حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب ؑ کے جانثار اور مخلص ساتھی جناب میثم تمار کی شہادت (22 ذی الحجہ )کے موقع پر ایک بیان میں کہا کہ دین خدا کی نصرت و پیروی میں اہل بیت پیغمبر کے ساتھ اپنے خلوص و وفاداری کا عملی طور پر اظہار کرتے ہوئے راہ حق میں ہر قسم کی سختیاں اور کٹھن حالات کا مقابلہ کرنا بندگان خدا کا شیوہ رہا ہے یہی وجہ ہے کہ تاریخ اسلام نے ایسے برگذیدہ افراد جنہوں نے ظلم اور ظالم سے نہ صرف نفرت و بیزاری ظاہر کی بلکہ اس راہ میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کردیئے‘ کا تذکرہ سنہری حروف کے ساتھ درج ہے۔
علامہ ساجد نقوی نے مزید کہا کہ جناب میثم تمار مسجد کوفہ کے باہر کھجوریں بیچا کرتے تھے اور جب حضرت میثم تمار کسی کام کیلئے دوکان چھوڑ کر جاتے تو امیر المومنین ؑ حضرت علی ؑ ان کی جگہ کھجوریں بیچا کرتے تھے ۔ حضرت علی ؑ کا یہ عمل حضرت میثم تیمار سے بے حد لگاﺅ اور اعتماد کی عکاسی کرتا ہے ۔ امیر المومنین حضرت علی ؑ کے اس عمل کے نتیجہ میں حضرت میثم تیمار کا معاشرہ میں مقام بلند ہوگیا ہے۔ تاہم وہ حضرت علی ؑسے مسلسل فیض حاصل کرتے رہے اور علم کی جستجو میں حضرت ؑ کی محفل میں شریک رہتے چنانچہ انکے مطابق ایک بار میں نے دیکھا کہ میرے مولا ؑ ایک بیابان میں میرے سامنے اشعار پڑھے کہ ”میرے دل میں بہت سے درد ہیں جب میں تنگ دل ہوتا ہوں تو اپنے ہاتھ سے زمین کو کھودتا ہوںاور اپنے درد زمین سے بیان کرتا ہوںاور انہیں اس میں چھپا دیتا ہوںزمین سے جو گھاس اگتی ہے اس کا بیج میرا بویا ہوا ہے یعنی اس بیج میری آہ اور سوز و گداز ہے“۔
علامہ ساجد نقوی کے مطابق جناب میثم تمار جن کی کنیت ابو سالم تھی اور جنہیں گوہر نایاب سمجھتے ہوئے امیر المومنین ؑ نے غلامی سے نجات دلاکر آزاد کیا اور یہ خبر دی کہ ”میرے بعد عنقریب حق کی حمایت کی پاداش میں تمہیں گرفتار کرکے سولی پر لٹکایا جائے گا اور نیزے سے مارا جائے پس جب تیسرا دن ہوگا تو تیرے ناک اور منہ سے خون جاری ہوگا جس سے تیری داڑھی خضاب ہوگی اس خضاب کا انتظار کرو پس تجھے عمر و بن حریث کے گھر کے دروازے پر کھجور کے تنے پر سولی لٹکایا جائے گا“ اور ایثار و اطاعت کے پیکر جناب میثم تمار اسی درخت کے قریب آکر نماز پڑھا کرتے اور کہتے ”اے کھجور کے درخت تجھے برکت نصیب ہو میں تیرے لئے خلق ہوا ہوں اور تجھے میرے لئے غذا دی گئی“۔