حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،بہار/ حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید شمع محمد رضوی نے بتایا کہ١ ٤واں ولایت فقیہ کانفرنس دورکاآغازہوا جسمیں عاشقان ولایت نے بڑھ چڑحھکرحصہ لیا،حوزہ علمیہ آیت اللہ خامنہ ای میں ہونے والے معنوی پروگرام کااستقبال کرنے والے میدان ولایت ولایت میں آکرمقالے جات کاآغازکچھ اسطرح سے کیا۔خداوندعالم کی طرف سے انبیائے الہی لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجے گئے ، حضر ت رسول اکرم ۖ بھی خداکی طرف سے مامورہوئے اورخداکے دین کولوگوں تک پہنچایابہت سارے لوگ ان پرایمان لے آئے اورمسلمان ہوگئے ، البتہ ایک گروہ ان کادشمن تھاجس نے اسلا م قبول نہیں کیا، دشمنوں میں سے بعض لوگ کافراورمشرک تھے جنھوں نے کھل کرحضرت کے ساتھ دشمنی کی اوربعض لوگ ایسے تھے جنھوں نے صرف ظاہری طورپراپنے چہروں پردوستی کانقاب ڈالاتھا، دونوں گروہ حضرت رسول اکرمۖ کے ساتھ دشمنی کرتے تھے حضرت رسول اکرم ۖ نے خداکے حکم سے مکہ سے مدینہ ہجرت کی اورمومن اصحاب وانصار کی پشت پناہی سے دینی معاشرہ اوراسلامی حکومت کی بنیادڈالی تاکہ دین کی بہترتبلیغ کرسکیں اوروسیع پیمانے پراس کوپھیلائیں اورعملی طورپرنافذکریں اوردشمنوں کے مقابلے میںمتحدہوکرایک عظیم طاقت بن کرجنگ کریں اورسازش کرنے والوں کوسرکوب کرسکیں۔
معاشرہ کوہمیشہ رہبروحاکم کی ضرورت ہوتی ہے اورلوگ بھی ہمیشہ اسے قبو ل کرتے آئے ۔ اگر معاشرہ میں رہبروحاکم نہ ہوگاتوہرطرف سے ہرج ومرج لازم آئے گا۔عقل وشرع کی بنیادپرمعاشرہ کوایک حاکم ورہبرکی اشدضرورت ہواکرتی ہے ورنہ معاشرہ میں اس کے بغیرہرج ومرج ، قتل وغارت اورفتنہ وفسادبرپاہوگا۔ لہذااگرچہ حاکم فاسدوظالم ہی کیوں نہ ہو، اس سے بہترہے کہ معاشرہ حاکم کے بغیرہو۔حضرت امیرالمومنین فرماتے ہیں : لابدللناس من امیربراکان اوفاجرا۔(نہج البلاغہ، خ٤٠) ہرمعاشرہ کے لئے ضروری ہے کہ اس کاکوئی حاکم خواہ وہ نیک ہویافاجر، البتہ امیرالمومنین فقط معاشرے کے لئے حاکم اورحکومت کے ضروری ہونے کوبیان فرمارہے ہیں لہذااس جملہ سے فاسد حکمرانوں کی تائیدکرنامقصودنہیں ہے۔
بہرحال ہرج ومرج سے بچنے کے لئے ایک امیراوررہبرکاہوناضروری ہے۔ فاسق کی حکومت کے زیرسایہ بھی مومن کوکام کرنے کاموقع ملتاہے۔حضرت رسول اکرمۖ فرماتے ہیں: سلطان ظلوم خیرمن فتن تدوم۔(مستدرک الوسائل، ج١٢، ص١٠٣، ح١٣٦٣٣) ظالم وستمگربادشاہ ان فتنوں سے بہترہے جومعاشرہ میں ہمیشہ رہتے ہوں۔حضرت رسول اکرم ۖ کی ولایت کے سلسلہ میں لوگوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ آنحضرت ۖ کی پیروی کریں کیونکہ آپ خداوندمتعال کے رسول ہیں معاشرتی اورحکومتی مسائل میں بھی لوگوں کے پیشواہیں لہذا لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ اپنے کاموں کومنظم کرنے میں ایک صالح حاکم وپیشواکی پیروی کریں، صالح حاکم کی پیروی تمام لوگوں پرلازمی ہے، اگرکوئی شخص لوگوں کاپیشواہواورصلاحیت وعدالت بھی رکھتاہو، لیکن لوگ اس کی پیروی نہ کریں، کیایہ ردعمل عقلی معیاروں کے مطابق ہے؟ کیایہ طریقہ منطقی ہے ؟ قطعانہیں ہے اورعقلائے عالم بھی اس قسم کے رویہ کی مذمت کرتے ہیں۔
حجة الاسلام والمسلمین مولاناسیدشمع محمدرضوی نے کہا کہ حضرت رسول اکرم ۖ کوحاکم و پیشوا ماننا) مجموعی طورپرلوگوں کے لئے مفیدہے اسی میں لوگوں کی فلاح وبہبوداورترقی مضمرہے لوگوں پربھی فرض بنتاہے کہ وہ ایسے ہی حاکم کی پیروی کریں، کیونکہ اس کی اطاعت خداکی اطاعت ہے(مَنْ یُطِعْ الرَّسُولَ فَقَدْ َطَاعَ اﷲ)(نسائ٨٠) جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ اورخدانے لوگوں کویہ حکم دیاہے کہ میرے ارسال کئے ہوئے انبیاء کی پیروی کریں۔(یَاَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا َطِیعُوا اﷲَ وََطِیعُوا الرَّسُولَ وَلاَتُبْطِلُوا َعْمَالَکُمْ) (محمد٣٣) ایمان والو اللہ کی اطاعت کرواوررسول کی اطاعت کرواورخبرداراپنے اعمال کوبربادنہ کرو۔[ آیاایساہوسکتاہے کہ کوئی خداکامطیع ہولیکن اس کے رسول کامطیع نہ ہو؟ یہ توخداکے حکم کی نافرمانی ہے جوخداکی ولایت کوقبول کرتاہے وہ خداوندعالم کے احکام کے مقابلے میں تسلیم ہوتاہے۔ خداوندعالم نے کاموں کومنظم کرنے اورمعاشرہ کوچلانے اورمسلمانوں کی فکری وعملی ہدایت کرنے کے لئے اپنے پیغمبرۖ کوایسے حقوق واختیارات دے کرمبعوث کیاجن کااوپرذکرہوچکاہے اوریہ اختیارات پیغمبرۖ کے لئے ضروری تھے کیونکہ ان کے بغیرمعاشرہ کی رہبری نہیں کرسکتے تھے۔ اسی چیز کوہم ولایت کے نام سے یادکرتے ہیں یعنی پیغمبرۖ کویہ حق حاصل ہے کہ قوانین بناکران کونافذکریں اورمعاشرہ میں موجودافرادکی زندگی میں تصرف کرسکیں اورلوگوں کےلئے بھی ضروری ہےکہ ان قوانین کوقبول کریں اوران کے مطابق اپنی زندگی بسرکریں۔
حجة الاسلام والمسلمین مولاناسبط حیدرنے کہا کہ مجیدمیں ہم پڑھتے ہیں : (النَّبِیُّ َوْلَی بِالْمُؤْمِنِینَ مِنْ َنْفُسِہِمْ)(ا حزاب٦) بیشک نبی تمام مومنین سے ان کے نفوس کی نسبت زیادہ اولیٰ ہے۔اس کے آیت کے معنی یہ ہیں کہ حضرت رسول اکرمۖ اگرکسی مسلمان شخص یااسلامی معاشرہ کے لئے کوئی حکم دیں تواس کوانجام دیناضروری ہے حضرت ۖ رسول اکرم [ص]حکم فرماتے تھے یاکسی اختلاف کے حل اورکسی نزاع کوخاتمہ دینے میں فیصلہ کرتے تھے توحضرت کافیصلہ فصل الخطاب(آخرفیصلہ) ہوتاتھااس کے بعدلوگوں کویہ حق حاصل نہیں ہوتاتھاکہ کسی دوسرے طریقے پرعمل کریں۔خداوندعالم کافرمان ہے:(وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلاَمُؤْمِنَةٍ ِذَا قَضَی اﷲُ وَرَسُولُہُ َمْرًا َنْ یَکُونَ لَہُمْ الْخِیَرَةُ مِنْ َمْرِہِمْ)(احزاب٣٦) اورکسی مومن مردیاعورت کواختیارنہیں ہے کہ جب خدااوررسول کسی امرکے بارے میں فیصلہ کردیں تووہ بھی اپنے امرکے بارے میں صاحب اختیاربن جائے۔یہی خداورسول ۖ کی ولایت ہے جومسلمان ہونے کی علامت ہے ۔ مقالے جات پڑھنے والوں کی تعدادکثیرتھی جسمیں محققین حضرات نے فرمایا!مذکورہ تحلیل کی بناپرجوشخص پیغمبرۖ کے صریح وواضح فرمان کے برخلاف عمل کرے اورآپ ۖ کے فرمان کونظراندازکرے بلکہ ان کی رائے کے مقابلے میں اپنی رائے پرعمل کرے ، تواس کے مسلمان ہونے میں ضرورشک کرناچاہیے کیونکہ پیغمبرۖ کی اطاعت کاحکم خداوندعالم نے دیاہے ، کیسے وہ شخص مسلمان اورخداپرست ہونے کادعویٰ کرسکتاہے جوخداکے بھیجے ہوئے انسان کے فرمان کو قبول نہ کرے؟ یہ ایسی دوباتیں ہیں جوآپس میں متضادہیں ۔ دینی،اجتماعی، سیاسی، فوجی۔۔۔ وغیرہ تمام مسائل میں پیغمبرۖ کی اطاعت امت مسلہ کی وحدت واخوت کی ضامن ہے اوراسلام ومسلمین کی قدرت کودوسری حکومتوں، مخالف جماعتوں اوردشمنون کے مقابلے میں دوبرابرکرتی ہے ، یہ وہ خصوصیت ہے جومسلمانوں میں حضرت رسول اکرم ۖ کی زندگی کے آخری لمحات تک پائی جاتی تھی اورلوگ چون وچراکئے بغیرحضرت رسول اکرمۖ کواپناالہی اورسیاسی پیشواقبول کرتے تھے اوراس عمل کودین کاایک جزء سمجھتے تھے۔