۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ/ دنیا کے حکمراں اپنے ظلم و ستم کے سبب قتل ہوئے لیکن علی علیہ السلام اپنی کثرت عدالت کے سبب محراب عبادت میں شہید ہوئے۔ 

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مولانا سید علی ہاشم عابدی امام جماعت مسجد کالا امام باڑہ لکھنؤ نے کہا کہ عبدالرحمن بن ملجم مرادی ملعون نے حالت نماز میں مولا علی علیہ السلام کے سر پر ضربت لگائی، زہر سے بجھی تلوار نے جہاں فرق مبارک کو زخمی کیا وہیں جسم مبارک کو بھی مسموم کیا لیکن میرے مولا نے دنیا والوں کے برخلاف فزت و رب الکعبہ فرما کر اپنی کامیابی کا اعلان کیا۔ 

بے شک علی علیہ السلام کامیاب تھے اور کامیاب ہوئے، کیوں کہ آپ زندگی کے آخری لمحات تک اپنے مقصد پر چلے اور انکا مقصد کچھ اور نہ تھا سوائے مرضی پروردگار پر عمل کرنے کے، بدر، احد، خیبر اور خندق کا معرکہ انکے لئے جہاد اصغر تھا، انھوں نے دنیا میں عدالت کے قیام کو جہاد اکبر سمجھا، انکے لئے انسانی اقدار کی پاسبانی، رضائے معبود کا حصول ہی جہاد اکبر تھا۔ 

مولانا موصوف نے بیان کیا کہ دنیا کے حکمراں اپنے ظلم و ستم کے سبب قتل ہوئے لیکن علی علیہ السلام اپنی کثرت عدالت کے سبب محراب عبادت میں شہید ہوئے۔ 

کیسی عدالت کہ جس کی تاب لانا اچھے اچھوں کے لئے محال بن گیا، اپنی معصومہ زوجہ کی شہادت پر تو صبر کر لیا لیکن جب مملکت کی ایک ذمی خاتون پر ظلم ہوا تو تڑپ گئے، جب خارجیوں نے ایک مسلمان خاتون کے شکم کو چاک کر کے اس کے بچے کو شہید کیا تو اپنے بچے محسن مظلوم کی شہادت پر صبر کرنے والے کے لئے صبر کرنا مشکل ہو گیا، اپنی میراث لٹنے پر تو تلوار نہ نکالی لیکن جب مارقین و قاسطین نے دہشت گردانہ اقدام کئے، بستیوں کو تاراج کیا تو علی علیہ السلام میدان میں اتر آئے۔ "لا حکم الا للہ" پر خاموش رہنے والا دین کی پامالی، شریعت کی توہین، ایمان کی بے حرمتی پر خاموش نہ رہ سکا۔ 

ایسی عدالت کہ جسکی مثال دنیا میں ممکن نہیں۔ بڑے بھائی عقیل مدینہ سے کوفہ پہنچے اور بیت المال سے کچھ اضافی مطالبہ کیا تو فرمایا جمعہ تک رکئیے، جب جمعہ کا دن آیا، مسجد کوفہ نمازیوں سے چھلک رہی تھی اور آپ خود منبر پر تھے کہ اچانک منبر ہی سے با آواز بلند اپنے بھائی سے پوچھ لیا کہ اگر کوئی اس امت کے ساتھ خیانت کرے تو کیسا ہے تو جناب عقیل نے فرمایا بہت برا ہے اس کا ٹھکانہ جہنم ہے تو آپ نے بے ساختہ فرمایا تو پھر آپ مجھے کیوں جہنم بھیجنا چاہتے ہیں؟ کیوں بیت المال سے زیادہ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ 

کیا دنیا میں عدالت کی کوئی ایسی مثال ممکن ہے؟ ہرگز نہیں۔ بے شک یہ علی علیہ السلام کی شہادت نہیں ہے بلکہ عدالت کی شہادت ہے، جوانمردی کی شہادت ہے، شجاعت کی شہادت ہے، علم کی شہادت ہے۔ عمل کی شہادت ہے۔ 

ظاہر ہے دنیا کی رنگینیوں کے اسیروں اور اس کی خواہشات کے قیدیوں کو علی علیہ السلام جیسے عادل اور مخلص کا وجود کیسے برداشت ہوتا جو خود بھی اتنا ہی لیتا جتنا غلام کو دیتا، جو عرب و عجم کے تعصب، گورے کالے کے تعصب سے اتنا ہی دور تھا جتنا نور ظلمت سے دور ہوتا ہے وہ تو خود نور خدا تھا، امین پروردگار تھا، اس نے اگر تلوار چلائی تو اللہ کے لئے، قیام عدالت کے لئے، سکوت کیا تو اطاعت خدا و رسول کی خاطر، اسے دنیا سے کیا لینا تھا جس کے نزدیک نصف دنیا کی حکومت بوسیدہ جوتیوں سے کم قیمت تھی۔ لیکن حکومت کی تا کہ عدالت قائم ہو، حق کو جلا ملے، باطل کا خاتمہ ہو۔ 

تو ایسے عادل حاکم کو دنیا کہاں برداشت کرتی، کتنے تعجب کی بات ہے علی علیہ السلام نے اسلامی جنگوں میں جنکو قتل کیا وہ منکر خدا تھے وہ بے دین تھے وہ وادی ظلمت کے مسافر تھے لیکن کتنے تعجب کی بات ہے کہ ظاہرا اسلام کا کلمہ پڑھنے ان بے دینوں اور منکرین خدا کے لئے علی علیہ السلام کے دشمن بن گئے۔ لیکن علی علیہ السلام کے لئے انکی دشمنی اہمیت نہیں رکھتی تھی بلکہ جو چیز اہمت رکھتی تھی وہ اللہ کی بندگی تھی۔ 

شائد اسی لئے جب فرق مبارک پر تلوار لگی تو امین وحی جبرئیل نے مرثیہ پڑھا "خدا کی قسم ارکان ہدایت منہدم ہو گئے۔" 

بے شک عدالت علی علیہ السلام کے ساتھ دفن ہو گئی، عادل پیشوا کے پردہ غیب میں موجود عادل وارث کی خدمت میں تعزیت کے ساتھ دعا ہے خدایا عادل امام کے عادل وارث کو بھیج دے تا کہ دنیا دوبارہ عدالت کو دیکھ لے۔ آمین

تبصرہ ارسال

You are replying to: .