۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
News ID: 361987
14 اگست 2020 - 11:37
مولانا آفاق عالم زیدی

حوزہ/ غدیر ایک ایسی زنجیر ہے کہ جس میں گیارہ کڑیاں ہیں یعنی گیارہ امام موجود ہیں،یعنی دوسوپچاس سال کا عرصہ پھر اس کے بعد امام زمانہ بھر اس کے بعد نواب خاص پھر اس کے بعد نواب عام مرجعیت ولایت فقیہ اسی غدیر سے طلوع ہوتی ہے۔

تحریر: مولانا سید آفاق عالم زیدی سرسوی، جنرل سیکرٹری پیام آفاق فاؤنڈیشن سرسی سادات

حوزہ نیوز ایجنسی | بعض لوگ  سوال کرتے ہیں  کہ کیوں غدیر کی عظمت وجلالت کو بیان کیا جائے ،نہ آج غدیر ہے، اور نہ امیر غدیر (یعنی نہ امیر المومنینؑ)چودہ سو سال پہلے پیغمبرؐنے  اک سر زمین پر ایک مطلب بیان کیاچند اصحاب نے سنا اور چند نے نہیں سنا ،رسول خداؐ کے بعد غدیر کو فراموش کردیا گیا،
آج مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں،تو کیا ضرورت ہے کہ روز غدیر جشن منایا جائے ،یا عید منائی جائے ،یا چند روز کو دہ ولایت کا عنوان دیا جائے ،کیوں یہ بحث بہت سی کتابوں میں بیا ن کی جاتی ہے،
اس پر دو شبہ کیئے جاتے ہیں ،
(1)غدیر کو جلا بخشنے کی کیا ضرورت ہے۔
(2)اس بحث سے ہوسکتا ہے کہ فتنہ ایجاد ہو۔
لاکھوں کروڑوں مسلمان پیروی مکتب غدیر نہیں ہیں،پیروی مکتب امام نہیں ہیں،بلکہ پیروی مکتب سقیفہ  اور مکتب خلافت ہیں،دومکتب یا مدرسہ رسولخداؐ کے بعد تشکیل پائے ،ایک مدرسہ خلفا دو سرے مدرسہ آئمہ،ایک مکتب امامت اور ایک مکتب خلافت ،ایک تفکر غدیر ایک تفکر سقیفہ،
لہذا یہ کہاجاتا ہے کہ آج ہوسکتا ہے کہ ایک فتنہ برپا ہوجائے لہذا غدیر اختلاف برانگیز ہے اس کو روز ے قیامت پر چھوڑ دیجئے وہاں ساری حقیقت آشکار ہوجائے گی اور حق روشن ہوجائے گا۔
 

غدیر کو بیان کرنے کی پہلی دلیل:
صحیح مذہب کا انتخاب
بعض لوگ کہتے ہیں کہ غدیر اک قدیمی حادثہ ہے جس کو گزرے ہوئے اک طویل عرصہ ہوچکا ہے،تو کیوں ہم آج غدیر کی بحثوں میں الجھیں ،
سب سے پہلی بات تو یہ کہ غدیر کوئی قدیمی حادثہ نہیں ،کیوں کہ آج جب ایک انسان یا جوان چاہتا ہے کہ اپنے لیئے مذہب انتخاب کرے ،یعنی نماز پڑھے روزہ رکھے حج کرے اور قرآن کو سمجھے،مثلا،جب کوئی ایک انسان قرآن کھولتا ہے تو دیکھتا ہے کہ ضحاکہ نے یہ کہا اور واصل بن عطا نے یہ کہا ،ابن عباس اور امیر المومنین ؑ نے یہ کہا ،لہذا یہ دیکھتا ہے کہ تفسیریں جدا جدا ہیں،اب ان میں سے حجت کونسی ہے صحابہ والی یا تابعین والی یا امام معصوم والی کس سے تفسیرلیں کون رسول خدا ؐ سے نزدیک ہے ،مسائل فقہ کس سے حاصل کریں ،نماز پڑھنی ہے تو کیسے پڑھیں،خاک پر سجدہ صحیح ہے یا فرش پر،ایک انسان چاہتا ہے کہ اذان کہہ تو وہ حی علی خیر العمل کہہ کہ نہ کہہ،ایک انسان چاہتا ہے کہ حج کرے اعمال حج کس کے مطابق انجام دے ،امام باقرؑ یا امام صادقؑ کے مطابق یا کسی اور کے،تو یہاں ضرورت غدیر یہی ہے کہ غدیر ہماری شناخت کراتی ہے ہمارے مذہب کو بتاتی ہے ،
میں چاہتا ہوں کہ مذہب انتخاب کروں اسلام میں جو مذہب ہیں حنفی شافعی مالکی حنبلی شیعہ توکس مذہب کو انتخاب کروں کیا وضو کے مسلہ میں ابوحنیفہ کا کہنا ہمارے لیئے حجت ہے ،یا امیرالمومنینؑ کا فرمان ،ہمیں نماز میں بسم اللہ پڑھنا ہےتو آہستہ پڑھیں یا باآواز بلند یا پڑھیں یا پڑھیں ہی نہیں۔
فخر رازی اپنی تفسیر کے آغاز میں لکھتے ہیں کہ امیرالمومنین علیؑ بسم اللہ نماز میں باآواز بلند پڑھتے تھے ،لیکن فلانی فلانی فلانی آہستہ پڑھتے تھے تو یہاں کس کی باتوں پر عمل کریں ،اسی وجہ سے بحث غدیر بحث انتخاب مذہب ہےلہذا ضروری ہے کہ آج غدیر کو فراموش نہ کیا جائے بلکہ غدیر کو عام کیا جائے تاکہ سمجھ میں آئے کہ کس کا مذہب غدیری ہے اور کس کا مذہب غدیری نہیں ہے، 

غدیر کو بیا ن کرنے کی دوسری دلیل:
دوسری دلیل یہ ہے کہ ہم صحیح مذہب کے ساتھ ہیں 
بحث غدیر صرف امیرالمومنین ؑ کی امامت کی بحث نہیں ہے بلکہ بحث غدیراک  امام کی امامت کا آغاز ہے،یعنی اگر امام علیؑ آگئے،تو پھر اس کے بعد امام حسن ؑ،پھر اس کے بعد امام حسینؑ،پھر ا س کے بعد امام علی ابن الحسینؑ،پھراس کے بعد امام محمد ابن علیؑ،پھر اس کے بعد امام جعفر ابن محمد ؑ،پھر اس کے بعد موسی ابن جعفرؑ،پھر اس کے بعد علی ابن موسیؑ،پھر اس کے بعد محمد ابن علی ؑ،پھر اس کے بعد علی ابن محمدؑ،پھر اس کے بعد حسن ابن علیؑ،پھر اس کے بعدامام زمانہ عج اللہ تعالی فرجہ،اور اسی طرح ہم انتظار کے رشتہ سے منسلک ہوجایں گے،
یعنی غدیر ایک ایسی زنجیر ہے کہ جس میں گیارہ کڑیاں ہیں یعنی گیارہ امام موجود ہیں،یعنی دوسوپچاس سال کا عرصہ پھر اس کے بعد امام زمانہ بھر اس کے بعد نواب خاص پھر اس کے بعد نواب عام مرجعیت ولایت فقیہ اسی غدیر سے طلوع ہوتی ہے،
غدیر آج ہم سے کہتی ہے کہ تمہارا مام ہے اور وہ زندہ ہے ،تمہارے اعمال دیکھتا ہے،تمہارے لیئے دعا کرتا ہے،اور ایک دن ظھور کرے گا ،اور جب تک تمہارا امام ظاہر نہیں ہے،تو ضروری ہے کہ تم ان کی طرف رجوع کروجو امام سے نزدیک ہیں،یعنی ایک ایسا عالم کہ جو حدیث اور دین کو سمجھتا ہو،کون کہتا ہے کہ غدیر محض ایک تاریخی واقعہ ہے غدیر ایک قضیہ اعتقادی ہے اگر چہ تاریخی بھی ہے۔یہ غدیر ہی ہے ،کہ بین غدیر اور عاشورہ اور مہدویت اور انتظار ایک عمیق رابطہ ہے،غدیر ایک یونیورسٹی ہے کہ جس میں ایک شعبہ کربلا کا ہے اور ایک شعبہ مہدویت کا ہے اور ایک شعبہ انتظار کاہے ،

غدیر کو بیا ن کرنے کی تیسری دلیل:

غدیر ہمارے لیئے نمونہ ہے
اس لیئے غدیر کہتی ہے کہ مجھ سے تمسک کرو میری روش اختیار کرو ،غدیر ہمیں ایک راستہ دکھاتی ہے،اگر چاہتے ہو کہ کسی ملک کے حکمراں بنو تو عہد نامہ مالک اشتر کو ضرور پڑھواور اس پر عمل کرو،اگر چاہتے ہو کہ رسول خدا ؐ کی معرفت ہوجائے تو نہج البلاغہ کا مطالعہ کرو،اگر دعا کرنے کی روش جاننا چاہتے ہو تو صحیفہ سجادیہ کا مطالعہ کرو،اگر جاننا چاہتے ہو کہ ظالم کے ساتھ کیا کرنا چاہیے تو کربلا کا مطالعہ کرو۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .