۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
مولانا حسین مہدی کاظمی

حوزہ/ اگر آج بھی دنیا حضرت میثم جیسے بہادروں کے نقش کف پا پہ اپنی جبیں خم کردے ان کے نقش قدم ان کے بتائے ہوئے راستوں پر چلنے لگے تو آج بھی کائنات میں میثم مزاج لوگ پیدا ہو سکتے ہیں۔

تحریر: مولانا سید حسین مہدی کاظمی، حوزہ علمیہ نجف اشرف 

حوزہ نیوز ایجنسی | حضرت میثم تمار وہ جری وہ شیر وہ بہادر وہ دلیر وہ ساونت وہ عظیم شخصیت جس نے تکلم کی دہلیز پر قدم رکھ کے حق و حقانیت کے پرچم کو بلند کیا اپنے مولا کی محبت و مودت کا اعلان اس طرح کیا کہ زبان کٹ گئی مگر حقانیت کی آواز کو دبنے نہیں دیا دشمن مجبور ہوگیا کہ تکلم کو ختم کرنے کے لیے زباں کاٹے یہ صداقت کی زبان تھی یہ محبت کی زبان تھی یہ عقیدت کی زبان تھی یہ اس جری کی زبان تھی جس نے تکلم کو لفظوں کا جامہ نہیں پہنایا بلکہ خون جگر تھا جو زباں سے جاری ہو رہا تھا سیل نور تھا جو چشمہ حکمت سے جاری ہو رہا تھا حقیقت کے آبشارے تھے جو کائنات کو روشنیاں بانٹ رہے تھے وہ پاکیزہ فکر تھی جو لوگوں کو حقائق سے آشنا کر رہی تھی کائنات میں دانش و بینش رکھنے والے افراد ذرا غور کریں کس طرح سے ایک متکلم تکلم کی دہلیز پر قدم زن ہوتا ہے کیسے الفاظ کے خیموں میں معانی کی قندیلیں روشن کرتا ہے کس طرح سے اپنے لبوں کی حرکت سے فضائل آل محمد بیان کرتا ہے عام حالت میں خطیب کے لئے تکلم کرنا آسان ہوتا ہے مگر ہاں دشمنوں کے نرغے میں تلواروں کے سایہ میں  خنجروں کی چمک کے درمیان جہاں جلاد تلوار لے کر کھڑا ہو وہاں ایمان و ایقان اس طرح بلند ہو کہ گردن کٹ جائے زباں کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں مگر محبت آل محمد میں فرق نہ آئے۔
یہ کائنات کا اکلوتا خطیب ہے جس نے خطابت کے جوہر منبر سے نہیں دکھائے ہیں ، محراب سے نہیں دکھائے ہیں بلکہ ایسی روش کو اپنایا کہ سولی کو منبر بنایا اور سولی کو منبر بنا کے خطابت کے جوہر دکھائے ہیں جہاں اپنے معانی کو سامعین و مخاطبین و مستمعین تک اس طرح پہونچایا کہ زمین و زماں کے گردش لیل و نہار نے چاند و سورج کے انقلاب نے حالات کی تبدیلی نے بہت سی چیزوں کو وادی فراموش میں ڈھکیل دیا مگر اب تک میثم کے جملے میثم کے تکلم میثم کی وہ منقبت میثم کے وہ قصیدے میثم کی وہ خطابت میثم کا وہ بیان جس پر ہر مورخ حیران و سرگرداں ہے محقق انگشت بدندان اور کائنات کا ہر فرد یہ سوچ رہا تھا کیا سولی پر تکلم کیا جاتا ہے مگر ہاں ایک مرحلہ ایسا بھی آیا کہ میثم نے سولی پر تکلم کیا لیکن سر و تن میں جدائی نہیں ہوئی تھی رگ حیات منقطع نہیں ہوئی تھی پورا سراپا وجود محبت آل محمد میں گویا تھا مگر پھر بھی سولی پر تکلم کرنے والا اور ہے کٹا ہوا سر نوک نیزہ پہ چڑھا دیا جائے تو نوک نیزہ کو منبر بنا کر قرآن کی تلاوت کرنے والا اور ہے اور ہونا بھی یہی چاہیئے اگر غلام تختہ دار سے سولی کی بلندی سے فضائل آل محمد بیان کر سکتا ہے تو آل محمد نوک نیزہ سے قرآن کی تلاوت کر کے کائنات کو درس حیات دیتے ہیں میثم آل محمد کے فضائل بیان کرتا ہے آل محمد قرآن کی آیتیں پڑھتے ہیں شاید اسی کا اظہار کائنات میں ہوتا ہے انی تارک فیکم الثقلین کی محکم دلیل انسانیت کو مل جاتی ہے ۔

حضرت میثم تمار ع ایک ایسے فرض شناس خطیب ہیں جو ایمان و ایقان کا اظہار لفظوں کے ذریعہ کر رہے ہیں کتنا یقین تھا میثم کو اپنے مولا پر کہ جب میثم سے مولا نے کہا ایک درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ اس درخت پہ سولی دی جائے گی تو میثم ہر روز اس درخت کو پانی دیتے ہیں یہ شوق شہادت کا جذبہ ہی تھا ،یہ ایثار و قربانی کا جذبہ ہی تھا ،یہ محبت کا ولولہ ہی تھا ،یہ جوش مودت ہی تھا،یہ شوق لقائے الہی ہی تھا ،یہ بارگاہ  شہادت میں قدم زن ہونا ہی تھا یہ کائنات کا وہ واحد خطیب تھا جو اپنی جائے شہادت کی آبیاری کر رہا تھا دنیا کو بتایا جارہا تھا آل محمد دشمنوں کو سیراب کرتے ہیں میثم اپنے مقام قتل پر آبیاری کرتے ہیں تاکہ دنیا دیکھ لے ہم ان درختوں کو بھی پیاسا نہیں چھوڑتے ہیں جہاں ہمارے خون کے قطرات گرنے ہوں یہی وجہ ہے کہ مقتل کی زمینوں کو خریدا جاتا ہے تاکہ جہاں خون کے قطرے گرنا ہوں وہ غیروں کے پاس نہ جائیں۔

اگر آج بھی دنیا حضرت میثم جیسے بہادروں کے نقش کف پا پہ اپنی جبیں خم کردے ان کے نقش قدم ان کے بتائے ہوئے راستوں پر چلنے لگے تو آج بھی کائنات میں میثم مزاج لوگ پیدا ہو سکتے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ اگر میثم مزاج لوگوں کو دیکھنا ہو تو ہر سر زمین پر نہیں ملیں گے بلکہ آج بھی میثم مزاج لوگ سر پہ کفن باندھ کر وادی لبنان میں شوق شہادت سے سرشار ہونے کے لئے ،جذبہ شہادت سے سرشار ہونے کے لئے اپنے سراپا وجود کو دشمنوں کے حوالے کیئے ہوئے ہیں وہ ایمان و ایقان جو کل حضرت میثم کے مزاج میں تھا آج وہی ایمان و ایقان حسن نصراللہ کے مزاج میں دکھائی دیتا ہے ،وہ نظریہ جو کل حضرت میثم کے اندر تھا آج وہی نظریہ شہید محسن حججی کے لہو میں نظر آتا ہے ،کل جو نظریہ حضرت میثم کا تھا آج وہی نظریہ باقر النمر کی آنکھوں سے چمکتا ہوا نظر آرہا ہے ،کل جو پرسکون دل مطمئن قلب حضرت میثم کا تھا آج اسی کے نقشے قدم پہ چلتا ہوا شیخ ابراہیم زکزکی نائجیریا کے ہولناک مناظر میں اپنے آپ کو تختہ دار و رسن پہ پا رہا ہے نہ جانے کیسے کیسے مجاہدین اسلام ہیں کہ جو آج حضرت میثم تمار کی سیرت کو زندہ کرتے ہوئے میثمی کردار کائنات تک پہونچا رہے ہیں۔
آخر کلام میں کہنا چاہوں گا کہ کیا لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ حضرت میثم تمار کی زبان کٹ گئی اور ان کا وجود عدم کے سناٹوں میں ڈکھیل دیا گیا ، کیا میثم ہمیشہ کے لئے مر گئے اور ان کے وجود کو فنا کے گھاٹ اتار دیا گیا ، کیا میثم تمار ختم کر دیئے گئے ۔ نہیں
ختم وہ ہوتا جس کے فضائل مر جائیں ،ختم وہ ہوتا جس کے مناقب مر جائیں ،ختم وہ ہوتا ہے جس کے قصائد مر جائیں ،وادی عدم میں وہ جاتا جس کا تکلم محفوظ نہ رہ سکے وجود اس کا ختم ہوتا ہے جس کی روحانیت کا وجود ختم ہو جائے لیکن حضرت میثم تمار ع آج بھی زندہ ہیں اگر لہجہ میثم تمار دیکھنا ہے تو غلام میثم تمار حسن نصر اللہ کے لب و لہجہ میں دیکھو اگر عزم و حوصلہ میثم تمار دیکھنا ہے تو غلام میثم تمار سید علی خامنہ آئ میں دیکھو اگر علم و ہنر میثم تمار دیکھنا ہے تو غلام میثم تمار سید علی سیستانی میں دیکھو۔

اگر میثم تمار کی آنکھوں کی ہیبت دیکھنی ہے تو جنرل قاسم سلیمانی میں دیکھو اگر میثم تمار کے لب و لہجہ کی پختگی دیکھنا ہو تو ابو مھدی مہندس میں دیکھو۔
اور آج بھی حضرت میثم تمار گویا ان غلاموں کے لب و لہجہ میں زندہ و جاوید نظر آتے ہیں ۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .