حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لاہور/ قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے21 رمضان المبارک امیر المومنین حضرت علی ؑ ابن ابی طالب ؑ کے روز شہادت پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ دیگر فضائل و مناقب اپنی جگہ خانہ کعبہ میں ولادت اور مسجد کوفہ میں شہادت جیسی فضیلت اور امتیاز امیر المومنین ‘ وصی پیغمبر خدا کے حصے میں آیا ۔ انکی ذات کا ایک منفرد پہلو عدل و انصاف کا نفاذ ہے جو انہیں دنیا کے تمام سابقہ اور آئندہ حکمرانوں سے جدا اور منفرد کرتا ہے آپ نے عدل و انصاف کا معاشروں، ریاستوں، تہذیبوں، ملکوں، حکومتوں اور انسانوں کے لیے انتہائی اہم اور لازم ہونا اس تکرار سے ثابت کیا کہ عدل آپ کے وجود اور ذات کا حصہ بن گیا اور لوگ آپ کو عدل سے پہچاننے لگے۔ ذاتی امور اور حکومتی معاملات کے لئے الگ الگ چراغ جلا نے اور اپنے حقیقی بھائی کو بیت المال سے صرف جائز حق سے زیادہ نہ دینے سے لے کر اپنے ملک اور معاشرے میں عدل اجتماعی نافذکرنے تک آپ کی پوری زندگی عدل سے مزین رہی اور آپ نے گھر سے لے کر معاشرے اور حکمرانی تک عدل و انصاف کے معاملات میں کبھی مصلحت سے کام نہیں لیا ۔ اسی عدل کے سبب آپ ؑ کی شہادت واقع ہوئی ہے۔
علامہ ساجد نقوی نے مزید کہا کہ رسول خدا سے براہ راست رشتے، تعلق‘ تربیت‘ سرپرستی اور بچپن سے لیکر زندگی کے تمام مراحل تک جلوت و خلوت میں قرابت کا سبب ہے کہ امیرالمومنین ؑ کی زندگی تعلیمات قرآنی اور سیرت رسول اکرم کا عملی نمونہ اور روشن تفسیر کے طور پر موجود ہے۔ اسی تربیت کی وجہ ہے کہ امیرالمومنین ؑ کا دور حکومت بہت سارے بحرانوں کے باوجود کامیاب دور حکومت تھا۔ اگرچہ تاریخ کو مسخ کرتے ہوئے اور حقائق پر پردہ ڈالتے ہوئے امیر المومنین ؑ کے تاریخی اور انقلابی اقدامات کو چھپانے کی بہت کوششیں کی گئےں لیکن تاریخ کے جھروکوں سے وہ تمام کامیابیاں اور اصلاحات آج بھی نظر آرہی ہیں۔ امیرا لمومنین ؑ نے سیاسی ، معاشی، سماجی ،تہذےبی اور تعلیمی وغےرہ تمام میدانوں میں جو اقدامات اور اصلاحات کیں وہ تمام ادوار اور تمام رےاستوں کے لیے نمونہ عمل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آپؑ نے اپنے دور حکومت میں مثبت اور تعمیری سیاست کی داغ بیل ڈالی۔ حزب مخالف کی سازشوں اور منفی حربوں کا حکمت عملی ، دانش مندی اور مسلمانوں کے اجتماعی مفاد کو دیکھتے ہوئے مقابلہ کیا حکمرانی کا خدمت کا ذریعہ اور خداکی طرف سے عطا کردہ امانت قرار دیا اور اس کی ایسے ہی حفاظت کی جس طرح خدا کی امانتوں کی حفاظت کی جاتی ہے اگردنیا کے تمام حکمران جدےد عصر کے تقاضوں کو مد نظر رکھ کر صرف عدل علی ؑ کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے نظام آگے بڑھا ئیں بالخصوص مسلمان ممالک اگر عدل علی کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں تو پورے دنیا سے ظلم و جبر اور زیادتی وتجاوز کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔
قائد ملت جعفریہ پاکستان کے مطابق علوی سیاست کا یہ امتیاز رہا ہے کہ امیر المومنینؑ نے حکومت کا حصول کبھی ہدف نہیں سمجھا بلکہ اپنے اصلی اور اعلی ہدف تک پہنچنے کا ذریعہ قرار دیا۔ اس حوالے سے آپ کا ایک معروف قول ہے کہ ”میرے نزدیک حکومت ایک پھٹے پرانے جوتے سے بھی کم تر حیثیت رکھتی ہے مگر اس صورت میں جب اس کے ذریعے کسی حق کو قائم کرسکوں اور کسی باطل کا خاتمہ کرسکوں“ ذاتی نوعیت کے مسائل پر گفتگو کے لئے بیت المال کے چراغ کو ہٹاکر حضرت کا اپنے گھر سے چراغ منگوانا حکمرانوں کے لئے ایک روشن مثال ہے کہ ذاتی ضروریات پر قومی امانت کو صرف کرنا جائز نہیں ہے۔ یہ طرز عمل حکمرانوں کے لئے روشن مثالیں ہیں کہ وہ گڈ گورننس قائم کرتے وقت کس طرح اپنی ذات پر قوم کو ترجیح دیتے ہیں اور انصاف کا قیام کسی مصلحت کے بغیر کرتے ہیں۔ اسی طرح حضرت کی طرف سے مالک اشتر کو گڈگورننس اور قانون کی حکمرانی کے حوالے سے ارسال کردہ ہدایات آج کے دور کے حکمرانوں کے لئے مشعل راہ ہیں۔
علامہ ساجد نقوی نے یہ بات زور دے کر کہی کہ جب ہم امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالبؑ کی شہادت کی وجوہات کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کو امیر المومنینؑ کی ذات اور جسم سے دشمنی نہیں تھی بلکہ ان کی فکر اور اصلاحات سے عدوات تھی جو کہ علی ابن ابی طالبؑ نے سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی میدانوں میں کی تھیں۔ لہذا کہا جاسکتا ہے کہ امیر المومنینؑ کی شہادت ایک شخص یا فرد کی نہیں ایک سوچ‘ فکر اور نظریے کی شہادت ہے۔البتہ حضرت علی ؑ کی شہادت ان حالات میں شہادت ہوئی اُس نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے ۔