۳ آذر ۱۴۰۳ |۲۱ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 23, 2024
حافظ و مترجم قرآن مولانا سید فرمان علی طاب ثراہ مرحوم

حوزہ/ برصغیر میں اہل تشیع کا شاید ہی کوئی گھرانہ ایسا ہو جہاں حافظ فرمان علی کا ترجمہ قران اور تفسیر موجود نہ ہو۔ مگر بہت کم لوگ ان کی زندگی کے بارے میں جانتے ہیں حاضر ہے ان کے بارے میں ایک تحقیقی مضمون۔

تحریر: سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری

حوزہ نیوز ایجنسی |

وطن اوراسم گرامی

مولانا مرحوم کا وطن مالوف ریاست بہار کی معروف اور مردم خیز بستی ''چندن پٹی ''ضلع دربھنگہ سادات تھا ،اسی بستی کے ایک غریب مگر با عزت زراعت پیشہ سید خاندان میں متولد ہوئے ۔آپ کا نام سید فرمان علی اور والد کا نام سید لعل محمد بن سید اصغر علی تھا ،آپ کی صحیح تاریخ ولادت معلوم نہ ہوسکی لیکن سن وفات اور مجموعی عمر کے پیش نظر آپ کی پیدائش  1876 کے آس پاس قرار پاتی ہے ۔

مذہبی تعلیم

مولانا فرمان علی صاحب کو بچپن ہی سے مذہبی تعلیم کا بے حد شوق تھا ،اسی لئے اپنے بزرگوں سے شرف تلمذ حاصل کرنے کے بعد مدرسۂ ناظمیہ تشریف لے گئے ،مدرسۂ ناظمیہ لکھنؤ کی تاسیس جمادی الاولی 1308 ہجری بمطابق  1890 عیسوی کو ہوئی تھی اور مولانا مرحوم کے چچا زاد بھائی اور برادر نسبتی مولانا فخر الدین صاحب وہاں کے سب سے پہلے ممتاز الافاضل ہوئے ،بعد کے حلقہ کلاس میں مولانا فرمان علی صاحب اور ان کے ہم درس و احباب تھے جو  1313 ہجری میں فارغ ہوئے ،ان حضرات کے فقہ و اصول کا پرچۂ امتحان اس وقت کے مرجع اعلی سید کاظم یزدی ( صاحب عروة الوثقی ) نے ترتیب دیاتھا اور انہوں نے عربی میں ایسے جوابات تحریر فرمائے کہ آیة اللہ یزدی نے بہت زیادہ تحسین و آفرین سے نوازا ۔
قیام لکھنؤ کے دوران آپ نے علم طب بھی حاصل کیا اور اس میں درجۂ کمال تک پہونچ گئے۔ اس فن میں آپ کے استاد کا نام معلوم نہ ہوسکا ۔

آپ کے ہم عصرعلماء اور ممتاز احباب

آپ کے ہم عصر اور قریبی دوستوں میں جناب مولانا سید سبط حسن جائسی صاحب،جناب مولانا سید ہارون صاحب اور جناب مولاناسید محمد داؤد صاحب زنگی پوری کے اسمائے گرامی کافی نمایاں ہیں ،ان چاروں حضرات کے آخری سالانہ امتحان ''ممتاز الافاضل'' کی کاپیاں جانچ کی غرض سے عراق بھیجی گئیں، ان کے جوابات دیکھ کر وہاں کے علماء بالخصوص آیة اللہ یزدی مرحوم نے بہت زیادہ تعریف و تحسین سے نوازا اور ان کے جوابات کو حد درجہ مافوق صلاحیت کا مظہر قرار دیا ،یہ ایسے طلبہ تھے جن کے سبب اس مدرسہ کے پرنسپل نجم الملة جناب مولانا سید نجم الحسن صاحب قبلہ کی عزت افزائی ہوئی اور انہیں ''اجتہاد'' کی اعزازی ڈگری ملی ،ان طلاب کی کاپیاں دیکھ کر اس زمانے کے اعلم نے اس اعتراف کے ساتھ کہ ''جو شخص اتنے اعلی درجہ کے تلامذہ کی تربیت کر سکتاہے اسے ہندوستان میں میرا نائب ہونا چاہیئے ''مدرسۂ ناظمیہ کے پرنسپل کو ''اجتہاد'' کی سند عنایت فرمائی ۔
مدرسۂ سلیمانیہ کے قیام کے دوران بھی آپ کے احباب کی نشاندہی ہوتی ہے ۔آپ کے ایک سنی دوست''مولوی رحمة اللہ '' بھی تھے جن کا تذکرہ ذیلی سرخی کے تحت آگے آئے گا ۔

تدریس و ملازمت

آل انڈیا شیعہ کانفرنس کی تحریک پر  9 ربیع الاول  1323 ھ بمطابق 17 مئی 1905ءکو مدرسۂ سلیمانیہ پٹنہ سیٹی میں ایک دینی درسگاہ کی بنیاد رکھی گئی ،متولی وقف اسٹیٹ جناب بادشاہ نواب رضوی کی خواہش پر مولانا فرمان علی صاحب قبلہ نے اس کے پہلے پرنسپل کا عہدہ قبول کر لیااور اس وقت ایک دینی اور مذہبی درسگاہ کی ضرورت کے پیش نظر اسے مفید بنانے میں منہمک ہوگئے ،آپ نے ایک بہترین علمی نصاب ترتیب دیا ،قابل اساتذۂ کرام کو تدریس کی دعوت دی اور خود بھی تدریس کا فریضہ انجام دیا ۔چنانچہ آپ نے چند ہی مہینوں میں مدرسہ کو اس درجہ ترقی دی کہ'' جب مدرسہ سلیمانیہ کا چوتھا سالانہ اجلاس ہوا تو اس میں انگریز کمشنر بھی موجود تھے ،صاحب بہادر نے آپ کی بے حد تعریف کی اور کہا کہ میں نے ایسی عمدہ تعلیم گاہ پہلی بار دیکھی ہے جو بغیر سرکاری امداد کے چل رہی ہے ،نصاب مدرسہ کو بھی دل سے پسند کیا ،وہ بار بار مدرسہ کی تعریف اور اپنی دلی مسرت کا اظہار کرتے رہے'' ۔
آپ نے کچھ سال تک یہ خدمت انجام دی اور اپنی تدریس اور ملازمت کے دوران مایہ ناز شاگرد وںکی تربیت کی ۔آج بھی بالواسطہ یا بلا واسطہ آپ کے شاگردوں کے توسط سے آپ کے علم و فن کی خوشبو محسوس کی جاسکتی ہے ۔
مدرسۂ سلیمانیہ کو خیر اباد کہنے کے بعد آپ مظفر پور تشریف لائے اور وہاں حکمت و طبابت شروع کی اور چند ہی دنوں میں آپ کی شہرت دور دور تک پھیل گئی ۔بیان کیا جاتاہے کہ آپ کی طبابت کے زمانے میں انگریز ڈاکٹروں کی پریکٹس بھی ماند پڑ گئی تھی ۔

آپ کے تلامذہ

مولانا فرمان علی صاحب کے تلامذہ پردۂ خفا میں ہیں ،ان کے متعلق زیادہ معلومات حاصل نہ ہو سکی لیکن جن کے متعلق معلوم ہو سکا ان کی علمی صلاحیت اور زہد و تقوی کے پیش نظر ان کے استاد محترم کی شخصیت اور تبحر علمی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے ،یہاں بعض کا تذکرہ کیاجارہاہے :
1۔استاد الواعظین علامہ سید عدیل اختر صاحب (سابق پرنسپل مدرسة الواعظین لکھنؤ )
2. مولوی سید محمد صاحب ،آپ ہمیشہ مولانا مرحوم کی شاگردی پر فخر و مباہات کرتے اور بڑے عزت و احترام سے اپنے استاد کا نام لیتے تھے ۔
3۔ مولانا پروفیسر سید اعجاز حسین جعفری صاحب بھی آپ کے شاگرد رشید تھے ،آپ ڈھاکا (بنگلہ دیش ) کی یونیورسٹی میں شعبۂ عربی کے صدر تھے انہوں نے اپنی ذہانت، حاضر جوابی اور علمیت سے اپنے استاد محترم کا نام روشن 
4۔مولانا غلام مصطفی صاحب گوپال پوری،آپ اپنے استاد محترم کی تحریک پر پٹنہ آئے اور مدرسۂ سلیمانیہ کے مدرس مقرر ہوئے ، پھر ترقی کر کے اسی مدرسہ کے پرنسپل ہوئے ،آپ معقولات کے ماہر سمجھے جاتے تھے ۔

شخصیت کی خوبیاں اور عادات و اطوار

مولانا مرحوم کی زندگی اور عادات واطوار کا بغور مطالعہ کرنے سے یہ بات نصف النہار کی طرح آشکار ہوجاتی ہے کہ آپ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے ،ذیل میں آپ کی زندگی کے بعض نازش آفریں نمونے پیش خدمت ہیں:

1۔ سادگی و خاکساری

مولانا مرحوم سادگی اور خاکساری کی منھ بولتی تصویر تھے ،آپ نہایت سادہ زندگی بسر کرتے تھے ،مظفر پور کی پریکٹس کے زمانے میں بھی اپنا کام خود کرتے تھے ،غریب رشتہ داروں اور طالب علموں کے ساتھ بے تکلف زمین پر بیٹھ جاتے اور ان کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے تھے ،اپنے ہم وطنوں سے بستی کی مقامی بولی میں گفتگو کرتے تھے ،اسی لئے وہ سب کے محبوب تھے۔ علاقہ میں سب سے پہلی سائیکل انہوں نے خریدی ،اس وقت مظفر پور اور دربھنگہ کے درمیان ریل نہیں تھی اسی لئے ستر کلو میٹر کا سفر وہ سائیکل سے کرتے تھے :
خاکساران زمانہ کو حقارت سے نہ دیکھ
یہ بڑے لوگ ہیں جینے کا ہنر جانتے ہیں

2۔ عزت نفس اور خوداری

سادگی اور خاکساری کے باوجود مولانا مرحوم میں عزت نفس اور خوداری بدرجۂ اتم موجود تھی ،مندرجہ ذیل واقعہ اس کا بین ثبوت ہے :ایک بار مولانامرحوم کی اکلوتی بیٹی کی بیماری کی خبر آئی ،آپ نے دربھنگہ جانے کے لئے چھٹی کی درخواست دی ،جسے مدرسہ کے سکریٹری نے منظور نہیں کیا ،آپ نے درخواست کی پشت پر اپنا استعفی لکھ کر بھیج دیا اور گھر چلے آئے ،یہ خبر مذہبی اور سماجی حلقوں میں پھیلی تو پورے عظیم آباد میں تہلکہ مچ گیا ،لوگ ان کو راضی کرنے کے لئے چندن پٹی تک آئے لیکن آپ نے چھوڑی ہوئی جگہ پر واپس جانا گوارا نہیں کیا۔

3۔حق پسندی اور رعب و دبدبہ

مولانا مرحوم کی اقربا نوازی کے ساتھ ساتھ آپ کی حق پسندی اور انصاف پروری بھی زباں زد خاص و عام تھی ،ایک واقعہ ملاحظہ ہو :
ایک بار ایک شکاری کی چڑیا چھین لینے کا واقعہ پیش آیا ،فریادی نے ان کے ایک رشتہ دار کے بیٹے کا نام بتایا ،آپ نے شکار کو اپنی جیب سے معاوضہ ادا کر کے رخصت کر دیا اور اس لڑکے کے ہاتھ پر آگ رکھوا دی ۔اتنے بڑے واقعہ پر کسی کو زبان کھولنے کی ہمت نہ ہوئی ، رعب کا یہ عالم تھا ۔
اس کے علاوہ آپ کے اندر خدمت خلق کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا ،آپ کو اپنے علمی کاموں اور حکمت و طبابت سے جب بھی موقع ملا لوگوں کی مدد کی ،اس زمانہ میں علماء کی بہت زیادہ قدر و قیمت تھی اس لئے نوابین کے دربار میں، مومنین اہل بستی کی سفارش سے ذرا بھی دریغ نہیں کرتے تھے ۔

شادیاں اور اولاد  

آپ کی شادی آپ کے چچا سید ظہیر الدین ابن سید اصغر علی کی صاحبزادی ''کنیز سیدہ ''سے ہوئی تھی ،جو مولانا سید فخر الدین کی بہن تھیں ،کئی اولادوں میں صرف ایک بیٹی ''بی بی ہاجرہ ''زندہ رہیں ۔اولاد نرینہ کی تمنا میں مولانا مرحوم نے محلہ کمرہ مظفر پور میں ایک بیوہ مومنہ سے بھی شادی کی تھی مگر ان سے بھی صرف ایک بیٹی پیدا ہوئی جو کم سنی میں انتقال کر گئی۔مولانا مرحوم کے انتقال کے بعد بی بی ہاجرہ کی شادی مولانا سید صغیر حسن صاحب ملک پوری سے ہوئی جو مدرسہ سلیمانیہ میں مدرس اعلی تھے ۔
مولانا فرمان علی صاحب کی اولاد میں صرف دو نواسے اور تین نواسیاں ہیں ۔

