حوزہ نیوز ایجنسی | رسول اللہ ﷺ کے سامنےچودہ آدمیوں کا وفد دوبارہ آیا ۔نبی اکرم ﷺنے فرمایا: اسلام قبول کرو۔
اُنھوںنے کہا:اسلام بعد میں قبول کریں گے، پہلے ہمیں یہ سمجھائیے کہ آپ جنابِ عیسیٰ کو کیا سمجھتے ہیں ؟
نبی کریم ﷺخاموش رہے۔ قرآن کی ایک آیت اُتری جس میں یہ کہا گیاکہ جس طرح بغیر ماں باپ کے آدمؑ پیدا ہوئے اوروہ اللہ کے بندے ہیں۔
عیسائیوں نے بات نہیں مانی ، تو قرآن نے دوسری آیت میں کہا:
اگر یوں نہیں مانتے ہیں، تو نبیؐ! اِن کو دعوت دے دوکہ مباہلہ میں عورتوں، بچّوں اور نفسوں کو لےکر یہ بھی آجائیں اور تم بھی آجاؤ اور دونوں مل کر مباہلہ کریں۔ اب جس کا مذہب سچا ہوگا، وہ زندہ واپس آئے گااور جوجھوٹے مذہب والاہوگا، وہ عذاب اورسزا میں گرفتار ہو جائےگا ۔
پیغمبراکرم ﷺ نے مباہلہ کا دعوت نامہ دے دیا۔ پیغمبراکرم ﷺ مباہلہ کے میدان میں اکیلے کیوں نہ گئے؟ کیاکسی سچےمسلمان کو یہ شبہ ہو سکتاہے کہ نبی کریمﷺ اکیلے جاتے توکامیاب نہ ہوتے ؟یقیناً کامیاب ہوتے۔ کسی مسلمان کے منھ میں زبان نہیں ہے جو یہ کہہ سکے کہ آپ جاتے اوربددعا کرتے تو دشمن ہلاک نہ ہوتا۔ یقیناً کامیاب پلٹتے ۔ پھر کیا تھا کہ اکیلے نہیں جا رہے ہیں؟ اورسب کو ساتھ لے کر بھی نہیں جا رہے ہیں۔
نبی اکرمﷺ نے اُمّت والوں سے نہیںفرمایا: اے میرے مسلمانو! چلو مباہلہ کے میدان میں۔ بلکہ فرمایا: عیسائیو! تم بھی عورتوں اوربچّوں اورنفسوں کو لیکر آنا، مَیں بھی اُمّت لیکر نہیں آؤںگا، بلکہ اپنی عورتوں اور بچّوں اورنفسوں کو لیکر آؤں گا ۔
دو سوال غور کے قابل ہیں۔ نبی اکرم ﷺ اکیلے نہیں جاتے اورلے جاتے ہیں تو سب کو کیوں نہیں لے جاتے؟ یا اکیلے جاتے اور لے جاتے تو سبکو لے جاتے۔ مگر پیغمبراکرم ﷺ نے درمیانی راستہ اختیا رکیا۔اُمّت کو چھوڑا اور اہلبیتؑؑ کو ساتھ لیا اورمباہلہ کے میدان میں گئے اورکیسے گئے؟ گود میں حسین ؑ ہیں، اُنگلی پکڑے حسن ؑہیں، پیچھے فاطمہؐ ہیں اور فاطمہؐ کے پیچھے علیؑ ہیں۔
مناسب تو یہ تھاکہ امام حسنؑ جنابِ فاطمہ زہراؐ کی اُنگلی پکڑےہوتے اورحسینؑ ماں کی گود میں ہوتے۔ دنیا میں ہمیشہ بچّے ماں کی گود میں جاتے ہیں۔یہ کیوں نواسوں کو لے کر چلے؟
تو اس کا جواب یہ آئے گا: تم سمجھے نہیں، اگر حسین ؑماں کی گو د میں ہوتے، حسنؑ ماں کی اُنگلی پکڑے ہوئے ہوتے، تو دنیا کہتی کہ مباہلہ میں فاطمہؐ گئی تھیں اور ماں کے ساتھ بچّے سب جایا کرتے ہیں، اِس لئے حسن ؑ اورحسین ؑبھی ساتھ چلے گئے تھے۔ بچّے مباہلہ میں نہیں گئے تھے، بلکہ صرف ماں گئی تھیں ۔
حضورﷺ نے واضح کیاکہ ’جب مَیں لیکر آیاہوں تو بچّے ضمناً نہیں آئے ہیں ، بلکہ یہ وفد کے رُکن بنکر آرہے ہیں‘۔
نبی اکرم ﷺ اُسی شان سے چلے جس شان سے آیت اُتری تھی۔ آیت میں ’ابناءنا ‘ کا ذکرپہلے تھا، حسنؑ اور حسینؑ کو آگے لے چلے؛ ’نساءنا‘ کا ذکر بعد میں تھا، فاطمہ زہرا ؐ کو بعد میں رکھا۔ ’انفسنا‘کا ذکر آخر میں تھا، علیؑ کو آخر میں رکھااوردنیا کو آواز دی کہ اِس کے بعد تفسیر نہیں پڑھنا۔ آیت کو اُترتے دیکھو، ہم کو چلتے دیکھو اورپہچانتے جاؤکہ ’ابناءنا‘ کون ہیں، ’نساءنا‘ کون ہیں اور ’انفسنا‘ کون ہیں؟
میدانِ مباہلہ میں جاکر اِس طرح بیٹھے کہ بیچ میں خود بیٹھے ، سامنے علیؑ کو بٹھایا، داہنے اور بائیں حسن ؑ اورحسین ؑکوبٹھایااور پیچھے فاطمہ زہراؐ کو بٹھایا۔
جب نبی اکرم ﷺاہلبیتؑ کوساتھ لے کر میدان میں آبیٹھے ، تو عیسائی قوم کو اطلاع ملی کہ مسلمانوں کے نبی آگئے۔ قوم کےجوشیلے نوجوان اپنے علماء اورسرداروں کے پاس پہنچے، جو مباہلہ طے کرکے آئے تھے، اُن سے کہا: تم ابھی بیٹھے ہو اور مسلمانوں کانبی مباہلہ کے میدان میں مقابلہ پر آگیا۔ چلو، ورنہ قوم کی عزت جاتی ہے ۔
جب قوم اپنے سردار علما ء سے کہہ رہی تھی کہ ــ’ چلو‘ تو اُن علماء اورسرداروں نے کہا: ذرا ٹھہرو! قوم بگڑنے لگی: جب مباہلہ تم نے طے کیاتھا، تب نہیں کہاتھا’ٹھہرو‘اوراب جب معاملہ قوم کی عزت کے بگڑنے کا آگیا، تب ہم سے کہتے ہو’ٹھہرو‘!!
سرداروں نے آواز دی: قوم والو! جوش سے کام نہ لو،ہوش سے کام لو ۔
کہا: یہ جوش اورہوش کی بات کیوں شروع کی ہے؟
کہا: ٹھہرو! ذرا ہم یہ دیکھ لیں کہ محمدؐ اپنے ساتھ کس کس کو لائے ہیں؟
یہیں پر مسئلہ کا حل ہے۔ عیسائیوں کو معلوم تھا کہ اسلام کو سچا ثابت کرنے کے لئے پیغمبرؐ آگئے، لیکن اُنھوںنے مباہلہ نہ کرنا طے کیا۔ طے نہیں کیا بلکہ طے کیا کہ ’دیکھونبیؐ کے ساتھ کون کون آیاہے؟‘
ایک ٹیلےپر چڑھے ۔ وہاں سے دیکھنا شروع کیا۔ نبیﷺ نظر آئے۔ کہا: یہ آگے کون بیٹھاہے؟ دوسرے نے بتایا: یہ وہی علیؑ ہیں جن سے ہم نےپوچھاتھاکہ نبیؐ نے ہمارا سلام کیوں نہیں قبول کیا؟ علماء نے کہا: یہ داہنے اوربائیں کو ن بیٹھاہے؟ کہا: یہ بچّے ہیں، اِنھیں علیؑ کے بچّے ہیں ۔ کہا: پیچھے کون ہے؟ کہا: یہ رسول ؐ کی بیٹی ہیں۔
اِدھر چود ہ علماء اور سردا رایک ٹیلے پر چڑھ کر نبی اکرم ﷺکے ساتھ والوں کو دیکھ رہے تھے کہ آپ کے ساتھ کون آیاہے، اُدھر ٹیلے کے نیچے قوم تڑپ رہی ہے ، عزت جارہی ہے، قوم کی ناک کٹ رہی ہے ۔یہ سردار علماء پہاڑ پرچڑھ گئے ہیں ، نیچے نہیں اُترتے، مباہلہ طے کیاتھاتب نہیں سوچا، اب مقابلہ کا وقت آیا تب صورتیں دیکھنے لگے۔ انتظار میں قوم بُرابھلا کہہ رہی ہے، سردار علماء دیکھ رہے ہیں کہ نبی ﷺکے ساتھ کون آیاہے؟
تھوڑی دیر بعد اُترے توقوم نے کہا: اب چلئے! کہا:مباہلہ طے کیوں کیاتھا؟ اب توبے عزتی ہوجائے گی ۔ سردار علماء نے عیسائیوں سے کہا: نبیﷺ کے ساتھ جو لوگ آئے ہیں ہم نے اُن کے چہرے دیکھے، اُن کے چہرے بتارہے ہیں کہ یہ ایسے ہیں کہ اگر نہ ہونے والی بات کہہ دیں تو وہ ہوکر رہے گی۔ حد یہ ہے کہ پہاڑ اپنی جگہ سے کھسکتانہیں ہے، لیکن اگر یہ کہہ دیں گےکہ ’پہاڑ چلے‘ تو پہاڑ چلنے لگیں گے۔ لہٰذا اِن سے مباہلہ کرو گے توہلاک ہو جاؤگے۔
جب یہ اپنی قوم سے کہہ رہے تھے کہ ’ایسے چہرے دیکھ رہے ہیں جو اتنے سچّے ہیں کہ نہ ہونے والی بات کہہ دیں تو ہوکر رہے گی‘ تو اِنھیں اتنایقین تھاکہ جب اتنے سچّے ہیں، تو پھر جس اسلا م کو یہ سچا مذہب کہہ رہے ہیں، مگر اس کے بعد بھی مسلمان نہیں ہوئے، بلکہ صلح کرکے جزیہ دے کر اپنے مذہب پر باقی رہے۔ جیسے اسلام کی سچائی عیسائیوں کی سمجھ میں آئی مگر اپنی خدائی باقی رکھنے کے لئے انھوںنے اسلام کی سچائی نہیں مانی، اسی طرح حق سمجھ میں آجاتاتھا مگر پھر لوگ اپنی خواہشات حکومت کے ماتحت آپؑکا حق نہیں مانتے تھے۔