تحریر: معصوم مرادآبادی
حوزہ نیوز ایجنسی | سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے بابری مسجد انہدام سازش کیس کے تمام ملزمان کو باعزت بری کرنے کا فیصلہ سنایاہے۔ سی بی آئی نے ان ملزمان کے خلاف جو ثبوت فراہم کئے تھے، وہ عدالت کی نگاہ میں ”ناکافی اور فرضی‘‘ قرار پائے ہیں۔ عدالت نے اپنے 2300 صفحات کے فیصلے میں ان لوگوں میں سے کسی ایک کو بھی مجرم نہیں گردانا جنہوں نے تاریخ کے سب سے گھناؤنے جرم کا ارتکاب کیا تھا۔ سی بی آئی نے اس مقدمے میں جتنے بھی ثبوت پیش کئے‘ وہ اتنے بودے اورناکافی تھے کہ ان کی بنیاد پر کسی کو سزامل ہی نہیں سکتی تھی۔عدالت نے بابری مسجد کی مسماری کی منہ بولتی تصویروں کو یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ”پریس فوٹو گرافروں نے جو تصویریں کھینچیں وہ اخبارات میں شائع ہوئیں مگر اس کے نگیٹو عدالت میں پیش نہیں کئے گئے اور نہ ہی انہدام کی ویڈیوز فورینسک جانچ کے لیے بھیجی گئیں۔“
یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ بابری مسجد انہدام سازش کی جانچ گزشتہ 28 برسوں سے وہی سی بی آئی کررہی تھی، جس کے بارے میں سپریم کورٹ نے ایک موقع پر کہاتھا کہ ”یہ پنجرے میں قید ایک ایسا طوطا ہے جو صرف اپنے مالک کے اشارے پر ہی زبان کھولتا ہے۔“ یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس وقت اس طوطے کا مالک کون ہے اور یہ کس کے پنجرے میں قید ہے۔جو لوگ بابری مسجد پر ہونے والے ظلم اور ناانصافی کی تاریخ سے آگاہی رکھتے ہیں، ان کے لئے سی بی آئی عدالت کے خصوصی جج سریندر کمار یادو کا فیصلہ حیرت انگیز نہیں ہے۔ میں خود کو ان لوگوں میں شمار کرتا ہوں جنھوں نے گزشتہ تقریباً 36برسوں کے دوران اس تنازعہ کے تمام پہلوؤں کا نہ صرف باریکی سے جائزہ لیا ہے بلکہ 1987اور 1989 میں خود دو مرتبہ بابری مسجد میں داخل ہوکر اس کی پوری کیفیت سے اپنے قارئین کوروشناس بھی کرایا تھا۔
بابری مسجد تنازعہ کی پوری تاریخ اس ملک میں ظلم اور نا انصافی کی تاریخ ہے۔مورتیاں رکھے جانے سے لے کربابری مسجد کی ظالمانہ شہادت اور اس کی اراضی مندرکو دئیے جانے تک‘ اگر آپ اس تنازعہ کا سرسری مطالعہ بھی کریں تو اس میں آپ کو ظلم اور ناانصافی کے سوائے کوئی عنوان نظر نہیں آئے گا۔ لیکن اس حقیقت کو جاننے کے باوجود مجھے نہ جانے کیوں یہ خوش فہمی تھی کہ بابری مسجد انہدام سازش کیس میں سی بی آئی عدالت ان لوگوں کی سزا ضرور طے کرے گی جنھوں نے6دسمبر1992 کو دن کے اجالے میں بابری مسجد کو شہید کیا تھا۔ اس خوش فہمی کی بنیاد یہ تھی کہ اڈوانی، جوشی، اوما بھارتی اور ونے کٹیار جیسے لوگ‘ جنھوں نے اس گھناؤنے جرم کے لئے لاکھوں کارسیوکوں کو اکسایا تھا، نہ صرف موقعہ واردات پر موجود تھے بلکہ کارسیوکوں کا حوصلہ بھی بڑھا رہے تھے۔ اس گھناؤنے جرم میں ان کی شمولیت اتنی نمایاں تھی کہ اس سے انکار کی گنجائش ہی نہیں ۔لیکن جب گزشتہ 30ستمبر کو لکھنؤ میں سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے ان تمام ملزمان کو باعزت بری کرتے ہوئے ان کے بارے میں یہ کہا کہ”ان لوگوں نے دراصل کارسیوکوں کو کنٹرول کرنے اور بابری مسجد کو بچانے کی کوشش کی تھی“ تومیری طرح ان لاتعداد لوگوں نے اپنی انگلیاں دانتوں تلے دبالیں جو سیاہ اور سفید میں فرق کرنا جانتے ہیں۔
عدالت نے ان ملزمان کو بری کرتے ہوئے اس جرم کا قصور “نامعلوم” لوگوں کے سر ڈالاہے اور کسی بھی قسم کی سازش کی تھیوری کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔عدالت کو اڈوانی اور جوشی کی کسی اشتعال انگیز تقریر کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملا بلکہ جرح سے یہ ثابت ہوا کہ ان لوگوں نے ”امن“ قائم کرنے کی اپیل کی تھی۔عدالت نے یہ بھی کہا کہ کوئی بھی گواہ ’’ڈھانچہ‘‘گرانے یا افراتفری پھیلانے والوں کو پہچان نہیں پایا۔ وہاں موجود سیکورٹی افسران اور فورس نے کسی بھی ایسے شخص کو نہیں پکڑا جس کے پاس گینتی، پھاوڑا یا کوئی ہتھیار ملا ہو اور اس کا نتیجہ عدالت نے یہ نکالا کہ ’’ڈھانچہ“ نامعلوم لوگوں نے گرایا۔ اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ یہ ’’نامعلوم‘‘ لوگ کون تھے؟ کہاں سے آئے تھے؟ ان کا مقصد کیا تھا اور وہ کس قسم کا لباس پہنے ہوئے تھے؟ ان تمام سوالوں کا کوئی جواب عدالت یا تحقیقاتی ایجنسی نے نہیں دیا۔ ہاں کچھ اشارہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی طرف کرتے ہوئے کہاگیاہے کہ کارسیوکوں کے بھیس میں وہاں کچھ دہشت گرد اور سماج دشمن عناصر داخل ہوگئے تھے۔
عدالتی فیصلے کا سب سے دلچسپ پہلو وہ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ”ملزمان نے متنازعہ احاطہ میں ایسا کوئی کام نہیں کیا، جس سے دوسرے فرقہ کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچی ہو۔“ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ”6 دسمبر کے لئے کارسیوکوں میں جوش و اشتعال تھا تو مسلم فرقہ کے کچھ لوگوں نے جان بوجھ کر قبروں کو نقصان پہنچاکر فرقہ واریت کے شعلے بلند کئے تھے۔ حاجی محبوب اور ہاشم انصاری نے اپنے لوگوں کو بھڑکایا تھا۔“ یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ حاجی محبوب اور ہاشم انصاری بابری مسجد مقدمے کے سب سے پرانے مدعی تھے۔ عین ممکن ہے کہ ان ہی کے بھڑکانے کے نتیجے میں بابری مسجد مسمار ہوگئی ہو اور سنگھ پریوارکے لوگ وہاں امن کی فاختائیں اڑارہے ہوں۔ سی بی آئی اگر اپنے ذہن پر کچھ اور زور ڈالتی تو وہ امن کی ان فاختاؤں کو بطور گواہ پیش کرسکتی تھی۔
جب دہلی میں لبراہن کمیشن کے روبرو بابری مسجد انہدام سازش کیس کی سماعت چل رہی تھی تو مجھے اس کی کئی نشستوں میں شرکت کا موقع ملا اور میں نے اس دوران کئی گواہوں کے بیانات سنے۔جسٹس منموہن سنگھ لبراہن کی قیادت والے اس یک نفری کمیشن نے 2009 میں اپنی رپورٹ اس وقت کے وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کو سونپی تھی -اس رپورٹ میں واضح طور پر ان تمام ملزمان کو مجرمانہ سازش میں شریک بتایا گیا تھا جنھیں سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے آج قطعی ”بے قصور“قرار دے کر بری کردیا ہے۔سی بی آئی عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد جسٹس منموہن سنگھ لبراہن نے ایک بار پھر یہ کہا ہے کہ”میرے سامنے جو بھی ثبوت پیش کئے گئے تھے، ان کی بنیاد پر میں اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ یہ ایک سازش تھی اور میں آج بھی اس پر اصرار کرتا ہوں۔ انھوں نے ’’انڈین ایکسپریس“ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ”یہ بات بالکل واضح تھی کہ بابری مسجد ایک سازش کے تحت گرائی گئی تھی۔مجھے یاد ہے کہ اوما بھارتی نے واضح طور پر اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ بابری مسجد کو نامعلوم طاقتوں نے مسمار نہیں کیا تھا بلکہ یہ معلوم انسانوں کا کام تھا۔“
یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ بابری مسجد کو حرف غلط کی طرح مٹانے کی سازشیں کئی سطحوں پر رچی گئی تھیں۔ یہ بات بھی سبھی کو معلوم ہے کہ یہ ایک سیاسی سازش تھی جس میں سنگھ پریوار اور بی جے پی کے لوگ گردن تک ڈوبے ہوئے تھے۔آج بھی اس سازش میں ان لوگوں کی شمولیت کے اتنے ٹھوس ثبوت موجود ہیں کہ اگر انہیں صحیح ڈھنگ سے پیش کیا جائے تو دنیا کی کوئی بھی عدالت بہت آسانی کے ساتھ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچا سکتی ہے۔ یہ ثبوت اتنے اہم اور ناقابل تردیدہیں کہ انہیں جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ لیکن اسے آپ کیا کہیں گے کہ سی بی آئی نے خصوصی جج کے روبرو جو ثبوت پیش کئے عدالت نے انھیں ”فرضی“ پایا اور حقارت سے مسترد کردیا۔ ظاہر ہے عدالتیں ثبوتوں کی بنیاد پر ہی فیصلے صادر کرتی ہیں اور ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہوتا۔کسی مہذب معاشرے میں اگر کوئی عدالت ملک کی سب سے بڑی جانچ ایجنسی پر فرضی ثبوت پیش کرنے کا الزام لگاتی ہے تو یقینا یہ تبصرہ اس ایجنسی کو ہمیشہ کے لئے بند کرنے اور جانچ کرنے والے افسران کے خلاف قدم اٹھانے کے لئے کافی سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ بابری مسجد شہید ہوئی اور جن لوگوں نے اس گھناؤنے جرم کو انجام دیا انھیں وہاں جمع کرنے اور اکسانے کاکام ان ہی لوگوں نے کیا جن پر 28 برسوں تک مقدمہ چلا اور وہ قانون کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتے رہے۔ اپنی اس بدکاری پر فخر کرنے والے انہی لوگوں کو جب لکھنؤ کی عدالت میں طلب کیا گیا تو سبھی 32 ملزمان نے ایک ہی اسکرپٹ عدالت میں دوہرایا اور وہ یہ تھا کہ ”ان کا بابری مسجد کی مسماری میں کوئی رول نہیں ہے۔ انھیں اس معاملے میں ایک سیاسی سازش کے تحت پھنسایا گیا ہے جو کانگریس حکومت نے رچی تھی۔“جبکہ دنیا جانتی ہے کہ بابری مسجد کی مسماری ایک طے شدہ سیاسی منصوبے کا حصہ تھی اور اس کے لئے برسوں سے ماحول سازی کی جارہی تھی۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد پورے ملک میں جو فسادات پھوٹے اس میں ہزاروں بے گناہوں کی موت ہوئی اور اربوں روپے کی املاک لوٹی اور جلائی گئیں۔
لال کرشن اڈوانی نے سومناتھ سے ایودھیا تک جو رتھ یاترا نکالی اس کے نعرے اتنے اشتعال انگیز اور ڈراؤنے تھے کہ اگر انھیں ہی بطور ثبوت عدالت میں پیش کیا جاتا تو کوئی نتیجہ نکل سکتا تھا۔ بابری مسجد انہدام کے وقت اوما بھارتی نے کہا تھا کہ ”ایک دھکا اور دو۔ بابری مسجد توڑدو۔“ لیکن سی بی آئی یہ نہیں بتاسکی کہ یہ نعرہ اور اس قسم کے دیگر اشتعال انگیز نعرے وہاں کس نے لگائے تھے۔سی بی آئی کے کردار کو دیکھ کر صاف اندازہ ہوتا ہے کہ اس نے یہ پورا مقدمہ ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کی بجائے انھیں بچانے کے لئے لڑا۔ یہی وجہ ہے کہ عدالت نے اس پر فرضی ثبوت فراہم کرنے کا سنگین الزام لگایا۔ اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا سی بی آئی عدالتی فیصلے کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کرے گی تو اس کا ایک ہی جواب ہے کہ جب اس کے پاس اپنا الزام ثابت کرنے کا کوئی ثبوت ہی نہیں ہے تووہ کس بنیاد پر اس کام کو انجام دے گی۔یہ کام تو وہی لوگ انجام دے سکتے ہیں جنھیں اس ملک میں جمہوریت اور انصاف کی بقا مقصود ہے۔
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