۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
News ID: 362701
17 ستمبر 2020 - 22:14
مولانا سید حمید الحسن زیدی

حوزہ/ کربلا جہاں بیداری، ہوشیاری، سمجھداری اور دین اسلام کے تئیں حسن تدبر کی بہترین مثال ہے وہیں بے سوچے سمجھے غافل اذہان کے حامل نام نہاد مسلمانوں کے جاہلانہ ایمان و کردار کی ترجمان بھی، اس پورے واقعہ میں دو متقابل اور متضاد کردار ہیں۔

تحریر: مولانا سید حمید الحسن زیدی،مدیر الاسوہ فاؤنڈیشن سیتاپور 
       
حوزہ نیوز ایجنسی| دین اسلام ہر شخص کو ہوشیار، واقف کار اور سمجھ دار دیکھنا چاہتا ہے۔ اس کے پہلے پیغام کا اعلان ’’اقرأ‘پڑھو ‘‘کی صورت میں ہوا ہے اور پھر ساری زندگی تدبر و تفکر، غور و فکر اور عقل کے استعمال کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ قرآن مجید میں بہت سے ایسے پیغامات ہیں جن کا تعلق انسان کے عقائد و نظریات سے ہے اور انہیں غور و فکر کی دعوت کے ضمن میں بیان کیا گیا ہے۔ کائنات میں پائے جانے والے مختلف مظاہر قدرت میں دعوت فکر اور پھر اس کے نتیجہ میں اپنے عقائد و نظریات کی تعمیر قرآن مجید کا سب سے اہم پیغام ہے۔ 

افلا یتدبرون ،افلا یعقلون، لعلکم تعقلون جیسے کلمات اسی پیغام کی طرف متوجہ کرنے کا ذریعہ ہیں۔ قرآن مجید کے بعد احادیث پیغمبر اسلامؐ اور ائمہ معصومین ؑمیں بھی غور و فکر کی دعوت پر بہت زور دیا گیا ہے یہاں تک اعلان ہے کہ فکر ساعۃ افضل من عبادۃ سنۃ یا بعض روایات میں میں سبعین  سنۃ ۔ ایک ساعت کی غور و فکر ایک سال یا بروایتے ستر سال کی عبادت سے بہتر ہے۔ 

فکر و نظر کی دعوت اور اس کی اہمیت کاراز شاید یہ ہے کہ غور و فکر کرنے کے بعد عبادت کرنے میں معبود کی عظمت و جلالت کے تئیں جو عجز و انکساری کی کیفیت پیدا ہوتی ہے وہ بلا سوچے سمجھے سر جھکا دینے میں ہرگز نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ سمجھ کر ماننے کے بعد کسی دوسری طاقت سے متاثر ہو کر بآسانی گمراہ ہونے کا بھی امکان نہیں رہتا جبکہ اگر بغیر کسی غور و فکر اور تجزیہ و تحلیل کے کسی امر کو مان لیا جائے تو بعد میں پیش آنے والے شکوک  و شبہات اس عقیدہ کے تئیں بیزار بنا دیتے ہیں یا بعض اوقات دنیا کی ہویٰ و ہوس صحیح نظریات کو پس پشت ڈال کر باطل عقائدو اعمال کی بے جا توجیہ پر آمادہ کر دیتی ہے۔ 

ہویٰ و ہوس کی طرح خوف و دہشت اور مصائب و آلام بھی صحیح عقائد و نظریات سے منحرف کر دینے کا ذریعہ بن جاتے ہیں اور ایک سیدھا سادھا متدین دکھنے والا انسان جس نے بغیر سوچے سمجھے دین و دیانت کا لبادہ اوڑھ لیا تھا اپنے اعمال و حرکات سے نہ صرف بے دینی کا مظاہرہ کرتا ہے بلکہ اصل دین کو بھی نقصان پہنچاتا ہے اور اسے دیکھ کر لوگ اس کے پاکیزہ دینی عقیدہ سے دور ہونے لگتے ہیں اور اس طرح بظاہر اس کی انفرادی نادانی اور غفلت اجتماعی گمراہی کا ذریعہ بن جاتی ہے جس کے نتیجہ میں جانے انجانے میں ایسے انسان سے جس نے اپنی غفلت و کوتاہی کی بنا پر دین کو بدنام کیا ہے ایسا ناقابل تلافی عمل سرزد ہو جاتا ہے جس کے سنگین نتائج کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا ہے۔

دنیا میں خدائی نظام ہدایت میں کسی ایک شخص کی ہدایت پورے سماج کی ہدایت شمار ہوتی ہے اس لئے کہ قیامت تک اس ہدایت یافتہ انسان سے ہدایت پانے والے افراد کی ہدایت میں اس پہلے ہادی کی ہدایت کے اثرات پائے جاتے رہیں گے۔

بالکل اسی طرح ایک شخص کی گمراہی پورے سماج کی گمراہی قرار دی جاتی ہے اس لئے کہ بعد میں آنے والے گمراہوں کی گمراہی میں اس پہلے گمراہ کرنے والے کے غلط اقدامات کا اثر محفوظ رہ جاتا ہے۔

ایسی صورت حال میں دین و سماج سے وابستہ ہر شخص کی ذمہ داری ہے کہ جاگے، سوچے، متوجہ ہو اور متوجہ رہے کہ جو کچھ مان رہا ہے، جس دین سے وابستہ ہے، جن قوانین کو اپنے لئے دستور حیات قرار دیا ہے انہیں سمجھے، ان کی دلیلیں تلاش کرے، ان میں غور و فکر کرے ، ان کے سلسلے میں درپیش شبہات کا مدلل حل تلاش کرکے ان شبہات کا سد باب کرے اور پھر جب اچھی طرح سمجھ لے تب ایمان لے آئے اور اب یہ طے کرے کہ ہم نے جس راہ کا انتخاب کیا ہے اگر یہ حق ہے تو اب اس کے سامنے چاہے جو نظریہ آ جائے ، چاہے جیسی دلچسپ گفتگو کی جائے، چاہے جیسے مصائب و مشکلات سامنے آئیں اس سے کسی طرح دست بردار نہیں ہونا ہے اور اس راہ میں ہر بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لئے تیار رہنا ہے چاہے وہ قربانی خواہشات و تمایلات نفسانی کی ہو یا مصائب و آلام برداشت کرنے کی۔ دین اسلام ایک سچے مسلمان کو ایسا مسلمان دیکھنا چاہتا ہے جو اپنے دین، اپنے عقائد ، اپنے نظریات اور پھر اپنے دین کے احکام و اعمال کے لئے دنیاوی مصائب و آلام سے گذر کر منزل شہادت تک پہنچنے میں ذرہ برابر ہچکچاہٹ محسوس نہ کرے۔ علامہ اقبالؔ کا مشہور شعر:

یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے

لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

اسی حقیقت کا ترجمان ہے انسان کی زندگی میں سب سے قیمتی شئے اس کی جان ہی ہوتی ہے جس کے بچانے کے لئے وہ اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار رہتا ہے لیکن فکر و نظر کے بعد دین و ایمان سے وابستہ انسان اپنے اس سب سے قیمتی سرمایہ یعنی سرمایۂ حیات کو اپنے دین کے لئے قربان کر دیتا ہے اور اس طرح اس کا خون اس کے دین و ایمان کی آبیاری کا ذریعہ بن کر ساری انسانیت کو رشد و ہدایت کا ایسا پیغام دیتا ہے جو نسلوںاور قوموں کو بیدار، ہوشیار اور سمجھ دار بنانے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔

اعلیٰ ترین مثال

 بیداری، ہوشیاری، سمجھداری اور غور و فکر کے بعد دین و دیانت سے وابستگی کی سب سے عظیم مثال واقعہ کربلا ہے جہاں ہر حسینی اپنے دین و ایمان سے اتنا مطمئن ہے کہ اس کے لئے جان کا نذرانہ پیش کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لینے کے لئے پر عزم دکھائی دیتا ہے اور دنیا کے سارے راحت و آرام کو چھوڑ کر مصائب و آلام کے پہاڑ سے ٹکرا کر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے دین و دیانت کی پاسبانی اور قوموں کی بیداری کا ذریعہ بنتا ہے۔

کربلا جہاں بیداری، ہوشیاری، سمجھداری اور دین اسلام کے تئیں حسن تدبر کی بہترین مثال ہے وہیں بے سوچے سمجھے غافل اذہان کے حامل نام نہاد مسلمانوں کے جاہلانہ ایمان و کردار کی ترجمان بھی ۔ اس پورے واقعہ میں دو متقابل اور متضاد کردار ہیں۔

حسینی قافلہ کے حسن تدبرکی اعلیٰ مثالوں کے ساتھ ساتھ لشکر یزید کی بے خبری، لا پرواہی اور اس کے نتیجہ میں بے دینی کی بھی نمایاں مثالیں ہیں ۔ واقعہ کربلا کے دونوں کردار انسانی ذہن و دماغ کو جھنجھوڑنے اور اسے متوجہ کرنے کا ذریعہ ہیں اوراب یہ انسان پر ہے کہ مجاہدین کربلا کی طرح بیداری، ہوشیاری اور سمجھداری کا ثبوت دے کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سرخرو ہو جائے یا غافل اور بے دین نام نہاد مسلمانوں کی طرح ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دین و دنیا دونوں میں بدبختی کی علامت بن جائے۔

کربلا کے یہ اہم پیغامات ہر آزاد ضمیر انسان کو اپنے تئیں متوجہ کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے اور ہر ہوشیار اور آزاد ذہن اگر اس عظیم واقعہ سے دین و دیانت کا پیغام نہ بھی لے سکے تو کم سے کم آزادی اور جوانمردی کا درس ضرور لیتا ہے اور اس عظیم واقعہ کو نظر میں رکھ کر جد و جہد کرنے والے آخر اپنی منزل پا لیتے ہیں ۔

ہمارے ملک کی برطانوی استعمار کے چنگل سے آزادی اور اس میں جمہوری اقدار کے نفاذ میں واقعہ کربلا کے پیغامات کا نمایاں اثر ہے جس کا اعتراف جنگ آزادی سے وابستہ مجاہدین آزادی نے کیا ہے۔

ملک کی آزادی اور جمہوریت کے نفاذ میں پیش پیش رہنے والے بزرگ مجاہدین آزادی نے آزادی کے حصول کے ساتھ ساتھ آنے والی نسلوں کو یہ پیغام بھی دیا ہے کہ آزادی کے حصول کی طرح آزادی اور جمہوریت کی بقا کے لئے بھی تحریک کربلا کو نظر میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ 

کربلا ہمیشہ ہر جگہ ہر شخص کے لئے بیداری، ہوشیاری، سمجھداری اور آزادی کا پیغام ہے۔ اس پیغام کو نظر میں رکھ کر ہر شخص کی ذمہ داری بنتی ہے کہ جاگے اور جاگتا رہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ غفلت و بے خبری میں کسی شیطانی سازش کا شکار ہو جائے اور پھر ایسا شیطانی عمل سرزد ہو جائے جو پورے سماج کو شرمسار کر دے۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .