۳۰ فروردین ۱۴۰۳ |۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 18, 2024
مولانا سید رضی زیدی

حوزہ/ یہ وقت یتیموں کی پرورش کے ساتھ یتیم ہونے سے بچانے کا ہے کہیں اسپتالوں کی طرح نہ ہوجائے کہ یتیم زیادہ ہوں جائیں اور یتیم خانہ کم پڑجائیں۔ اسی طرح سے وہ افراد جو علاقوں اور آبادیوں کے حاکم اور ذمہ داران ہیں انہیں سوچنا چاہیے کہ جب عوام نہ ہوگی تو حکومت کس پر کریں گے لہذا ہر فرد کا وظیفہ ہے کہ ان حالات میں جس سے جو ہوسکتا ہے ایک دوسرے کی مدد کرے ولو اطباء کی ہدایات پر عمل کرکے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ہندوستان کے برجستہ عالم دین و محقق حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی دہلی نے کرونا وبا کے مدنظر لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:۔ بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ امابعد فقال تبارک و تعالی فی القرآن المجید مَنْ اَحْيَاهَا فَكَاَنَّمَآ اَحْيَا النَّاسَ جَـمِيْعًا جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخشی۔ اللہ نے انسان کو کائنات کی تمام مخلوقات پر فضیلت دی ہے اور کائنات کی ہر چیز انسان کی خادم ہے زمین، سمندر،پانی، ہوائیں،پہاڑ، چاند،سورج، ستارے تمام موجودات کو کائنات کہا جاسکتا ہے۔ ان اشیاء کا خادم ہونا خود انسان کی حیات دلیل ہے اگر ان میں سے ایک چیز بھی نہ ہو تو انسان زندہ نہیں رہ سکتا مگر انسان کے بغیر ان چیزوں کا کچھ نہیں بگڑتا۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ زمین میں جتنی بھی اشیاء موجود ہیں۔ چاہے وہ جمادات ہوں، نباتات ہوں یا حیوانات ہو ں سب کو اپنے قابو میں کرنے کے بعد ان سے حسب ضرورت نفع حاصل کر سکتاہے۔ رہیں وہ چیزیں جن کا تعلق آسمان سے ہے  جیسے: سورج، چاند ،ستارے وغیرہ تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسے نظم وضبط سے جکڑ رکھا ہے کہ انسان کو ان سے نفع ہوتا رہے اور اپنی زندگی کو ٹھیک طرح سے گزارتا رہے۔ 

یعنی خالق کائنات نے تمام موجودات کو ایسے قوانین کا پابند بنادیا ہے کہ جن کی بدولت وہ انسان کے لیے نفع بخش ہوگئے ہیں۔جہان خالق کائنات نے انسان کو زندہ رکھنے کے لیے کائنات کی تمام مخلوقات کو انسان کے لیے مسخر کردیا وہیں حضرت انسان انسان کا دشمن ہوگیا یا خود غرض بن گیا اسے نہ پڑوسی نظرآتا ہے اور نہ ہی انسان نظر آتا ہے ہر ایک اپنی طاقت اور دولت بنانے میں اصول زندگی اور انسانیت کو پامال کرنے میں ذرہ برابر تدبر اور غور و فکر نہیں کر رہا ہے۔ اگر کسی کے پاس طبی لوازم موجود ہیں تو اس نے ان کی قیمتوں کو آسمان پر پہنچا دیا ہے کالابازی شروع کردی ہے انہیں اللہ کا خوف نہیں ہے ان کو نہیں معلوم موت امیر اور غریب کو نہیں دیکھتی اگر آگئی تو دولت یہیں رہ جائے گی اور خود خالی ہاتھ چلاجائے گا۔ اس کرونا مہلک وبا میں جہاں قبرستانوں اور شمشان گھاٹوں پر جنازوں کی آخری رسومات ادا کرنے کے لیے انتظار کرنا پڑ رہا ہو وہاں ابھی بھی بہت سے وہ لوگ جو انسانیت کی مدد کرسکتے ہیں خاموش بیٹھے نظر آرہے ہیں جن میں بعض انجمنوں اور اداروں کے ذمہ دران ہیں جو یہ سوچ کر خاموش ہیں کہ ہماری ذمہ داری بھوکوں کو کھانے کی اشیاء اور مریضوں کے لیے طبی لوازمات کی فراہمی نہیں ہے۔ ان حالات میں جب لوگوں کی اکثریت دہشت زدہ ہو اور بعض کے گھروں میں کھانے کی اشیاء نہ ہوں اور بعض اداروں کے سربراہ حضرات یہ سوچ رہے ہوں کہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے بلکہ ایک جدید کمیٹی یا انجمن بنے جو اس کام کو انجام دے تو یہ فکر غلط ہے کیونکہ جب بچوں کے ماں باپ نہیں ہوں گے تو اسکولوں میں بچوں کو کون بھیجے گا اور جب یتیم ہی نہیں ہوں گے تو یتیم خانوں میں کون آئے یہ وقت یتیموں کی پرورش کے ساتھ یتیم ہونے سے بچانے کا ہے کہیں اسپتالوں کی طرح نہ ہوجائے کہ یتیم زیادہ ہوں جائیں اور یتیم خانہ کم پڑجائیں۔ اسی طرح سے وہ افراد جو علاقوں اور آبادیوں کے حاکم اور ذمہ داران ہیں انہیں سوچنا چاہیے کہ جب عوام نہ ہوگی تو حکومت کس پر کریں گے لہذا ہر فرد کا وظیفہ ہے کہ ان حالات میں جس سے جو ہوسکتا ہے ایک دوسرے کی مدد کرے ولو اطباء کی ہدایات پر عمل کرکے۔ اگر کوئی انسان اپنے عمل اور کوشش سے کسی شخص کی زندگی واپس ہونے کا سبب بن جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تمام انسانوں کی زندگیوں کو واپس لے آیاہے۔ خدا وند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: مَنْ اَحْيَاهَا فَكَاَنَّمَآ اَحْيَا النَّاسَ جَـمِيْعًا جس نے کسی کو زندگی بخشی گویا اس نے تمام انسانوں کو زندگی بخشی آخر میں اللہ سے دعا ہے کہ پالنے والے سب لوگوں کو اس آیت پر عمل کرنے کی توفیق عطافرما آمین والحمد للہ رب العالمین والسلام 

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .

تبصرے

  • Qamar naqvi IN 14:07 - 2021/05/03
    0 0
    جزاک اللہ واقعا مولانا نے درست فرمایا اسی طرح کے حالات ہیں مگر لوگ غافل ہیں