حفظ قرآن کا حیرت انگیز کارنامہ:

وطن اور مذہب کی محبت ایک فطری امر ہے بلکہ مذہبی تعصب و محبت وطن پر غالب ہے اس لئے کہ اگروطن کی محبت جزو ایمان ہے تو مذہب سے محبت اور اس کا دفاع عین ایمان ہے،اسی لئے دیندار اور بافہم افراد اپنے مذہب کی حفاظت میں کوئی سودے بازی نہیں کرتے ۔ علماء بھی دین و مذہب کے ارکان و ستون ہیں ،طول تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے مذہب کے دفاع اور اس کی حفاظت میں اپنا گھر بار حتی اپنی جان کی بھی بازی لگا دی اور مذہب کو سر بلند رکھنے کی پوری پوری کوشش کی ۔انہیں مدافعین مذہب میں ایک نام مولانا فرمان علی صاحب کابھی ہے ،آپ نے اپنے مناظروں اور بے شمار دندان شکن مضامین کے ذریعہ شیعیت کی حقانیت کا غیروں سے لوہا منوایا ۔حفظ قرآن کا واقعہ بھی ''دفاع تشیع ''کی ایک عمدہ کڑی ہے ۔
مظفر پور کے قیام کے زمانے میں مولانا مرحوم مدرسۂ جامع العلوم مظفر پور کے مدرس اعلی مولانا رحمة اللہ صاحب کے پڑوس میں رہتے تھے ،دونوں میں کافی بے تکلفی تھی ۔ایک بار مولانا رحمت اللہ صاحب نے مذاق میں کہا کہ'' شیعوں میں حافظ نہیں ہوتے'' ۔ظاہر ہے مولانا مرحوم جیسے مدافع مذہب یہ بات کہاں برداشت کرنے والے تھے، آپ نے اسی دن سے حفظ کرنا شروع کر دیا ۔عام طور پر سن شعور کو پہونچنے کے بعد حفظ کرنا مشکل سمجھا جاتاہے لیکن آپ نے اپنی خداداد ذہانت کے ذریعہ صرف پانچ مہینے کی مختصر مدت میں حفظ قرآن مکمل کر لیا ۔اس حیرت انگیز کارنامہ کو دیکھنے کے لئے ہندوستان بھر کے قاری ،عالم اور حافظ جمع ہوئے اور سبھوں سے مولانا فرمان علی صاحب نے اپنی خداداد ذہانت و یادداشت کا لوہا منوالیا ،اس کارنامے کا ایک عجیب پہلو یہ بھی تھا کہ جس طرح آپ سورۂ ''الحمد ''سے سورۂ ''الناس'' تک سنا سکتے تھے اسی طرح سورۂ ''الناس ''سے سورۂ ''الحمد ''تک سنا سکتے تھے ۔مولانا کو اپنے کمال علم کے ساتھ حفظ کے مقابلوں اور مناظروں میں دور دور تک جانا پڑا تھا ،اس سلسلے میں غالباً وہ پہلی مرتبہ پنجاب میں اس وقت گئے جب قادیانیوں سے قادر آباد گجرات میں مناظرہ ہوا۔

ترجمۂ قرآن ،ایک انمول تحفہ

اگر مولانا مرحوم کی زندگی کے تمام تر کارناموں کا بغور جائزہ لیاجائے تو معلوم ہوگاکہ جس چیز نے آپ کو شہرۂ آفاق اور زندۂ جاوید بنایا وہ ''قرآن مجید کا ترجمہ ،حواشی اور تفسیر ''ہے ،بلکہ اگر آپ کی علمی ، مذہبی، معاشرتی اور تبلیغی زندگی کاخلاصہ کیاجائے تو وہ ترجمہ اورتفسیر قرآن میں سمٹ آئے گا ،آپ نے بھی اس کا برملا اظہار فرمایاہے ۔ یہ عبارت ملاحظہ ہو :
''...اور خدا کی بارگاہ میں نہایت عاجزی سے عرض ہے کہ اِس کو میری مغفرت کا ذریعہ قرار دے اور جس وقت اور جس روز ہر شخص کے ہاتھ میں اس کا نامۂ اعمال ہو میرے داہنے ہاتھ میں قرآن ہو ''۔(مقدمۂ قرآن )
حیرت ہوتی ہے کہ ایک دیہات کے رہنے والے کی زبان میں ایسی شستگی ،سلاست اور معنی خیزی کہاں سے آگئی اور ایسی کوثر کی دھلی ہوئی زبان ان کو کہاں سے مل گئی کہ مرزا محمد ہادی عزیز لکھنوی جیسے استاد فن نے ترجمہ ٔ قرآن کو دیکھ کر کچھ اس طرح اپنے جذبات و تاثرات کا اظہار کیا :
''میں اس ترجمہ کا بے حد مشتاق تھا ،میرا عقیدہ یہ ہے کہ اگر کتاب اللہ اردو میں نازل ہوتی تو آپ کے ترجمہ میں اور اس میں ایک نقطہ کا فرق نہ ہوتا یہ تو خود مسلسل ایک کتاب معلوم ہوتی ہے ترجمہ اور ترجمہ میں یہ سہولت و فصاحت ہم نے نہ سنی نہ دیکھی،خدا وندعالم آپ کو زندہ رکھے اور ایسے ہی معجزات آپ سے ظہور میں آتے رہیں''۔

حضرت عزیز لکھنؤی کے ان الفاظ میں خالص شاعرانہ انداز اور ادبی ذوق کار فرماہے ،آپ نے مذکورہ جملوںکو اپنے جذبات و احساسات اور والہانہ پن کے اظہار کا وسیلہ قرار دیاہے ،ورنہ حقیقت کے آئینہ میں دیکھا جائے تو نزول قرآن کے وقت اردو زبان و لغت کا تصور ہی مضحکہ خیز ہے ،کہاں نزول قرآن کا زمانہ اور کہاں اردو ۔ لیکن اس وقت کے لکھنؤ کے ادبی ماحول کو پیش نظر رکھ کر اگر ان کے ان جملوں کا تجزیہ کریں تو مولانا فرمان علی صاحب کا کمال علم و ادب پوری طرح آشکار ہوجائے گا ۔ اس وقت مجھے حضرت میر انیس کا ایک مصرع یاد آرہاہے :
ع:نمک خوان تکلم ہے فصاحت میری
یہ حقیقت ہے کہ جب بھی دنیائے اردو میں شعر وسخن کی بزم سجائی جائے گی تو میر انیس کی زبان و ادب کے متعلق احساسِ قدردانی انگیز کر کے انہیں خراج تحسین و عقیدت پیش کیاجائے گا ۔میر انیس نے اپنی شاعری میں ایسی شستہ اور سلیس زبان استعمال کی ہے کہ زمانہ بدلتا رہے گا لیکن زبان کی یہ شستگی او ر سلاست اپنی جگہ پر قائم و دائم رہے گی ،اسی لئے حضرت جوش ملیح آبادی نے کہاتھا :''اردو شاعری زمانہ بدلنے کے ساتھ کوئی بھی شکل اختیار کر لے مگر اردو زبان ہمیشہ انیس کی محتاج رہے گی''۔

مولانا فرمان علی صاحب کا ترجمہ بھی اردو زبان و ادب کا ایک بہترین شاہکار ہے ،آپ نے اس میں ایسی سلیس اور عام فہم زبان استعمال کی ہے کہ ایک مرتبہ پڑھنا شروع کیجئے تو پھر پڑھتے ہی رہئیے ،عربی زبان سے واقفیت کے بعد ترجمہ کا لطف تو اور بھی دو بالا ہوجاتاہے ،ذرا یہ آیت اور اس کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیے:
ا َکَفَرْتُمْ بَعْدَ ِایمَانِکُمْ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُون
''ہائیں! کیوں؟ تم تو ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے تھے ،اچھا تو (لو اب ) اپنے کفر کی سز ا میں عذاب ( کے مزے ) چکھو ''۔

اسی انداز بیان اور سلیس زبان نے مولانامرحوم کو دوسرے مترجمین سے ممتاز بنادیاہے ،اس منفرد زبان کو دیکھ کر یہ کہاجاسکتاہے کہ زمانہ بدلتا رہے گا لیکن میر انیسکی شاعری کی طرح ترجمۂ قرآن کی یہ زبان بھی ہمیشہ زندہ رہے گی ۔
مولانا ابن علی واعظ صاحب کے یہ الفاظ یقیناً حقیقت پر مبنی ہیں :
'' ضرورتیں بدلیں گی یا زمانے کے ساتھ بڑھیں گی اور ترجمہ اور تفسیر قرآن کی ضرورت پڑے گی مگر اردو ترجمہ ٔ قرآن مولانا فرمان علی کے رواں ،سہل اور شیریں ترجمہ کی طرح اب نہیں ہوسکتا ۔اگر یہ دعوی صحیح ہے توہم کہہ سکتے ہیں کہ مرثیہ ٔ انیس کی طرح ترجمۂ فرمان بھی اردو زبان کے ساتھ زندہ رہے گا یایوں کہئے کہ مرثیہ انیس اور ترجمۂ فرمان علی کے سایہ میں اردو زبان زندہ رہے گی ۔اسے ختم کرنے کی بات سوچنا گونگے کے خواب سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا''۔
در اصل اس ترجمہ میں آپ نے اپنے علم اور فہم وفراست کے ساتھ ساتھ اپنا دل اور خلوص بھی لگا دیا تھا،چنانچہ اسی خلوص کا نتیجہ ہے کہ آج ہندو پاک ،بنگلہ دیش ،انگلینڈ ،امریکہ ،افریقہ غرض ساری دنیا کا ہر اردو داںمسلمان عموما ً اور شیعہ خصوصاً ان کے کمال کا معترف ہے اور بارہا اس ترجمہ کی اشاعت ہو رہی ہے ۔ خدا یا!اس ترجمۂ قرآن سے بھرپور استفادہ کرنے کی توفیق کرامت فرما ۔

آپ کے قلمی جواہر پارے
ترجمۂ قرآن کے علاوہ مولانا مرحوم کے جن قلمی جواہر پاروں کا پتہ لگایا جاسکا ان کی فہرست کچھ اس طرح ہے :

1.کتاب النحو (مطبوعہ )
2. کتاب الصرف (مطبوعہ )
3. الولی
اہل حدیث کے نامور عالم مولوی ثناء اللہ امرتسری ایڈیٹر اہل حدیث ( امرتسر) سے آیۂ ولایت کی تفسیر پرآپ سے تحریری مناظرہ ہوتا رہا جو اہل حدیث اور اصلاح میں چھپتا رہا ،ادارۂ اصلاح نے ان مضامین کا مجموعہ ''الولی ''کے نام سے شائع کیا ۔
4۔ کتاب دینیات (چار جلدیں)
مدرسۂ سلیمانیہ کے نصاب کی ترتیب کے سلسلہ میں آپ نے اردو دینیات کی چار کتابیں لکھیں جن میں تین طبع ہوئیں اورمقبولیت کے پیش نظر اب بھی اکثر شائع ہوتی رہتی ہے ۔
5. سوانح عمری جناب فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا ( غیر مطبوعہ )
6. فدک ( غیر مطبوعہ )
ان کے علاوہ آپ کے بے شمار دندان شکن مضامین بھی آپ کے قلمی جواہر پاروں میں شامل ہیں ۔

وفات

1916عیسوی میں مظفر پور میں ہیضہ کی وبا آئی جس میں آٹھ دن مبتلا رہ کر مولانا فرمان علی صاحب نے  4 رجب 1334ہجری بمطابق 7 مئی  1916 عیسوی کو رحلت فرمائی ،کمپنی باغ مظفر پور کربلا آپ کی آخری آرام گاہ قرار پائی ۔
جناب صفی لکھنوی نے آپ کی تاریخ وفات کہی  :
فکر نے کوہ کنی کی تو یہ نکلی تاریخ
ایک الحمد کو ہے حافظ قرآں محتاج

جناب عروج فیض آبادی کا قطعۂ تاریخ ہے :
جابسے جنت میں فرمان علی حق پسند
پائی جب آواز طبتم فادخلوھا خالدین

مصادر :
1۔ خورشید خاور ؛ مولانا سید سعید اختر صاحب گوپال پوری
2۔ مطلع انوار ؛ مولانا سیدمرتضی حسین صدر الافاضل ؛مترجم :ڈاکٹر محمد ہاشم
3۔ مفسر نور؛مرتبہ :ڈاکٹر عظیم امروہوی
4۔ الناصر، پٹنہ ( خصوصی اشاعت )
5۔مقدمۂ ترجمۂ قرآن ؛حافظ مولانا سید فرمان علی صاحب
6 ۔مختلف افراد سے انٹرویو
7۔ ذاتی معلومات

تبصرہ ارسال

You are replying to: .