۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
دیوان عالی هند، جلسه دادگاه مسجد بابری را به تاخیر انداخت

حوزه/ آج خود کچھ ملزم عدالت میں حاضری سے پہلے یا بری ہونے کے بعد کیمروں کے سامنے یہ کہتے ہوئے نظر آئے کہ اگر ہمیں اس جرم میں پھانسی بھی ہوجاتی تو ہمیں کوئی ملال نہیں تھا ۔ اب سوال یہ ہے کہ خود ملزم اپنے کو مجرم مان رہے ہیں اور عدلیہ نے انہیں بے داغ بنا کر بری کردیا۔

تحریر: اکرم  واسطی

حوزہ نیوز ایجنسی | گذشتہ چند برسوں کے دوران ہندوستانی عدلیہ نے کئی ایسے فیصلے سنائے ہیں جن سے  اس کی جانبداری کھل کر سامنے  آگئی ہے اور ہندوستان کے آئین میں لکھی ہوئی سیکولرزم کی تعبیرات مدھم پڑ گئی ہیں  ۔ ویسے تو تقسیم کے بعد سے نہ جانے کتنے مواقع ایسے آئے کہ جب ملک میں اقلیتوں کے حقوق کو پامال کر دیا گیا لیکن ۶ دسمبر ۱۹۹۲ کا دن تاریخ ہند کا وہ سیاہ دن ہے جس میں کچھ خاص سیاست دانوں اور مذہبی رہنماؤں کے جذباتی بیانات سے ایک قوم نے برس ہا برس پہلے تعمیر ہوئی بابری مسجد کو شہید کردیا اور اس کی جگہ مورتیاں لا کر رکھ دیں ۔ اور بہانا یہ بتلایا گیا کہ یہ رام جنم بھومی ہے لہذا یہاں کوئی مسجد نہیں رہ سکتی ۔

بڑی عجیب بات ہے یہ تشدد کرنے والے کس رام پر عقیدہ رکھتے ہیں ۔ ایک طرف تو یہ دعوے ہیں کہ رام بہت مہربان دل کے مالک تھے اور ایک طرف اسی رام کا نام لیکر اللہ کے گھر کو شہید کر دیا جاتا ہے میرا سوال یہ ہے کہ کیا اگر رام خود  موجود ہوتے ۔ بنا بر فرض وجود ۔ تو کیا ان کے شہر میں کسی مسجد یا کسی اور مذہب کی عبادت گاہ کو تعمیر نہیں کیا جاسکتا تھا ۔ مجھے نہیں معلوم وہ رام کو کیا سمجھتے ہیں ؟ 
اچھا اگر یہ فرض بھی کر بھی لیا جائے کہ رام جنم بھومی پر مسجد تعمیر کردی گئی تھی اور یہ ایک جرم تھا ۔ تو ان آتشی مزاج لوگوں نے کون سا اچھا کام کیا  انہوں نے بھی  تو جرم  ہی کا ارتکاب کیا ہے ۔ اور خاص طور پر  مسجد بہت پرانے دور کی تھی لیکن توڑا اسے آزاد ہندوستان میں ہے لہذا جو جو مجرم تھے انہیں سزا ہونی چاہیئے تھی ۔

لیکن ہمارے عدالتوں کی سستی  اور جانبداری کا کیا کہنا کہ جو لوگ ۳۲ سال پہلے اس جرم کو کروانے کے ذمہ دار تھے انہیں آج عدالت نے صاف ستھرا کرکے بری کردیا ۔ اور دلیل یہ دی گئ کہ ان افراد نے لوگوں کو ورغلایا نہیں تھا بلکہ انہوں نے تو لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی تھی لیکن بھیڑ نے ان کی ایک نہ سنی ۔

واہ رے واہ ! وکیلوں ! آج خود کچھ ملزم عدالت میں حاضری سے پہلے یا بری ہونے کے بعد کیمروں کے سامنے یہ کہتے ہوئے نظر آئے کہ اگر ہمیں اس جرم میں پھانسی بھی ہوجاتی تو ہمیں کوئی ملال نہیں تھا ۔ اب سوال یہ ہے کہ خود ملزم اپنے کو مجرم مان رہے ہیں اور عدلیہ نے انہیں بے داغ بنا کر بری کردیا ۔ میں سمجھتا ہوں یہ تاریخ ہند کا ایک اور سیاہ دن ہے اور عدلیہ کے دامن سے یہ سیاہی اس وقت تک دور نہیں ہوسکتی جب تک وہ اپنی   غیر جانبدارانہ شبیہ  اور اس اعتماد کو بحال نہ کرلے جو ایک سیکولر بھارت کا پہنچان ہے ۔
یہ کیسا کھلواڑ ہے پہلے بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کو ڈن کر دیا جاتا ہے اور  پھر  کچھ دن کے بعد فضا ہمورا کرکے اعلان کردیا جاتا ہے اور پھر اس کے بعد ۲۸سال تک مجرموں کو کھلے عام چھوٹ دیدی جاتی ہے اور پھر ان کو بری کردیا جاتا ہے اور ساتھ میں ستم تو یہ کہ اقبال انصاری جیسے لوگ کہ جو کبھی بابری مسجد کے نام پر جیتے تھے اور مقدمے کی پیروی کرتے تھےآج یہ کہتے ہوئے نظر آرہے ہیں کہ ہمیں عدلیہ کا یہ حکم منظور ہے ۔ 

واہ رے اقبال انصاری ! تمہاری خود داری  اور بلند اقبالی کو کس کی نظر لگ گئی ۔ کیا درہم و دینار کی کھنکھناہٹ نے تمہیں بھی اندھا اور بہرہ بنا دیا ہے ۔

اور ان سب چیزوں کے باوجود ستم بالائے ستم یہ کہ ابھی ان مجرموں کو  عدلیہ کی واشنگ مشین سے صاف ہوئے کچھ گھنٹے بھی نہیں ہوئے تھے  کہ ان میں سے کچھ تو یہ کہنے لگے کہ اب کاشی اور متھرا کی باری ہے وہاں سے بھی تمام مساجد کو ہٹایا جائے گا ۔

ایسا لگتا ہے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت یہ سب کچھ کیا جارہا ہے اور اس پر ستم یہ کہ امت مسلمہ خاموش تماشائی بنی اپنی زوال  کا مشاہدہ کر رہی ہے ۔

مجھے ایک شاعر کا ایک شعر یاد آرہا ہے کیا خوب کہا :
تونے ضمیر بیچ کے اچھا نہیں کیا 
اب تیری ہر زمین کا سودا کریں گے لوگ ۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .