۱۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 30, 2024
لکھنؤ میں عین الحیات ٹرسٹ کے زیر اہتمام حضرت علی (ع) کے سوگ میں مجلس

حوزہ/ عین الحیات ٹرسٹ نے چھوٹا امام باڑہ حسین آباد میں شہادت امام حضرت علی (ع) کے سوگ میں مجلس کا انعقاد کیا جس کو مولانا علی عباس خان صاحب نے خطاب کیا ۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، لکھنؤ، عین الحیات ٹرسٹ نے چھوٹا امام باڑہ حسین آباد میں شہادت امام حضرت علی (ع) کے سوگ میں مجلس کا انعقاد کیا جس کو مولانا علی عباس خان صاحب نے خطاب کیا ۔ مجلس کا آغاز قاری مجتبیٰ رضوی نے تلاوت قرآن سے کیا، جس کے بعد جناب احسن ناصر اور جناب وصی احمد نے درد بھری آواز میں نذرانۂ عقیدت پیش کیا۔

تصاویر دیکھیں:

لکھنؤ میں عین الحیات ٹرسٹ کے زیر اہتمام حضرت علی (ع) کے سوگ میں مجلس

مرثیہ کے بعد مولانا سید مشاہد علم رضوی صاحب نے امام حضرت علی علیہ السلام کی وصیت اور اس کی اہمیت بیان کی۔ مجلس سے خطاب کرتے ہوئے جناب مولانا علی عباس خان صاحب نے کہا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے داماد حضرت علی عدل و محبت کے پیکر اور اعلیٰ مثالی انسان تھےار وہ تبلیغ اسلام کرتے ہوئے فرماتے تھے: اے لوگو! جان لو کہ تمہارے اعمال کا معیار دین ہے، تمہارا محافظ اللہ ہے اور تمہارا حسن تمہارا کردار ہے۔

پیغمبر اسلام (ص) نے اپنی زندگی کے آخری حج سے واپسی کے وقت تقریباً 1 لاکھ 25 افراد کے درمیان مکہ سے کچھ فاصلے پر واقع غدیر خم کے میدان میں اللہ کے حکم سے حضرت علی (ع) کو اپنا جانشین بنایا تھا۔ حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے مولانا علی عباس خان صاحب نے بتایا کہ شب ضربت آپ کو اپنی چھوٹی بیٹی حضرت ام کلثومؓ کے گھر افطار پر مدعو تھے۔

افطار کے وقت صرف تین نوالے ہی کھانا کھایا اور پھر نماز میں مشغول ہوگئے۔ وہ اس رات صبح تک بے چین رہے۔ ہر تھوڑی دیر بعد آسمان اور ستاروں کی طرف دیکھتےاور جیسے جیسے فجر کا وقت قریب آرہا تھا اس کی بے چینی بڑھتی جارہی تھی۔ وہ کہہ رہے تھے کہ مجھ سے شہادت کے لئے جس رات کا وعدہ کیا گیا تھا وہ یہی رات ہے ۔

الغرض رات ختم ہوئی اور فجر طلوع ہوئی حضرت علی نماز فجر کے لیے مسجد کی طرف روانہ ہوئے۔ گھریلو بطخیں آپ کے پیچھے پیچھے آپ کے کپڑوں سے لپٹنے لگیں۔ گھر والے انہیں ہٹانا چاہتے تھے لیکن حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو۔ وہ اب چیخ رہی ہے لیکن جلد ہی روئے گی۔

اس کے بعد حضرت علی مسجد پہنچے اور نماز کے لیے کھڑے ہوگئے۔ جب وہ سجدے میں گئے تو ابن ملجم نامی شخص نے زہر سے بھری ہوئی تلوار سے آپ کے سر پر وار کیا۔ اس حملے سے آپ کا سردو پارہ ہو گیا اور خون فوارے کی طرح نکلنے لگا۔ اسی حالت میں آپؑ نے فرمایا: ” رب کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہو گیا ہوں۔“ لوگوں نے دیکھا کہ آپ کے سر سے خون بہہ رہا ہے جس سے آپ کی داڑھی سرخ ہو گئی ہے ۔ تبھی آپ نے پھر فرمایا: یہ وہی وعدہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول نے مجھ سے کیا تھا۔ جب زمین و آسمان لرزنے لگے اور اللہ کے فرشتے جبرئیل کی آواز پوری دنیا میں گونجنے لگی تو اہل کوفہ کو معلوم ہوا کہ حضرت علی علیہ السلام پر مسجد میں حملہ ہوا ہے۔

آپ نے لوگوں سے اپنے قاتل کے ساتھ بھی شائستگی اور خوش اخلاقی سے بات کرنے کو کہا اسی اثناء حضرت علیؑ کے دونوں بیٹے امام حسن اور امام حسین علیہ السلام ان کے پاس پہنچے۔ کچھ لوگ حضرت علی کو اٹھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ وہ نماز پڑھ لیں لیکن ان میں کھڑے ہونے کی طاقت نہیں تھی۔ بیٹھ کر نماز مکمل کی اور گہرے زخم اور زہر کی شدت سے بے ہوش ہو گئے۔

انہیں ایک موٹی چادر میں رکھا گیا اور دونوں بیٹے اس چادر کو پکڑے گھر لے آئے۔ جب ابن ملجم کو جس نے آپ پر تلوار چلائی تھی، امام علی علیہ السلام کے پاس لایا گیا۔آپؑ نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا اور پوچھا کیا میں تمہارے لیے برا امام تھا؟ کیا میں نے یہ جانتے ہوئے بھی تم پر احسان نہیں کیا کہ تم مجھے مار ڈالو گے؟ میں تم کو اس دنیا کا سب سے بدقسمت شخص بننے سے روکنے اور غلطی سے نجات دلانے کے لیے اپنی نیکی کا استعمال کرنا چاہتا تھا۔ ابن ملجم رونے لگے۔ حضرت علی نے اپنے بیٹے امام حسن سے فرمایا کہ بیٹا! اس کے ساتھ حسن سلوک کرو، کیا تم دیکھتے نہیں کہ اس کی آنکھوں میں کتنا خوف ہے۔ امام حسن نے فرمایا کہ اس نے آپ پر تلوار سے حملہ کیا ہے اور آپ اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کو کہہ رہے ہیں؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: ہم پیغمبر اسلام کے اہل بیت ہیں۔ اور سبھی کے لئے مہربان ہے اسے کھانا اور دودھ دےدو۔ اگر میں اس دنیا سے چلا گیا تو اس سے موت کا بدلہ لینا یا اسے معاف کرنا تمہارا حق ہے اور اگر میں زندہ رہا تو میں جانتا ہوں کہ اس کے ساتھ کیا کرنا ہے اور میں معاف کرنے کو ترجیح دیتا ہوں۔

یہ شب قدر کی راتوں میں سے ایک رات تھی اور اسی رات ایک قابل رہنما، انصاف پسند امام، یتیموں سے محبت کرنے والا حکمران، اللہ کے برگزیدہ بندہ کو قتل کر دیا گیا۔ ابن ملجم، زمین کا سب سے بدقسمت اور ظالم انسان ہے جس نے زہر سے بجھی ہوئی تلوار سے حملہ کر کے امام علی کو شہید کر دیا۔

امام علی علیہ السلام مسلمانوں کے مقدس مقام کعبہ کے اندر پیدا ہوئے اور ایسا واقعہ نہ ان سے پہلے ہوا نہ ان کے بعد۔ ان کی شہادت بھی مسجد میں عبادت کے دوران ہوئی۔ ان دو نقطوں کے درمیان حضرت علی علیہ السلام کی پوری زندگی اللہ کے لیے وقف ہے۔

لوگوں اور یتیموں کی مدد کرنے کے بارے میں مولانا نے فرمایا کہ بیسویں رمضان کی صبح کوفہ کے یتیم بچوں نے طویل عرصے کے بعد اس مہربان اور ہمدرد شخص کو پہچانا جو ان کی عیادت کرتا تھا۔ ہر رات نامعلوم طریقے سے گھر پہنچتے اور ان کی مدد کرتے۔ حضرت علی کے ایک بیٹے محمد ابن حنفیہ کہتے ہیں۔ لوگ گھر میں آتے اور میرے والد کو سلام کرتے۔ وہ سلام کا جواب دیتے تھے اور کہتے تھے کہ اس سے پہلے کہ میں تم میں سے رہوں مجھ سے پوچھو لیکن اپنے امام کے زخم کی وجہ سے اپنے سوالات کو محدود کر دو۔ یہ کہتے ہی لوگ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔

مجلس کے بعد انجمن سپاہ حسینی نے نوحہ خوانی اور سنازنی کی اور مجلس میں موجود لوگوں نے بہتے آنسوؤں کے ساتھ حضرت علی (ع) کی اولاد حضرت امام مہدی (ع) کو پرسہ پیش کیا اور آخر میں مولانا ثقلین باقری صاحب نے زیارت پڑھی۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .