۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
عرب امارات کی صہیونیت نوازی امت میں نئے فتنے کا آغاز

حوزه/ اگر عالم اسلام ایسے منافقانہ کردار ادا کرنےوالے مسلم ملکوں اور حکمرانوں کے خلاف متحد نہ ہوا تو انہیں عالمی سطح پر اس کا بھاری خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

تحریر: عادل فراز

حوزہ نیوز ایجنسی| متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ اور سفارتی تعلقات بحال کرکے عالم اسلام کی پیٹھ میں خنجر گھونپاہے ۔اسرائیل جوکہ فلسطین کی سرزمین پر غاصبانہ تسلط جمائے ہوئے ہے ،اس کوتسلیم کرنا مسلمانوں کے ساتھ غداری ہے۔اسرائیل کے وجودکو تسلیم کرنا یہ بتارہاہے کہ متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں پر استعمار کا کتنا اثر ہے ۔اس معاہدہ کے نفاذ کے وقت امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے داماد جارڈ کشنز کی موجودگی بتارہی ہے کہ یہ سارا کھیل کس نے رچاہے ۔استعماری طاقتیں عالم اسلام کے خلاف متحد ہیں اور نام نہاد مسلمان حکومتیں ان کے تلوے چاٹ رہی ہیں تاکہ امت مسلمہ کے مفادات کا سودا کیا جاسکے۔ اس معاہدہ نےمتحدہ عرب امارات کی منافقت اور اسرائیل نوازی کو بے نقاب کردیا۔مشرق وسطیٰ پر تسلط کا یہ پورا اسکرپٹ استعماری آلۂ کاروں نے لکھاہے۔چونکہ اسرائیل کے وجود کا مسئلہ مشرق وسطیٰ میں تسلیم ہوئے بغیر عالمی حیثیت اختیار نہیں کرسکتا لہذا پہلےمشرق وسطیٰ میں موجود اپنے زرخرید حکمرانوں کی زبان سے اپنے وجود کو تسلیم کرواکر عالمی حیثیت حاصل کرنے کی راہ میں پیش رفت کی گئی ہے ۔امن معاہدہ کے بعد اسرائیل سے براہ راست متحدہ عرب امارات پرواز شروع ہوچکی ہے ۔اس موقع پر امریکی صدر ٹرمپ کے داماد جارڈ کشنز نے کہاکہ ’یہ مشرق وسطیٰ کے لیے ایک نیا سکرپٹ ہے۔‘ظاہر ہے یہ اسکرپٹ عالم اسلام کے مفادات کے خلاف اور اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے کی راہ میں بڑا قدم ہے ۔جارڈ کشنز نے اس معاہدے کی تکمیل میں اہم کردار ادا کیاہے جوکہ اس سے پہلے ’ صدی ڈیل ‘ کے اسکرپٹ کو بھی حتمی شکل دے چکے ہیں۔مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی مفادات کے تحفظ اور اس کے وجود کو عالمی حیثیت عطا کرنے میں جارڈ کشنز کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا مگر افسوس مسلمان حکمران ایسے استعماری عہدیداروں کی غلامی کو اپنے لئے باعث شرف سمجھ رہے ہیں۔
یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ یہ معاہدہ مشرق وسطیٰ میں ایران کی بڑھتی ہوئی طاقت اور عالم اسلام کے اتحاد کے لئے اسکی کوششوں کے خلاف استعمار کا بڑا قدم ہے ۔ایران کی سیاست نے اکثر اسلامی ملکوں کو امریکہ و اسرائیل سے الگ تھلگ کردیا تھا ۔اس معاہدے کے بعد متحدہ عرب امارات ان عرب ممالک کو اسرائیل کے ساتھ منسلک کرنے کی جی توڑ کوشش کرے گا ۔ایران کی بڑھتی ہوئی طاقت نے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کی قربت میں اضافہ ضرورکیاہے مگر کیا ایران کی طاقت متحدہ عرب امارات کے لئے کسی خطرہ کی گھنٹی ہے؟۔اگر اسلامی ملک ایک دوسرے سے اس قدر خوفزدہ ہیں تو ان کے اس خوف کا فائدہ اسرائیل جیسے ملک ضرور اٹھائیں گے ۔ایران امریکہ کے ذریعہ عائد کی گئی عالمی معاشی پابندیوں کا شکار ہے مگر اس نے کبھی استعمارکے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے ۔اس کے عوام کی مقاومت عالم اسلام کے لئے بڑا سبق ہے ۔ایران میں جتنی بھی ترقی ہے وہ اس کےعوام کی مرہون منت ہے ۔مگر متحدہ عرب امارات نے یہ فیصلہ کرلیاہے کہ اس کی ترقی اسرائیل کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔لہذا اس نے عالم اسلام کے مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسرائیل کےسامنے سرتسلیم خم کردیا۔اس کے دورس نقصانات ہونگے جن کا اندازہ اسلامی دنیا کو ہونے لگاہے۔اس معاہدے کےبعد عرب ممالک یروشلم کو اسرائیل کا پایۂ تخت تسلیم کریں گے ۔مصر1979 اور اردن1994میں پہلے ہی اسرائیل کے وجود کو تسلم کرچکے تھے۔اب بحرین اور متحدہ عرب امارات بھی اس ناپاک منصوبے کی تکمیل میں شامل ہوچکے ہیں۔

استعمار اس معاہدے سے عالم اسلام کی توجہ ہٹانے کے لئے کئی طرح کے محاذ پر کام کررہاہے۔اول تو یہ کہ اس نے شیعہ و سنی مسلمانوں کے درمیان نفرت انگیزی شروع کردی ہے ،جس پر عرصۂ دراز سے لگام کسی جاچکی تھی ۔ایران اور شیعوں کے مراجع عظام کی کوششوں سے شیعہ و سنی بیحد قریب آچکے ہیں۔استعمار کی آنکھوں میں یہ قربت کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے اور اسکے وجود کے لئے بھی خطرہ ہے ،لہذا اس نے ایسے تکفیری گروہوں کو بڑھاوا دینا شروع کردیاہے جو مسلمانوںکے درمیان نفرت اور شرانگیزی کو فروغ دے سکیں۔رہبر انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ خامنہ ای ،سرزمین عراق سے مرجع عالیقدر آیت اللہ سید علی سیستانی اور دیگر مراجع کرام نے شیعہ و سنی اتفاق و اتحاد کےلئے جتنی کوششیں کی ہیں وہ عالم اسلام کے لئے گرانقدر ہیں۔مراجع کا مشترکہ فتویٰ ہے کہ مقدسات اہلسنت و الجماعت کی توہین جائز نہیں ہے ۔اس کے باجود بھی اگر کوئی شخص اہلسنت و الجماعت کی مقدس شخصیات کی اہانت کرتاہے تو ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ وہ دشمن کا آلۂ کار ہے ۔اسی طرح اہلسنت و الجماعت کے درمیان بھی ایسے تکفیری فکر کے حامل افراد ہیں جو مسلمانوں کے متفقہ اورمشترکہ عقائد و مسلمات کے مخالف ہیں ۔جیساکہ حال ہی میں پاکستان میں ممنوعہ دہشت گرد تنظیم ’سپاہ صحابہ ‘ ،’جماعت الدعوۃ‘ جیسی دیگر تنظیموں نے استعمار کے اشارے پر یزید ملعون کی حمایت میں ریلی نکال کر شیعوں کے کفر کا اعلان کیا اور ان کے قتل کو جائز قراردیا۔اس اجلاس میں اتحاد اسلامی کے سب سے بڑےداعی رہبر انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ خامنہ ای کے خلاف بھی نعرے بازی کی گئی ۔اس سے یہ ثابت ہوجاتاہےکہ ایسی نفرت انگیز اورشرپسند ریلیوں کی ڈور کس کےہاتھ میں ہے ۔افسوس یہ ہے کہ حکومت پاکستان ایسی دہشت گرد تنظیموں کہ جن پر وہاں پابندی عائد ہے،سرکاری سرپرستی میں شیعوں کے خلاف اور یزید معلون کی حمایت میں ریلی کی اجازت کیسے دے سکتی ہے ؟۔سرکار کی اسی ڈھلائی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان میں شیعوں کی ٹارگیٹ کلنگ جاری ہے اور ہزاروں نوجوان لاپتہ ہیں۔حکومت پاکستان کو ایسے شرپسندوں اور تکفیری گروہوں پر سختی کے ساتھ ضروری اقدام کرنا چاہئےورنہ یہ لوگ پاکستان کو یزید نوازی میں دہشت گردی کی بھٹّی میں جھونک دیں گے ۔
ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ استعمار نام نہاد مسلمان حکمرانوں کے ذریعہ اپنے مفادات کی تکمیل چاہتاہے ۔مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنا اوراسلامی دنیا میں پھوٹ ڈلواکر اسرائیل کوان کے سروں پر مسلط کرنا اس کا بڑا ہدف ہے ۔استعمار اپنی ان کوششوں میں بڑی حدتک کامیاب ہے کیونکہ اس نے سعودی عرب سمیت متحدہ عرب امارت پر ایسے حکمرانوں کو مسلط کررکھاہے جو اس کے زرخریدغلام ہیں۔’صدی ڈیل ‘ جس کا مسودہ ا بھی صیغہ ٔ راز میں ہے،اس کو تسلیم کروانے کے لئے بھی انہی مسلمان حکمرانوں کا سہارا لیا جارہاہے ۔جیساکہ بعض عرب ممالک منجملہ مصر اورسعودی عرب فلسطین مخالف’ صدی معاہدہ‘ کو پہلےہی تسلیم کرچکے ہیں اور استعمار کے ساتھ مل کر فلسطین کے حقوق پر نقب زنی کررہے ہیں۔بعض اسلامی ملکوں نے عرب امارات اوراسرائیل معاہدے کی ظاہری طورپر مخالفت کی ہے مگر ان کا عمل ان کے قول کےساتھ مطابقت نہیں رکھتا۔وہ استعمار کے ساتھ خفیہ روابط رکھتے ہیں اور اندرونی طورپر اس کے مفادات کی تکمیل میں مدد پہونچاتے ہیں۔اگر عالم اسلام ایسے منافقانہ کردار ادا کرنےوالے مسلم ملکوں اور حکمرانوں کے خلاف متحد نہ ہوا تو انہیں عالمی سطح پر اس کا بھاری خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .