۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
News ID: 362733
20 ستمبر 2020 - 18:43
مولانا حسین مہدی کاظمی

حوزہ/ حسین ابن علی ع کی ذات گرامی نور الھی اور چراغ رشد و ھدایت ہے تو ہماری قوم میں بھی علم کے چراغ جلنے چاہیئے اور ہمیں بھی ھدایت حاصل کرکے لوگوں کے لئے ھدایت کے راستے فراہم کرنا چاہیئے۔

راقم الحروف: مولانا حسین مہدی کاظمی،نزیل نجف اشرف

حوزہ نیوز ایجنسی |

بسم الله الرحمن الرحيم

يُرِيْدُوْنَ لِيُطْفِؤُا نُوْرَ اللّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ واللّهُ مُتِمّ نُوْرِهِ وَلَوْ کَرِهَ الْکَافِرُوْنَ (سورہ صف ، آيت: ۸)

"یہ لوگ چاہتے ہیں کہ نور خدا کو اپنے منھ سے بجھا دیں اور اللہ اپنے نور کو مکمل کرنے والا ہے چاہے یہ بات کفار کو کتنی ہی ناگوار کیوں نہ گزرے،، 

یہ آیت کریمہ اپنی پوری فصاحت و بلاغت کے ساتھ نور الہی کا تذکرہ کر رہی ہے جسے انسان نما شیطان بجھانے کی مکمل طور پر کوشش میں لگا ہوا ہے اور اس چمکتے دمکتے نور خداوندی کو خاموش کرنے میں مشغول و مصروف ہے جو رسول اسلام (ص) کی حدیث شریف کے مطابق
( ان الحسین مصباح الھدیٰ وسفینۃالنجاۃ ) امام حسین علیہ السلام کی ذات گرامی ہے۔

اس حدیث مبارکہ کی بلندی کی  سطح اگر دیکھی جائے تو بیان کرنے والا وہ ہے جو وحی کے بغیر کلام نہیں کرتا  ؛ اس حدیث کی معراج کو دیکھا جائے تو عرش الہی کے داہنے جانب مرقوم ہے ( قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :مكتوبٌ عن يمينِ العرش مصباحُ هادٍ و سفينةُ نجاةٍ) اس حدیث کی وسعت  متنی  کو دیکھا جائے تو یہ حدیث سید الشہداء ( ع ) کے   القاب میں سے جو کہ (چراغ ہدایت اور کشتی نجات )ہے اس کو بھی شامل ہے۔

یہ نور جس کا تذکرہ آیت قرآن میں ہوا ہے ایک ایسا نور ہے جو مقام امامت کے علاوہ زندگی کے تمام پہلو میں یہاں تک کہ راہ جہاد اور رسم شہادت میں بھی حجت اور رہنما ہے اور زندگی میں  آنے والے ہر طوفان ( چاہے طوفان فردی ہو یا اجتماعی) کشتیِ نجات ہے۔ 
جو کوئی بھی اس نور کا اقرار کر لےوہ بے دینی ، ذلت و خواری ، پستی و رذالت ، حقارت و ملامت سے نکل کر بلندی کی اس باکمال منزل پر پہنچ جائے گا جہاں عزت و کرامت کا کنارہ ہوگا نجات و بلندی کا ساحل ہو گا شب تاریک میں درخشاں ہونے والا مصباح حسینی ہوگا اور جو انسان اس مقام تک پہنچ جائے گا اس کے لئے شفاعت ، صراط ولایت اور خانہ عاشقان کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوگا۔
اور یہ صفت صرف اسی ایک نور میں نہیں بلکہ ہر اس نور میں ہے جس کے بارے میں رسول خدا (ص) نے کہا (اولنا محمد و اوسطنا  محمد و آخرنا محمد و کلنا محمد ....)اس فرق کے ساتھ کہ یہ صفت سید الشہداء  مصباح الہدی حسین ابن علی علیہ السلام میں  مظہر اتم اور محل تجلی ہے۔

مصباح ادبی نظر سے اسم آلت ہے

مصباح یعنی ( ما یسقی منه ) یعنی ایسا وسیلہ جس کے ذریعہ  انسان بھی اور غیر انسان( حیوانات نباتات وغیرہ) بھی سیراب ہوتے ہیں نورخدا (مصباح ہدایت ) یعنی ایک ایسا وسیلہ جو تمام طالب حق کو وادی ضلالت و گمراہی سے نکال کر  چشمہ رشد و ھدایت سے اس طرح سیراب کر دے جس کے بعد تشنگی کا احساس نہ ہو اور اس آب طہارت کو نوش کرنے کے بعد اہل ایمان کے دلوں میں محبت حسین (ع) اس طرح پیدا ہو جائے جس کے بعد انحراف کا امکان  نہ ہو۔ 
کیونکہ ذات حسین ایسا درخشاں ، رخشنده ، چمکتا ودمکتا  نور ہے جو شائستہ اور لائق  انسان کو کفر کی پستی سے نکال کر ایمان کی بلندی پر فائز کر دیتا ہے اور اپنے محبوں کو اپنے محبوب (پروردگار) تک پہنچنے کا راستہ دکھادیتا ہے۔
یہ ایک ایسا نور الہی ہے جو خاموش ہونے والا نہیں ہے اس نور کو خاموش کرنے کے لئے ۶۱ ہجری سے آج تک کوششیں کی جارہی ہیں لیکن آج تک کی جانے والی ہر کوشش ناکام رہی کبھی کامیاب نہیں ہو پائی کیوں ؟
 اس لئے کہ اس نور کی تکمیل کا وعدہ خدا نے کیا ہے امام حسین (ع)کو شہید کرکے لوگوں  نے اپنے زعم ناقص میں سمجھا کہ چراغ ھدایت گل ہو گیا ہے لیکن یہ نہیں سوچا کہ جسکی حفاظت کی ذمہ داری خود خدا نے لے رکھی ہو جسکا محافظ خود ذات رب ہو اسے دنیا کی کوئی بھی طاقت بجھا نہیں سکتی ہے۔
اور جب تک امام حسین ع کا وجود ظاہری لوگوں کے درمیان موجود تھا تب تک آپ مشعل راہ ھدایت انسانیت تھے اور جب آپ کربلا کے تپتے ہوئے ریگزار پہ شھید ہو گئے تو آپ کا روضہ اقدس مصباح ھدایت قرار پایا کہ جس روضہ مبارک کی زیارت کے لئے کثیر تعداد میں مجبان و موالیان حسین ع جاتے ہیں اور نور ھدایت سےکسب فیض کرتے ہیں بہت سے لوگوں نے زیارت امام حسین ع پہ جانے اور مصباح ھدایت تک پہونچنےکے لئے پابندیاں اور شرطیں  لگائیں  انھیں میں سے متوکل بھی ہے جس نے حکم دیا تھا کہ نور ھدایت کو خاموش کرکے ہمیشہ ہمیشہ  کے لئے صفحہ ہستی سے مٹا دو اور اس نے مٹانے کی بھرپور کوشش بھی کی۔

مسعودی کی کتاب مروج الذهب میں تحریر ہے کہ متوکل نے لوگوں کو زیارت سے روکنے کے لئے  شرط رکھی تھی ...
"جو بھی زیارت امام حسین علیہ السلام کرنا چاہتا ہے وہ پہلے اپنا دایاں ہاتھ کٹوائے پھر زیارت کرنے کے لئے جائے ،، 
اور اس شرط کا مقصد زیارت امام حسین علیه السلام سے لوگوں کو روکنا تھا اس نے سوچا تھا کہ کوئی بھی اس شرط  کے خوف وہراس سے  زیارت کرنے کے لیے نہیں جائے گا اور اس طرح نور الہی خاموش ہو جائے گا جبکہ وہ بھول گیا تھا یہ قوم بھی اس کی چاہنے والی ہے جو دار پر چڑھ کر بھی خاموش نہیں ہوا تھا اس نے شرط تو رکھ دی لیکن  کیا دیکھاکہ۔

اس کے اس اعلان کے باوجود لوگ آتے گئے بارگاہ حسینی میں اپنے ہاتھ کا نذرانہ پیش کرتے گئے یہاں تک کہ ایک ایسی بھی  محب حسین ع آئی جس نے اپنا بایاں ہاتھ آگے بڑھایا
 ہاتھ کاٹنے والے نے کہا کہ امیر کا حکم ہے دایاں ہاتھ کاٹا جائے اس شخص کی بات  پر اس محب حسین نے ایسا جواب دیا جسے سن کر تمام انسان حیران  وسرگرداں رہ گئے اس محب اور زائرہ حسین ع نے مسکرا کر کہا میں نے اپنے دائیں ہاتھ کا نذرانہ تو پچھلے سال ہی خدمت امام ع میں  پیش کر دیا تھا 
اور اس محب کا جواب سن کر متوکل نے حکم دے دیا کہ بغیر ہاتھ کاٹے ہی اسے جانے دو۔
اسکے علاوہ اور بھی کوششیں کی گئیں تاکہ اس نور کو تاریکی کے دلدل میں ڈھکیل سکیں۔
متوکل نے ۲٣٦ اور ۲٤٧ ہجری میں لوگوں کو حکم دیا تھا کہ اپنی اپنی گائے حل کے ساتھ لے کر آئے تاکہ حرم امام علیہ السلام کی بےحرمتی کی جاسکے لوگ اپنے اپنے جانور  لے کر آئیں متوکل نے پانی بھی ڈلوا دیا تاکہ حرم کی بےحرمتی ہو جائے لیکن کیا ہوا نہ گائے نے  قدم آگے بڑھایا اور نہ ہی پانی قبر مطہر تک پہنچا اور وه جس کام کو انجام دے کر اپنے مقصد کی تکمیل سمجھ رہا تھا وہ اس نور کی ضیاء بخشی؛ درخشانی اور نورانیت میں اضافہ کا سبب بن رہا تھا۔
اور وہ کوشش و کاوش جو کل متوکل نے کی تھی آج اس کی نسلوں کی صورت میں داعش، سپاہ صحابہ اور دہشت گرد گروہ کر رہے ہیں ۔ ہم اہل عزاء کو خوف دلاکے ذکر حسین ع بند کرنے کی کوشش و سعی کر رہے ہیں عزاداری پر پابندیاں لگا رہے  ہیں تاکہ سلسلہ ہدایت کو ختم کر دیں نور ہدایت کو خاموش کر دیں اور مقصد حسین کو تاریخ کے سنہرے صفحات سے اٹھا کر وادی عدم کے قبرستان میں دفن کر دیں لیکن تاریخ گواہ ہے جتنا لوگوں نے ذکر حسین ع مٹانا چاہا اتنا ہی حسین مظلوم کا غم کائنات پہ چھاتا گیا اور امام حسین ع نے طوفانوں کی زد پہ جو بہتر چراغ جالائے تھے آج اس کی روشنی و نور کائنات کے ہر گوش و کنار میں بشریت کو پیغام ھدایت دے رہا ہے -

آخر کلام میں کہنا چاہوں گا کہ حسین ابن علی ع کی ذات گرامی نور الھی اور چراغ رشد و ھدایت ہے تو ہماری قوم میں بھی علم کے چراغ جلنے چاہیئے اور ہمیں بھی ھدایت حاصل کرکے لوگوں کے لئے ھدایت کے راستے فراہم کرنا چاہیئے اور اس پر آشوب ماحول میں جہاں تکفیری اور دہشتگردوں نے امت مسلمہ کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی ناکام سازشیں رچی ہیں اس دور جدید میں ضروری ہے کہ حسین ابن علی ع جیسی ذات کہ جو چراغ ھدایت ہے ان کی شخصیت اور پیغام کو اجاگر کیا جائے تاکہ عالم اسلام اور امت مسلمہ فلاح و بہبودی کی طرف گامزن ہو سکے اور اگر آج لوگوں نے  محبت اہلبیت ع میں سرشار ہوکے چراغ ھدایت سے استفادہ کیا ہوتا تو شعور بیدار ہوجاتا اور امیر یزید زندہ باد کا نعرہ نہ لگاتےلہذا ہم تمام اھل مودت کو چاہیے کہ فرش وحدت پہ جمع ہوکے دنیا کے کونے کونے تک پیغام حسینی پہنچائیں اور مصباح ھدایت سے شعور انسانیت کو بیدار کریں ۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .