات جو انسان کو بندگی کے دائرے سے خارج کر دے اور اس کے ذریعہ انسان کا مقدر جہنم بن جائے وہ عقل نہیں ہے۔ بھلے ہی پوری کائنات میں اسے لوگ عقلمند کہیں لیکن امیرکائنات علیہ السلام نے اس کے لئے "نکرہ" کا لفظ استعمال کیا ہے یعنی وہ مکار ہے۔ 
قرآن ناطق حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے صاحب عقل کے صفات بیان کرتے ہوئے جناب داوود علیہ السلام کی نصیحت ذکر فرمایا:
 "على العاقل أن يكون عارفا بزمانه، مقبلا على شأنه، حافظا للسانه" (کافی ج 2 ص 116)
 یعنی عقلمند پر لازم ہے کہ زمانے کے حالات کو سمجھے، اپنے امور میں مشغول رہے اور اپنی زبان کی حفاظت کرے۔" مذکورہ قوانین عقل کی روشنی میں حالات زمانہ سے بے خبری، اپنے امور میں تساہلی یا زبان کی بے لگامی سے انسان عقلمند نہیں بلکہ احمق شمار ہو گا۔ 
قوانین عقلی کی مخالفت بھی دو حال سے خارج نہیں یا تو انسان واقعا عقل و خرد سے بے بہرہ ہے اور اس سے ہمیشہ غیر عقلی امور ہی سرزد ہوتے ہیں۔ یا یہ غلطی کبھی کبھی جذبات کے بہاو میں سرزد ہوتی ہے۔ 
ظاہر ہے کہ جذبات میں کوئی قانون نہیں ہوتا بلکہ جذبات کہتے ہی اسے ہیں جب کوئی بیرونی شے عقل و شعور کو جذب کر کے اسے اس کے کام سے روک دے۔ یعنی جذبات میں عقل کا دخل نہیں اور اس میں عقل کی جستجو خود جستجو کرنے والے کو زیر سوال لاتی ہے۔ 
 دین کے رہبر  و ہادی حضرت امیرالمومنین  علیہ السلام نے فرمایا: 
"التدبیر قبل العمل یومنک من الندم" (بحارالانوار، ج 68، ص 338.)
یعنی عمل سے پہلے غور و فکر انسان کو شرمندگی سے محفوظ رکھتی ہے۔ 
عقلاء کا اتفاق ہے کہ عقل و شعور سے کیا گیا کام مفید ہوتا ہے اور جذبات میں اٹھائے گئے  قدم سے شرمندگی انسان کا مقدر بنتی ہے۔ لہذا کبھی عقلمند کے ہوش پر جوش کا نہ غلبہ ہوتا ہے اور نہ ہی وہ کبھی جذبات کے بہاؤ میں بہتا ہے۔ 
کربلا میں ایک جانب عقل و شعور کی روشنی تھی تو دوسری جانب جذبات کا اندھیرا۔ 
عقل کہہ رہی تھی کہ امام حسین علیہ السلام کا انکار بندگی پروردگار ہے، اصحاب حسینی کی حمایت عبادت اور حصول جنت ہے۔ انھوں نے بندگی کو اپنی تمام خواہشات پر مقدم کیا۔ انکے پیش نظر صرف معبود کی رضا ہے۔ اب چاہے سر و تن میں جدائی ہو جائے، چاہے ماں  باپ کے سامنے بیٹا خاک و خون میں ایڑیاں رگڑے یا 17 دن کی دلہن بیوہ ہو جائے یا تین برس کی بچی کو یتیمی کا غم ہی کیوں نہ سہنا پڑے۔وہ اپنے مقصد حیات کو پہچان گئے تھے اس لئے دنیا کے غم سے نہ وہ خوف زدہ ہوئے اور نہ ہی انکے ورثہ انکے اس اقدام سے کبھی شرمندہ ہوئے۔ 
دوسری جانب جذبات کی تاریکی تھی۔ جو چند روزہ دنیوی حکومت کے لئے اللہ کے برحق نمایندے سے بیعت کی طلبگار تھی۔ کسی کو ری کی حکومت کی خواہش مارے ڈال رہی تھی کہ کسی صورت حکومت ری نصیب ہو جائے چاہے شبیہ رسول کا سینہ زخمی کرنا پڑے یا چھ ماہ کے معصوم کو شہید کرنا پڑے۔ خواہشات دنیا ان کی سماعت و بصارت پر اتنا غالب تھی کہ انکو معصوم بچوں کی صدائے "العطش" نہ سنائی دیتی اور نہ چھ ماہ کے معصوم کے خشک ہونٹ دکھائی دئیے۔ لیکن ہاں جس نے اپنے کو جذبات اور خواہشات سے آزاد کیا تو یہی صدائے "العطش" نے اسے ایسا بے قرار کیا کہ صبح ہوتے ہی اسے دوجہاں کی آزادی اور سعادت نصیب ہوئی اور اس آزاد مرد نے بتا دیا کہ عقل و شعور ہی میں آزادی ہے چاہے قتل ہونا پڑے اور نفسانی خواہشات و جذبات ہی اصل غلامی ہیں چاہے انسان دوسرے کو قتل ہی کیوں نہ کر دے۔ 
یہ نکتہ بھی یاد رہے کہ جنھوں نے کربلا میں راہ عقل و شعور اپنایا  اور اپنے کو خواہشات و جذبات سے آزاد رکھا وہ کل بھی آزاد اور کامیاب تھے اور آج بھی آزاد و کامیاب ہیں بلکہ ہر آزاد و کامیاب کے پیشوا اور رہنما ہیں اور آج تک کے ہر تحریک آزادی کے رہنماووں کی رہنمائی کی اور رہتی دنیا تک رہنمائی کرتے رہیں گے۔ 
اسی کے برخلاف دوسری جانب خواہشات و جذبات کے غلام کل بھی غلام تھے اور آج بھی غلام ہیں اور رہتی دنیا تک غلام ہی رہیں گے اور ہمیشہ شرمندگی انکا مقدر ہو گی۔ 
اے راہ شہداء کے راہیو! اے مظلوم کربلا کے سوگوارو! 
شہدائے کربلا کی یاد، ان کا ذکر اور غم مذہب کے ان اصولوں میں سے ہے جنہیں کسی بھی صورت چھوڑنا ممکن نہیں۔ 
جس طرح نماز ہر حال میں واجب ہے چاہے جماعت ہو یا نہ ہو۔ اگر انسان کھڑا نہیں ہو سکتا تو بیٹھ کر اللہ کی عبادت کرے اگر بیٹھنا بھی ممکن نہ ہو تو لیٹ کر اپنے فریضہ کو ادا کرے اسی طرح "غم حسین علیہ السلام" بھی لازم ہے، حالات چاہے جیسے ہوں۔ 
ہاں یہ بھی خیال رہے کہ مسافر کی قصر نماز ہی قبول ہے، اگر حالت سفر میں پوری پڑھی تو قبول نہیں، یا جس کے پانی نا ممکن یا نقصان دہ ہو شریعت نے اسے تیمم کا حکم دیا ہے اور اس کا تیمم ہی قبول ہے۔  اسی طرح ہم ہر مسئلہ میں محتاج شریعت ہیں۔ اور یہی تقاضائے عقل و شعور ہے اور دین ہمیں اسی کی دعوت دیتا ہے۔ لہذا خواہشات و جذبات اسیری ہے، علاقائی اور خاندانی رسم و رواج غلامی ہے۔ رئیس الاحرار کی یاد اور تذکرے کے لئے آزادی یعنی عقل و شعور اور پابندی دین لازم ہے۔
وہی عقیدت اور رسم و رواج قابل قبول ہیں جو دین کے حدود میں ہو۔ لیکن جہاں یہ دین کے مقابلہ میں آجائے حرام و ناجائز ہے۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .