۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
News ID: 361945
12 اگست 2020 - 12:01
مولانا علی ہاشم عابدی

حوزه/ بی بی ام سلمی نے بیان کیا: ائے میثم! فرزند رسول امام حسین علیہ السلام تمہارا ذکر خیر کرتے ہیں۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: مجھے میثم سے محبت ہے۔ 

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی  

حوزہ نیوز ایجنسی | عابد، عالم، عارف، سالک، فقیہ، مفسر، محدث، مجاہد اور خطیب وغیرہ جیسے نیک القاب کے حقیقی مصداق حضرت میثم تمار تھے۔ 

آپ بنی اسد کی ایک خاتون کے غلام تھے، مولا علی علیہ السلام نے آپ کو خرید کر آزاد کیا۔

(ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، بیست جلد، چاپ اول، دار احیاء الکتب العربیه، بیروت.)

 چونکہ کوفہ میں آپ کی کھجور کی دکان تھی اس لئے آپ کو تمار کہتے ہیں۔ یہ وہی زمانہ تھا جب امیرالمومنین امام علی علیہ السلام اسلامی مملکت کے حاکم تھے۔ روایات کی روشنی میں آج کے پچاس سے زیادہ ممالک یعنی تقریبا نصف دنیا پر آپ کی حکومت تھی اور کوفہ پائتخت تھا۔ نہ مورخین نے لکھا اور نہ تاریخ میں ملتا ہے کہ امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کسی کی دکان پر جا کر بیٹھتے ہوں سوائے حضرت میثم کی دکان کے۔ واقعہ مشہور ہے کہ ایک دن جناب میثم کے بجائے مولا دکان پر تشریف فرما تھے ایک شخص کھجور خریدنے آیا۔ اس نے کھجور لی اور سکہ رکھ کر چچلا گیا جب جناب میثم آئے تو امیرالمومنین علیہ السلام نے انکو اطلاع دی۔ سکہ دیکھ کر انھوں نے عرض کیا کہ مولا یہ سکہ تو کھوٹا ہے۔ مولا نے فرمایا صبر کرو۔ تھوڑی دیر بعد وہی شخص واپس آیا اور بولا یہ کھجور خراب ہے مولا نے فرمایا اور یہ تمہارا ہی سکہ ہے۔ (یعنی جیسی قیمت ویسا سامان)
(سفینة البحار; ج 2، ص 525 ; بحار الانوار، ج 41، ص 26)

جب امیرالمومنین امام علی علیہ السلام نے جناب میثم کو خریدا تو پوچھا تمہارا نام کیا ہے؟ انھوں نے کہا سالم۔ آپ نے فرمایا: رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ سے سنا ہے کہ تمہارے والد نے تمہارا نام میثم رکھا تھا۔ تو اب اسی نام میثم کو اختیار کر لو اور کنیت ابوسالم رکھ لو۔ جناب میثم نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ اور امیرالمومنین علیہ السلام نے سچ فرمایا میرے والد نے میرا نام میثم رکھا تھا۔ 

(شیخ مفید، ارشاد، ج 1، ص 323; شرح ابن ابی الحدید، ج 2، ص 291.)

دنیا میں کتنے ملیں گے جنھوں نے زحمت و مشقت سے مقام و مرتبہ حاصل کر لیا۔ لیکن انکی اولاد کو ضروری نہیں وہ منزل نصیب ہو۔ لیکن اس کے برخلاف جناب میثم کے چھ بیٹے تھے عمران، شعیب، صالح، محمد، حمزه اور علی۔ اور وہ حضرات بھی اپنے والد کی طرح صراط مستقیم پر گامزن، محبت اہلبیت سے سرشار تھے اور انکا شمار محدثین و راویان احادیث میں ہوتا ہے۔ ائمہ معصومین علیھم السلام حضرت میثم اور انکی اولاد سے اظہار محبت فرماتے تھے۔ 
شعیب بن میثم امام جعفر صادق علیہ السلام کے صحابی تھے، صالح بن میثم امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے صحابی تھے۔ ان سے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: "مجھے تم لوگوں سے اور تمہاری والد سے محبت ہے۔" یہاں یہ نکتہ قابل غور ہے کہ خود جنکی محبت اجر رسالت ہو وہ جناب میثم اور انکی اولاد سے اظہار محبت فرما رہے ہیں۔ اسی طرح عمران بن میثم حضرت امام زین العابدین، امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیھم السلام کے صحابی تھے۔

حضرت میثم اہلبیت علیھم السلام کی نظر میں

جب جناب میثم انجام حج کے لئے مکہ مکرمہ گئے اور وہاں سے مدینہ منورہ پہنچے تو ام المومنین حضرت ام سلمی سے ملاقات کی تو آپ نے جناب میثم سے فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ اکثر امیرالمومنین علیہ السلام سے تنہائی میں گفتگو فرماتے تھے جس میں تمہارا تذکرہ فرماتے۔ 
اسی طرح بی بی ام سلمی نے بیان کیا: ائے میثم! فرزند رسول امام حسین علیہ السلام تمہارا ذکر خیر کرتے ہیں۔ 
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: مجھے میثم سے محبت ہے۔ 
امام جعفر صادق علیہ السلام کے صحابی اور خاص شاگرد جناب ابو بصیر جنکے ثقہ ہونے کے سلسلہ میں علماء کا اجماع ہے اور انکی بیان کردہ تمام روایات امامیہ کے نزدیک معتبر ہیں۔ ایک دن جناب ابو بصیر نے اپنے استاد امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا: مولا آپ مجھے علم سکھانے میں مضایقہ فرماتے ہیں۔ امام علیہ السلام نے پوچھا کون سا علم؟ جناب ابو بصیر نے کہا وہی علم جو امیرالمومنین امام علی علیہ السلام نے جناب میثم کو تعلیم فرمایا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: تم میثم نہیں ہو۔ کیا کبھی ایسا ہوا کہ میں نے تمہیں کچھ تعلیم کیا ہو اور تم نے اسے دوسروں کو نہ بتایا ہو؟ انھوں نے جواب دیا فرزند رسول ایسا ہی ہوا (یعنی دوسروں سے بیان کیا ہے) تو مولا نے فرمایا پس تم رازدار نہیں ہو کہ تمہیں وہ علوم سکھائے جائیں۔
ایک دن صالح بن میثم نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں درخواست کی کہ کوئی حدیث سنائیں تو امام علیہ السلام نے فرمایا کیا تم نے اپنے والد سے حدیث نہیں سنی؟ تو انھوں نے کہا کہ جب میرے والد کی شہادت ہوئی اس وقت میں کمسن تھا۔
(کشی، رجال، انتشارات دانشگاه مشهد، مشهد)
 یہ سوال فرما کر معلم انسانیت حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے جناب میثم کے علمی مرتبہ کو بیان کر دیا۔
بے شک جناب میثم تمار نے عالم علم لدنی خطیب منبر سلونی حجت رحمن عِدلِ قرآن باب مدینہ العلم امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کے جناب کمیل کی طرح خاص شاگرد تھے۔ اور آپ نے مختلف علوم آپ سے سیکھے۔ جن تک اکثر علماء و مفسرین کی رسائی نہیں۔ 

تفسیر قرآن : 

ایک بار جناب میثم مدینہ تشریف لے گئے۔ آپ نے ابن عباس جیسے مفسر قرآن سے کہا کہ جو کچھ پوچھنا چاہو مجھ سے پوچھ لو۔ تو جناب ابن عباس نے قلم و کاغذ منگایا اور جناب میثم کے بیانات کو قلمبند کیا۔ (سفینة البحار، ج 2، ص 524.)

غیبی خبریں: 

جناب میثم کو ماضی کی طرح حال اور مستقبل کا بھی مکمل علم تھا۔ 

1: صالح بن میثم سے روایت ہے کہ ابوخالد تمار کا بیان ہے کہ ہم میثم کے ساتھ کشتی کا سفر کر رہے تھے کہ اچانک ایک تیز آندھی آئی تو جناب میثم نے اطراف پر نظر کرتے ہوئے فرمایا: "ابھی ابھی حاکم شام دنیا سے گذر گیا۔" ایک ہفتہ بعد شام سے آئے قاصد نے تصدیق کر دی۔ 
(رجال کشی، ص 80.)

2: قیدخانہ میں جناب مختار سے فرمایا: امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا جائے گا۔ تم زندہ رہو گے اور انکے قاتلوں سے بدلہ لو گے۔ ابن زیاد جو مجھے شہید کرے گا تم اسے قتل کرو گے۔ 
اس روایت سے جہاں جناب میثم کی علمی عظمت ظاہر ہوتی ہے وہیں جناب مختار کی بھی فضیلت عیاں ہے۔ 

3: جناب میثم نے فرمایا: خدا کی قسم یہ امت دس محرم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے نواسہ کو شہید کرے گی اور اس دن خوشی منائے گی۔ اور یہ واقعہ ضرور رونما گا۔ جب سورج کو خون آلود پانا تو سمجھ لینا امام حسین علیہ السلام شہید ہو گئے۔ (بحار الانوار، ج 45، ص 202)
4: شہید کربلا حضرت حبیب بن مظاہر کو انکی شہادت سے آگاہ کیا۔ (نفس المهموم، ص 60.)

مظلومانہ شہادت 

"جیسا کہ امیرالمومنین امام علی علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ ائے میثم ایک دن آئے گا جب تم سے مطالبہ ہوگا کہ مجھ سے اظہار برات کرو تو تم کیا کرو گے؟ انھوں نے عرض کیا مولا میں ایسا ہرگز نہ کروں گا تو آپ نے فرمایا تو پھر تمہیں قتل اور مثلہ کر دیا جائے گا۔ جناب میثم نے کہا میں صبر کروں گا تو مولا نے فرمایا: ایسی صورت میں تم جنت میں میرے ہمراہ ہو گے۔" 
آخر وہ وقت آ ہی گیا جب آپ سے مولا علی علیہ السلام سے اظہار بے زاری کا مطالبہ ہوا تو آپ نے ابن زیاد کے مطالبہ کو ٹھکرا دیا۔ اس نے آپ کے ہاتھ پیر کٹوا کر دار پر لٹکانے کا حکم دیا۔ ایسے عالم میں خطیب منبر سلونی کے پاسبان و شاگرد یعنی منبر دار کے وحید و بے نظیر خطیب نے دار سے آواز دی ائے لوگوں جسےبھی میرے مولا کی حدیث سننی ہو وہ سن لے۔ میں تمہیں قیامت تک کے حالات بتاتا ہوں۔ لوگوں کا ایک ہجوم آپ کا بیان سن رہا تھا کہ آپ کی زبان کاٹ دی گئی۔
(شرح ابن ابی الحدید، ج 2، ص 294; بحار الانوار ، ج 42، ص 125.)
22 ذی الحجہ 60 ہجری واقعہ کربلا رونما ہونے سے پہلے ہی آپ کی شہادت ہو گئی۔ کئی دن تک جنازہ دار پہ ہی رہا۔ جسے بعد میں چند چاہنے والوں نے خفیہ طور پر اتار کر دفن کر دیا۔ (رجال کشی، ص 83.)
کوفہ میں مسجد اعظم کوفہ سے تھوڑے فاصلہ پر آپ کا روضہ مبارک ہے جو چاہنے والوں کی زیارت گاہ ہے۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .