۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
مولانا سید محمد زمان باقری

حوزہ/ وہ امیرالمونین (ع) جو شب ہائے تاریک میں اپنی پشت مبارک پر اناج کی بوریوں کو لاد کر غریب،مسکین،یتیم اور اسیروں میں ان کے در دولت پر پہنچاتا رہا ہو۔ وہ کس قدر بلند صفات کا مالک ہوگا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ممبر آف آل انڈیا شیعہ پرسنل لاء بورڈ لکھنؤ و امام الجماعت شیعہ مسجد امام باڑہ قلعہ رامپور حجۃ الاسلام و المسلمین سید محمد زمان باقری نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ تمام تر حمد و ثناء پروردگار ہے جس کے قبضہ قدرت میں ہر ذی روح کی جان ہے جس نے اس روئے زمین پر بسنے والے اربوں کھربوں انسانیت کے درمیان ان کی ہدایت  اور رہنمائی کے لیے اپنے خاص و خاص امام اور ہادیان بر حق کا انتخاب کر کےلوگوں کے درمیان اپنےعدل وانصاف کو قائم رکھنے کے لیے اپنی صفات کا مظہر علی علیہ السلام جیسے امام کو منتخب کر کے ایک مثال قیامت تک آنے والی انسانیت کے لیے قائم کی ۔اس شخص کی شرعی پابندی عدل کا حال کیا بیان کیا جائے جس کی پاکیزگی و طہارت پر آیت تطہیر شاہد ہے ۔

حضرت کا اصول یہ تھا کہ بیت المال میں جو مال آتا تھا فورا حق داروں کے مطابق تقسیم کر دیتے تھے اور خود اس میں سے کچھ نہ لیتے تھے تقسیم کے بعد بیت المال میں جھاڑو دلواتے تھے پھر وہاں نماز پڑھتے تھے تاکہ روز قیامت وہ زمین شہادت دے کہ علی علیہ السلام نے مال خدا کو حقداروں تک پہنچانے میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔احمد نے ابو البختری سے روایت کی ہے کہ حضرت عمررضی اللہ کے دور خلافت میں ان کے پاس کہیں سے کچھ مال آیا اور تقسیم کے بعد بچ رہا۔حضرت عمر رضی اللہ نے اپنے اصحاب سے پوچھا کہ اب یہ مال کیا کیا جائے ؟ سب نے کہا کہ ہم لوگوں نے آپ کو خلیفہ بنا کر بال بچوں کی روزی حاصل کرنے سے روک دیا ہے لہٰذا یہ مال آپ کا ہے خرچ کیجئے۔

حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام بھی وہاں موجود تھے ۔حضرت عمررضی اللہ نے کہا کہ یا علی علیہ السلام فرمائے یہ مال کیا کروں؟۔حضرت ع۔ نے فرمایا کہ آپ کے دوستوں نے تو بتا ہی دیا حضرت عمر رضی اللہ نے عرض کیا کہ نہیں آپ اپنی رائے پیش کیجئے ۔میں آپ کے حکم پر عمل کروں گا۔حضرت ع۔ نے فرمایا حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کبھی مال بچا کر نہیں رکھتے تھے جو کچھ آتا تھا تقسیم فرماتے تھے اور جب سب تقسیم ہو جاتا تو خوش ہوتے تھے حضرت عمر رضی اللہ نے کہا آپ سچ فرماتے ہیں میں دنیا و آخرت میں آپ کا شکر گزار ہوں  (وسیلة النجات)صفحہ ١٣٧.

‌یہ ہےعدل الہی کی واضح دلیل کہ اس کے منتخب کردہ ھادیان برحق بھی عادل اور منصف پسند ہوا کرتے تھے۔جو تقسیم  مال عوام الناس میں اس قدر محتاط ہو  اور اس کا حق اس تک پہنچاتا ہو اور شب ہائے تاریک میں اپنی پشت مبارک پر اناج کی بوریوں کولاد کر غریب۔ مسکین۔ یتیم ۔ اور اسیروں میں ان کے در دولت پر پہنچاتا ہو۔وہ کس قدر بلند صفات کا مالک ہوگا۔مگر ہائے بدقسمتی زمانہ ١٩. رمضان المبارک سن چالیس ھجری کی صبح میں عین حالت نماز میں رکعت اولی  کے سجدہ اولیٰ میں حالت سجدہ  میں عبدالرحمن ابن ملجم مرادی ملعون نے دنیا کے یتیموں بالخصوص کوفہ کے یتیموں کے سرپرست کے سر اقدس پر زہر آلود تلوار سےحملہ کرکے کائنات میں رہنے والے لوگوں کو  یتیم کردیا ۔

مسعودی نے لکھا ہے کہ روایت کی گئی ہے کہ ٢١. ماہ رمضان  سن ٤١ ھجری میں ابن ملجم ملعون نے امیرالمومنین علیہ السلام کے سر اقدس پر ضربت لگا ئی تو لوگ آپ کےگردجمع ہوگئے اور حضرت ام کلثوم نے" وا ابتاہ" کہکر فریاد کی۔عمر بن حمق نے کہا کہ کوئی خوف کی بات نہیں ہے صرف خراش ہے تو حضرت نے فرمایا کہ میں عنقریب تم لوگوں سے جدا ہونے والا ہوں پھر فرمایا کہ سن ٧٠ ۔ھجری تک بلا ہے اس پر عمر بن حمق نے عرض کیا کہ کیا اس کے بعد راحت و آرام ہے تو حضرت نے کوئی جواب نہیں دیا ۔

منقول ہے کہ جب حضرت ام کلثوم  روئیں تو حضرت نے فرمایا کہ کیوں ہوتی ہو کاش تم دیکھتیں ان چیزوں کو جن کو میں دیکھ رہا ہوں ساتوں آسمانوں کے ملائکہ صف بستہ کھڑے ہیں اور انبیائے ماسلف ان کے پیچھے ہیں اور یہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہیں اور میرا ہاتھ پکڑ کر فرمارہے ہیں کہ اے علی چلو آخرت میں جو چیزیں خدا نے تمہارے لئے مہیا فرمائی ہیں وہ دنیا کی چیزوں سے بہتر ہیں۔۔
پھر اپنے دوستوں سے فرمایا کہ آپ لوگ مجھ کو کچھ موقع دیں کہ میں اپنے اہل بیت سے کچھ کہنا چاہتا ہوں جب سب لوگ اٹھ گئے سوائے چند شیعوں کےتو حضرت نے اپنے اہل بیت کو بلایا ۔ پھر بعد حمد و ثناء پروردگار کے فرمایا کہ میں حسن ع اور حسین ع کو اپنا وصی بناتا ہوں تم لوگ ان کا حکم ماننا اور اطاعت کرنا۔یہ سن کر عبداللہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا امیر المومنین علیہ السلام آپ نے محمد حنفیہ کو وصی نہیں بنایا حضرت نے فرمایا کہ میری زندگی میں یہ جرات میں دیکھ رہا ہوں کہ ان کے خیمہ میں تم مزبوح پڑے ہو۔

پھر حضرت علی علیہ السلام نے امام حسن علیہ السلام کو اپنا وصی بنایا اور اسم اعظم اور نور و حکمت اور مواریث انبیاء ان کے سپرد فرمائے  اور فرمایا کہ جب میرا انتقال ہوجائے تو مجھ کو غسل دینا اور کفن پہنانا حنوط کرنا پھر  قبرمیں اتارنا جب قبر برابر کر چکنا تو ایک  اینٹ ہٹا کر دیکھنا تو مجھ کو نہ پاؤ گے۔

شب جمعہ ٢١ رمضان المبارک  آپ کی شہادت واقع ہوئی اس وقت آپ کی عمر مبارک پینسٹھ ٦٥۔سال تھی اور ایک روایت ہے کہ ٦٣۔ سال تھی پینتیس سال حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے ہیں اور تیس سال بعد رسول اللہ زندہ رہے۔

منقول ہے کہ ضربت لگنے کے بعد جب لوگ حضرت ع۔
 کو گھر لے گئے اور آپ کے پاس جمع ہو گئے تو آپ نے خطبہ فرمایا اور بعد حمد و ثنائے پروردگار کے فرمایا کہ ہر شخص ایک روز اس موت سے ملاقات کرنے والا ہے جس سے وہ بھاگتا ہے نفس موت کی طرف کھینچا جا رہا ہے موت سے بھاگنا موت کی طرف جانا ہے کتنے زمانے اس راز کی تلاش و جستجو میں گزر گئے لیکن خدا نے اسکو پوشیدہ ہی رکھا بہت مشکل ہے اس کی حقیقت  تک پہنچنا۔لیکن تم لوگوں سے میری وصیت  ہے کہ خدا کا شریک نہ بنانا اور سنت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ضائع نہ کرنا ان دونوں ستونوں کو قائم رکھنا۔

پھر فرمایا کہ تم لوگوں پر سلام ہو قیامت تک۔ کل میں تمہارا ساتھی تھا اور آج تمہارے لیے عبرت ہوں۔ اور کل جدا ہو جاؤں گا اگر میں زندہ رہا تو اپنے خون کے انتقام کا مالک ہوں۔ اور اگر موت آگئی تو میری وعدہ گاہ قیامت ہے  عفو۔تقوی سے زیادہ نزدیک ہے ۔ بخشو۔ خدا تم لوگوں کو بخشے گا کیا تم لوگ پسند نہیں کرتے کہ خدا تم کو بخش دے خدا بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

حضرت علی علیہ السلام نے امام حسن علیہ السلام سے وصیت فرمائی کہ تم اور حسین علیہ السلام میرے جنازے کو سرہانے کی طرف سے اٹھانا اور جنازہ جہاں خود بخود  ٹھہرجائے وہیں دفن کرنا تم لوگ میری قبر کھدی ہوئی پاؤ گے جو حضرت نوح علیہ السلام نے میرے لیے کھودی تھی۔
حضرت کا جنازہ پہلے مسجد سہلہ لے جایا گیا وہاں ایک ناقہ بیٹھا ہوا نظر آیا اس پر جنازہ رکھا گیا وہ چلا اور چلتے چلتے مقام  غری (نجف )میں خود بخود بیٹھ گیا اس مقام کی کچھ مٹی ہٹائی گئی تو قبر کھدی ہوئی ملی حضرت اسی قبر میں وصیت کے مطابق دفن کیے گئے حضرت کا جنازہ شب کو اٹھایا گیا اور شب ہی کو دفن کیا گیا اور حضرت امام حسن ع ۔اور حضرت امام حسین ع۔نے کسی دوسرے کو شریک نہ کیا۔
واقعہ نہروان کے بعد ٣.خارجیوں عبدالرحمن ابن ملجم مرادی  ملعون ۔ اور برک بن عبداللہ۔ اور عمر بن بکر تمیمی۔ نے رائے کی کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام اور معاویہ اور عمر بن عاص کو قتل کردیں ۔ابن ملجم ملعون نے حضرت امیرالمومنین ع ۔کے قتل کا ذمہ لیا اور کوفہ روانہ ہوگیا اور برک۔ دمشق۔ اور عمر بن بکر مصر۔ روانہ ہوا ۔معاویہ اور عمر بن عاص تو بچ گئے لیکن ابن ملجم معلون کوفہ پہنچ کر انیسویں ماہ رمضان کے انتظار میں پوشیدہ ہو گیا۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے انیسویں ماہ رمضان کو نمازِ صبح کے لیے جب مسجد جانے کا ارادہ کیا تو مرغابیاں جو گھر میں پلی ہوئی تھیں چیخنےلگیں اور حضرت کا دامن پڑنے لگیں ہر چند اہل بیت علیہم السلام نے ان کو ہٹانا چاہا تو حضرت نے فرمایا ان مرغابیوں کو چھوڑ دو یہ اپنے مالک پر نوحہ کر رہی ہیں جب حضرت ع۔ نے نماز صبح شروع کی تو سجدے کی حالت میں عبدالرحمن ابن ملجم مرادی ملعون نے حضرت کے سر اقدس پر ضربت لگائی ۔حضرت نے فرمایا "فزت برب الکعبہ " اس کے بعد لوگ حضرت کو اٹھا کر گھر لائے اور ٢١ ماہ رمضان المبارک سن چالیس  ھجری روزجمعہ آپ نے شہادت فرمائ۔(خلاصہ مضامین طبری و وسیلہ النجات فصل بیان شہادت امیرالمومنین ع)

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی تاریخ وفات وضربت ومقام دفن میں مورخین کے درمیان کچھ اختلاف ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ انیسویں ماہ رمضان کی صبح کو عبدالرحمن ابن ملجم مرادی ملعون نے آپ کے سر اقدس پر عین حالتِ نماز میں  رکعت اولی کے سجدہ اولیٰ میں زہر آلود  ضربت لگائی اور ٢١ماہ رمضان  روز جمعہ آپ کی شہادت واقع ہوئی اور مقام غری یعنی( نجف اشرف) میں دفن کیے گئے جو آج عراق کی سرزمین پر وہ مقام تمام عاشقان اہل بیت ع۔ اور عاشقان مولائے کائنات کے  لیے شفاءاور دعاؤں کے مستجاب ہونے کا مرکز ہے آج بھی لاکھوں کروڑوں عاشقان حیدر کرار ع۔ اس  مقام مقدسہ کی زیارت سے مشرف ہوتے ہیں اور شفا پاتے ہیں۔
ملا مبین صاحب فرنگی محلی وسیلۃ النجاۃ صفحہ ١٩١. میں لکھتے ہیں کہ صحیح یہ ہے کہ مزار حضرت علی مرتضیٰ صلوات اللہ علی نبینا  نجف اشرف میں ہے جہاں آج ایک عالم  آپکی زیارت سے شرف حاصل کرتا ہے اور جو محتاجوں کا ملجاوماوا ہے اور اکسیر اعظم ہے دعاؤں کے قبول ہونے اور حاجتوں کے برآنے کے لئے۔

آپ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام شیعوں کے بلا فصل اول خلیفہ رسول و جانشین ہیں ۔اور اہل سنت والجماعت کے چوتھے خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں وا غربتا ۔وا علیا ۔اللهم العن قتله امير المؤمنين ع۔ 
 

تبصرہ ارسال

You are replying to: .