۱۵ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۵ شوال ۱۴۴۵ | May 4, 2024
مولانا سید غافر رضوی

حوزہ/ ہمارا معاشرہ نہ تو زین العابدین کے معنی پر غور کرنے کو تیار ہے نہ سید الساجدین کے مفہوم پر، صرف بیمارِ کربلا کو ذہن میں بسا لیا ہے۔

تحریر: مولانا سید غافر رضوی فلک چھولسی،مدیر ساغر علم فاؤنڈیشن دہلی

حوزہ نیوز ایجنسی | مذہبِ تشیّع کے چوتھے امام، امام حسین(ع) کے فرزند ارجمند، سید الساجدین، زین العابدین، علی ابن الحسین علیہماالسلام۔

معتبر تاریخ کے مطابق آپ کی ولادت ۱۵/جمادی الاوّل سنہ ۳۸ھ مدینۂ منورہ میں ہوئی اور شہادت ۲۵/محرم الحرام سنہ ۹۵ھ میں واقع ہوئی۔

آپ کے مشہور القاب: زین العابدین، سید الساجدین اور بیمار کربلا ہیں۔

لیکن ہمارا معاشرہ نہ تو زین العابدین کے معنی پر غور کرنے کو تیار ہے نہ سید الساجدین کے مفہوم پر، صرف بیمارِ کربلا کو ذہن میں بسا لیا ہے۔

زین العابدین کا مطلب ہے عبادت کرنے والوں کی زینت، جو انسان عابدوں کی زینت ہو اس کے پیروکاروں کو کیسا ہونا چاہیئے؟ سید الساجدین کا مطلب ہوتا ہے سجدہ کرنے والوں کا سردار، جو ساجدین کا سردار ہو اس کے تابعداروں کو کیسا ہونا چاہیئے؟ اس پر نہایت غور و خوض کی ضرورت ہے!۔
جہاں تک بیمارِ کربلا والے لقب کا سوال ہے تو وہ خود لقب سے ہی پتہ چل رہا ہے کہ بیمارِ کربلا یعنی وہ انسان جو کربلا میں بیمار تھا۔ امام زین العبا(ع) کربلا سے پہلے بیمار نہیں تھے اور نہ کربلا کے بعد بیمار رہے، یہ صرف مصلحتِ خدا تھی کہ وہ کربلا میں بیمار رہیں کیونکہ اگر آپ بیمار نہ ہوتے تو باقی شہدا کی مانند آپ پر بھی امامِ وقت کی نصرت واجب ہوتی اور آپ بھی میدان جنگ میں شہید ہوجاتے جس سے سلسلۂ امامت میں رخنہ پڑ جاتا۔

اعتراض کرنے والا کہتا ہے کہ امام سجاد(ع) کی شہادت کے باوجود امامت کو بقا مل سکتی تھی کیونکہ کربلا میں امام باقر(ع) بھی موجود تھے اور امامت کے لئے بزرگی معیار نہیں بلکہ بچپن میں بھی امامت مل سکتی ہے!!۔
اس کا جواب یہ ہوگا کہ امامت کا سلسلہ منقطع نہ ہوتا لیکن سلسلہ میں رخنہ ضرور پڑجاتا اور جب امام حسین(ع) کی زندگی میں ہی امام زین العابدین(ع) شہید ہوجاتے تو پھر عہدۂ امامت امام زین العابدین(ع) تک نہیں پہنچتا جس کے نتیجہ میں پانچویں امام کو چوتھا امام مانا جاتا اور پھر اماموں کی تعداد گیارہ پر ختم ہوجاتی حالانکہ پیغمبر اکرم(ص) کی متواتر احادیث سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ آپ کے بعد آپ کے بارہ جانشین ہوں گے جو سب کے سب معصوم ہوں گے اور اگر اماموں کی تعداد گیارہ پر ختم ہوجاتی تو صادق و امین رسول کا قول جھوٹا ہوجاتا جو ممکن نہیں ہے۔
لہٰذا اگر ہم اپنے بیماروں کی شفا کے لئے بیمارِ کربلا کا واسطہ دیں تو ہمارے ذہنوں میں یہ رہنا چاہیئے کہ حضرت صرف کربلا میں ہی بیمار تھے، ان کی پوری زندگی بیماری کی حالت میں نہیں گزری ہے۔

اسیری کے وقت بیماری کے سبب نحیف و لاغر ضرور تھے لیکن بیمار نہیں تھے، کیونکہ اسلام کا مسیحا بیمار ہو یہ عقلِ سلیم سے بعید ہے؛ جب ڈاکٹر خود ہی بیمار ہوگا تو وہ مریض کا علاج کیسے کرے گا؟ لہٰذا مسیحائے اسلام کو بھی صحت مند ہونا چاہیئے اور بالیقین ایسا ہی تھا۔

مگر افسوس ہمارے شعراء و نوحہ خوان اور مرثیہ خوان حضرات نے امام سجاد(ع) کو صرف ایک بیمار کی حالت میں ہی پیش کیا اور ان کی عبادت اور سجدوں کو کنارے رکھ دیا۔
اگر امام زین العابدین(ع) عاشورا کے بعد بھی بیمار ہوتے تو کوفہ و شام میں شعلہ بیانی نظر نہ آتی! حالانکہ کوفہ و شام کی فتح میں جناب زینب(س) کا اہم کردار ہے لیکن اگر سیدسجاد(ع) نہ ہوتے تو یہ فتح ادھوری ہوتی، اس فتح کو کمال کی منزلیں امام سجاد(ع) نے طے کرائی ہیں اور یہ کام کوئی بیمار انسان نہیں کرسکتا تھا، لہٰذا ہمیں حضرت کی بیماری پر اشک فشانی کے ساتھ ساتھ ان کے ان اشکوں کو بھی یاد رکھنا چاہیئے جو خوف خدا سے طولانی سجدوں میں بہا کرتے تھے اور ان آنسوؤں کو بھی فراموشی کی نذر نہیں کرنا چاہیئے جو عبادت کے عالم میں آنکھوں سے رواں ہوتے تھے تاکہ ہمارے لئے سید الساجدین اور زین العابدین جیسے القاب کے مفاہیم واضح ہوسکیں. "والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ"

تفصیل کے لئے مطالعہ کیجئے:
حماسۂ حسینی، شہید مطہری۔
شہیدِ انسانیت، علامہ علی النقی نقّن۔
مقتل خوارزمی۔
مقتلِ ابومخنف۔
لہوف سید ابن طاؤس۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .