۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
مولانا جاويد حيدر زيدی زیدپوری

حوزہ/ علوی سیاست کا یہ امتیاز رہا ہے کہ امیر المومنینؑ نے حکومت کا حصول کبھی ہدف نہیں سمجھا بلکہ اپنے اصلی اور اعلی ہدف تک پہنچنے کا ذریعہ قرار دیا۔ انکے اقوال و فرامین حکمرانوں کے لئے روشن مثالیں ہیں۔  

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ، ہندوستان کے برجستہ عالم دین و فعال مبلغ مولانا جاوید حیدر زیدی زیدپوری نے یوم علی علیہ السلام کی مناسبت سے کہا کہ مرکزِ علم و عرفان، مرقع زہد و تقویٰ، امن و اتحاد کا محور، عبادت و بندگی کے شان، اطاعت و پرہیزگاری کا سرچشمہ بلکہ سید الاصیاء امام اتقیاء، عدل و انصاف کا جلوہ، سیدالعارفین، مولانا و مقتدانا امیرالمومنین حضرت علی بن ابی طالب علیہ السّلام کے سر پر 19 رمضان المبارک کو عبدالرحمان ابنِ ملجم نے نمازِ فجر کی رکعت اول کے پہلے سجدہ میں ضربت لگائی در حقیقت یہ ضرب عالمِ اسلام پر لگی تھی۔ ضرب کا لگنا تھا کہ فضاء میں جبرائیل کی آواز گونجی "تھدمت واللہ ارکان الھدیٰ" ہدایت کے ستون منہدم ہوگئے ! "قتل علی المرتضیٰ" علی مرتضی محراب عبادت میں قتل ہو گئے!

آج عرش و فرش میں فرشِ گریہ و ماتم بچھا ہے۔ آسمان پر ملائکہ کے درمیان نالہ و شیون اور واعلیاہ کی صدا بلند ہے۔ کائنات کا ذرہ ذرہ سوگ منارہے ہیں۔  پورا کوفہ غم و اندوہ میں ڈوبا ہوا ہے۔ آج کی شب یتیموں اور بیواوں کا سہارا اٹھ گیا، عدل و انصاف کا بانی نہیں رہا، ارکان ہدایت گرگئے۔ عالم امکان میں سناٹا اور غم کا سماں ہےاور کیوں نہ ہو، آج ایک ایسا انسان دنیا سے اٹھ گیا جس سے عدل و انصاف قائم تھا، زہد و ورع کا نمونہ تھا، بیکسوں اور بے نواوں کا ناصر و مددگار اور مونس و غمخوار تھا، جس کی حکومت میں کوئی بھوکا نہیں رہا، جس کے اقتدار میں کوئی مظلوم نہیں ہوا، جس نے انسانیت کو اس کا حقیقی مفہوم دیا۔ ایک بڑی وسیع و عریض حکومت کے حاکم ہونے کے باوجود خود سوکھی روٹی کھاتے تھے، خود فاقہ کرتے تھے لیکن اپنی عوام اور اللہ کے بندوں کے لئے شب و روز فکر مند رہتے اور انکی ہدایت و نجات اور بھوک و پیاس مٹانے کا بند و بست کرتے ہیں۔

شب کی تاریکی میں بیواوں اور یتیموں کے گھر جا کر ان کے کھانے کا انتظام کرتے تھے اور خود ہی اپنی پشت پر اٹھاکر کھانے کی اشیاء لے جاکر بھوکوں اور بے سہارا لوگوں کے گھر پہونچاتے تھے۔ آپ کی سیرت طیبہ سے ہمیں درس حاصل کرنا چاہیئے کہ ہم بھی اگر کسی کے ساتھ کچھ کریں تو چھپا کر کریں، سب کی تاریکی میں کریں، انسانوں اور خدا کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک اور نیکی کریں، ہمیشہ ان کی ترقی اور فلاح و بہبود کے لئے کام کریں اور دین کا لبادہ پہن کر عوام کو گمراہ نہ کریں، صرف اپنا شکم پر نہ کریں بلکہ لوگوں کے کھانے، پینے، صحت اور شادی بیاہ، مکان، لباس اور دیگر ضروریاتِ زندگی اور معاشرہ کو آگے بڑھانے کا کام کریں۔ 

زمانہ کتنا ظالم ہو چکا تھا مال و دولت کی محبت میں دل سیاہ ہو چکے تھے جسکا نتیجہ یہ ہوا کہ اتنے شفیق و محسن امام کو شہید کر دیا گیا ۔

کیا بدبختی کی انتہا ہے کہ رسول اللہ  کی اس واضح حدیث، کہ "علی ؑحق کے ساتھ ہے اور حق علی ؑکے ساتھ، خدایا حق کا رخ ادھر موڑ دے جس طرف علی ؑجائے،" کے باوجود بھی دشمنان دین اسلام نے امیرالمومنین ؑکو اتنی اذیتیں دے کر مظالم کا نشانہ بنایا کہ جس کی نظیر ملنا شاید مشکل ہو۔ رسول اللہﷺ کے وصال کے بعد ایک دفعہ حضرت بی بی فاطمہ الزھرا س نے حضرت علی ؑسے پوچھا کہ اے ابو الحسن ؑسنا ہے، کوئی آپ کو سلام نہیں کرتا۔ تو مولائے متقیان ؑنے مظلومیت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا آپ نے غلط سنا ہے، بات اس سے آگے نکل چکی ہے، اب حالت یہ ہے کہ سلام تو دور کی بات، جب میں سلام کرتا ہوں تو کوئی جواب تک نہیں دیتا۔

یہ ہے امیر المؤمنین کی غربت کہ جس پر اللہ کے فرشتے درود و سلام بھیجتے ہوں اس پر یہ وقت آجائے۔

حضرت آدم (ع) سے لیکر آج تک یہی دیکھا گیا ہے کہ جب بھی کسی کو اللہ کا سچا بندہ اللہ کی راہ کی دعوت دیتا ہے تو دنیا کے پُجاری اور ہوا و ہوس کے بندے اور شیطان کے چیلے اس کی راہ میں روڑے اٹکاتے اور اس کی انسانی و اخلاقی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں اور اگر شیطانوں اور اقتدار کے بھوکوں سے جب کچھ بن نہیں پاتا تو اس کو قتل کرادیتے ہیں تا کہ ان کی عیاشی و فحاشی اور دنیا پرستی کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ رہ جائے۔ یہی ہمارے اور آپ بلکہ انس و جان کے امام اور پیشوا حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام رسولخدا (ص) کے برحق جانشین؛ کے ساتھ ہوا کہ وقت کے فرصت طلب اور جھوٹے، مکّار، عیار اور بے دین افراد نے سازش کر کے دین و ہدایت کے ارکان گرادیئے اور ابن ملجم ملعون کو نئے طریقوں اور حیلوں سے آمادہ کرکے چراغ امامت و ہدایت کو بجھادیا گیا، حق و صداقت اور دیانت اور امانت کا گلا گھونٹ دیا گیا اور انسانیت و آدمیت کے عظیم رہنما کو ضربت لگا کر شہید کردیا گیا۔

ظالم و فاسخ حکومت کا یہی شیوہ رہا ہے کہ جب بھی حق اور الہی نمائندہ پر فتح حاصل نہیں کر پاتے تھے تو ان کو قتل کرادیتے تھے یا قید کر دیتے تھے۔ امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام سے جو عداوت تھی وہ یہی تھی کہ کچھ دنیا پرست، باطل کے حامی، شیطان کے ساتھی، درہم و دینار کے لالچی، مصلحت و نفس پرست، کو امام کی حق گوئی، صداقت، علم و دانش، غرباء و مساکین پرور ہونے سے اپنی غصبی حکومت کی بنیاد ہلتی ہوئ محسوس ہو رہی تھی اسی لئے عادل امام کو شہید کر دیا۔

عدل علوی کی  مثال پیش کرکے ہم آگے بڑھتے ہیں تاکہ ہمیں اپنی ذاتی و اجتماعی اور عدالتی خرابیوں کی نشاندہی میں آسانی ہو۔ ایک مرتبہ امیر المومنین  علیہ السّلام کے غلام خاص حضرت قنبر  نے عرض کیا ”یا علی  چونکہ آپ بیت المال کی ساری رقم مسلمانوں پر صرف فرمادیتے ہیں اور اپنے ذاتی مصرف کے لئے اس میں سے کچھ نہیں لیتے اس لئے میں نے اپنے ذاتی حصے میں سے کچھ رقم بچاکر آپ کے لئے علیحدہ رکھ دی ہے, اگر وہ قبول فرمالیں تو اس غلام کے لئے باعث سرفرازی ہوگی” آپ امام  نے فرمایا وہ رقم کہاں رکھی ہے میرے ساتھ چلو اور مجھے دکھائو۔ حضرت قنبر آپ  کو ساتھ لے کر وہاں پہنچے جہاں انہوں نے وہ رقم دو تھیلیوں میں سی کر رکھی تھی۔ امیر المومنین علیہ السّلام تھیلیوں کو دیکھ کر شدید غصہ ہوئے اور نہایت سخت لہجے میں حضرت قنبر سے فرمایا  ”اے قنبر کیا تم میرا گھر دوزخ کی آگ سے بھرنا چاہتے ہو؟ اس وقت تلوار نکال کر ان دونوں تھیلیوں کے ٹکڑے کردیئے جس سے سارے سکے زمین پر بکھر گئے۔ آپ (ع) نے فرمایا اے سونا اور چاندی تیری چمک علی کو دھوکہ نہیں دے سکتی۔ اس کا فریب کسی اور کو دے جو تیرا دلدادہ ہو میں تیرے فریب میں نہیں آسکتا۔ پھر حکم فرمایا کہ ان سکوں کو جمع کرکے مسجد میں لے چلو جب حکم کی تعمیل ہوئی اور سکے مسجد میں پہنچے تو حضرت علی علیہ السلام نے وہ برابر حصوں میں مسجد میں موجود مسلمانوں میں تقسیم فرمادیئے اور خدا کا شکر ادا کیا کہ وہ اس فریضے سے سبکدوش ہوئے اور انصاف کا تقاضا پورا کیا۔

عیسائی عالم جرج جرداق تحریر کرتے ہیں:

حکومت، حضرت علی علیہ السّلام کی نظر میں کوئی باب  نہیں ہے کہ حاکم اسے خیرات و تقسیم کرنے اور بے حساب نعمتوں کے لئے کھول دے تا کہ حکومت سے وابستہ اور حکومت کی ہاں میں ہاں ملانے اور حکومت کی طرفداری کرانے میں صرف کردے، یا پھر اپنے دوست و احباب، اعزہ و اقارب، چاہنے اور ماننے والوں کے درمیان انھیں اپنا بہی خواہ اور ہمنوا بنانے کے لئے بے دریغ بہادے بلکہ حکومت ایک ایسا دروازہ ہے کہ اس حکومت کا حاکم عدل و انصاف قائم کرنے، لوگوں کے درمیان مساوات اور برابری برقرار کرنے کی حتی الامکان کوشش کرے اور اپنے دور اقتدار میں کسی پر ظلم اور زیادتی نہ ہونے دے۔

شہید مطہری (رح) فرماتے ہیں:

عدالت، حضرت علی (ع) کے نزدیک ایک اجتماعی، سماجی، اسلامی فلسفہ اور حکمت کے عنوان سے مد نظر تھی اور حضرت علی اسلام السلام کے قریبی جانتے تھے کہ علی  عدالت کو ہر چیز سے بالاتر اور اہم سمجھتے ہیں اپنے بھائی، بھتیجا، بیٹا، بیٹی، بیوی اور قریبی ترین رشتہ داروں کے ساتھ بھی وہی اصول عدالت اجراء کرنے کا عزم اور حوصلہ رکھتے تھے جو دوسروں کے لئے قانون عدل و انصاف تھا اور آپ نے اپنی عملی زندگی میں ایسا ہی کیا ہے۔ اپنے دور حکومت میں اس کا بھرپور ثبوت دیا ہے اور کبھی اپنی عدالت میں نقص آنے نہیں دیا۔ تاریخ کے دامن میں آپ کی عدالت کے نمونہ موجود ہیں۔

اگر پوری دنیائے انسانیت میں عدالت کے بنائے گئے اصول پر عمل کیا جائے اور قرآن و حدیث کی روشنی میں بتائے گئے قوانین پر عمل پیرا ہوجائے تو معاشرہ کی بہت ساری مشکلات اور گھر اور خاندان کے مسائل کا بہترین حل نکل جائے گا اور گھر سے لیکر معاشرہ تک امن و امان اور خوشگوار ماحول نظر آئے گا نیز کسی کو کسی سے شکوہ بھی نہیں رہ جائے گا لیکن مشکل یہی ہے کہ گھر کا بزرگ اور خانوادہ کے سرپرست، معاشرہ اور سماج کا بڑا بزرگ اور رہبر و ذمہ دار اس قانون عدالت کی خلاف ورزی کردیتا ہے اور گھر سے لیکر معاشرہ تک کو ناامنی اور بے سکونی کی آماجگاہ بنادیتا ہے۔ یہ دنیا داری اور رشتہ داری کے بندھن میں اس طرح جگڑجاتا ہے کہ اسے حق و باطل، صحیح اور غلط، پاک اور نجس، جھوٹ اور سچ نظر ہی نهیں آتا۔ اللہ، رسول خدا  اور ائمہ کو ماننے کے لحاظ سے سب مانتے ہیں لیکن یہ دعویٰ صرف زبانی ہوتا ہے کیونکہ اگر عملی ہوتا تو گھر اور معاشرہ بے سکونی اور بحرانی صورتحال سے دوچار نہ ہوتا، معاشرہ اسی وقت انسانی، الہی اور مذہبی معاشرہ بن سکتا ہے جب ہم قانون الہی کی حقیقت میں پیروی کریں اور برزخ و قیامت کے عذاب و عقاب کو نظر میں رکھیں گے۔

انصاف و عدل کا یہی معیار حضرت علی علیہ اسلام اپنی اولاد اور اپنے اصحاب و رفقائے کار کے ساتھ بھی اپنایا۔ اپنے بھائی حضرت عقیل ابن ابی طالب کے ساتھ بیت المال کی تقسیم اور اس میں سے ان کے حصے سے زائد نہ دینے کا واقعہ بھی تاریخ کے اوراق میں درج ہے۔

علوی سیاست کا یہ امتیاز رہا ہے کہ امیر المومنینؑ نے حکومت کا حصول کبھی ہدف نہیں سمجھا بلکہ اپنے اصلی اور اعلی ہدف تک پہنچنے کا ذریعہ قرار دیا۔ انکے اقوال و فرامین حکمرانوں کے لئے روشن مثالیں ہیں۔

حضرت کی طرف سے مالک اشتر کو گورنر اور قانون کی حکمرانی کے حوالے سے ارسال کردہ ہدایات آج کے دور کے حکمرانوں کے لئے مشعل راہ ہیں۔  جب ہم امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالبؑ کی شہادت کی وجوہات کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کو امیر المومنینؑ کی ذات اور جسم سے دشمنی نہیں تھی بلکہ ان کی فکر و سوچ اور اصلاحات سے عدوات تھی جو کہ علی ابن ابی طالبؑ نے سیاسی معاشی اور معاشرتی میدانوں میں کی تھیں۔ لہذا کہا جاسکتا ہے کہ "حضرت علی علیہ السّلام کی شہادت فقط ایک شخص کی نہیں ایک سوچ و فکر ، نظام و عدل، کی شہادت ہے۔"


 

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .