پیر 10 اگست 2020 - 17:16
انگوٹھیوں کا مالک اور آخرالزمان 

حوزہ/کاش ہمارے اسکالرز، مفکرین اور قوم کے درد مند حضرات مغرب کی ثقافتی یلغار پر کچھ توجہ دیں، لیکن ایسا تو تبھی ہو سکتا ہے جب بعض نمایاں اساتید وعمائدین قوم کو داخلی اور درونی  اختلافی مسائل کے چھیڑنے سے فرصت ملے۔

تجزیہ نگار: مولانا سید نجیب الحسن زیدی

حوزہ نیوز ایجنسی | انگوٹھیوں کا مالک  The Lord of the Rings ایک ایسی ہالیوڈ کی فلم  ہے جو ایک برطانوی مصنف  جے. آر. آر. ٹالکن ٹالکن Tolkien Tolkien کے تحریر کردہ  ایک  انگریزی ناول پر مشتمل ہے  ۔یہ ناول  اصل میں تین کتابوں کی ایک سیریز ہے، جو ٹولکن کے پچھلے کام، ہایبٹ سے جڑا نظر آتا ہے۔

فلم کے ناول کا اجمالی خاکہ : 

ناول کا مرکزی کردار شیطانی جادوگر لارڈ ساؤرن ایک جادوئی انگوٹھی کے طور پر پیش کرتا ہے  جو تمام جادوئی انگوٹھیوں کی سردار ہوتی ہے، اس انگوٹھی کی تخلیق ہے اس لئے ہوتی ہے کہ  اس کی مدد سے باقی جادوئی انگوٹھیوں اور بالآخر وسطی زمین کو فتح کر سکے اور ان  پر اپنی حکمرانی قائم کر سکیں۔

ناول طلسمی انگوٹھیوں کی سردار پر مبنی ایک فرضی داستان ہے۔ جس کے مطابق ایک شیطانی جادوگر لارڈ ساؤرن ایک ایسی انگوٹھی بناتا ہے جو پہلے کی تخلیق کردہ تمام انگوٹھیوں کی سردار ہوتی ہے۔ یہ پہلے کی تخلیق کردہ انگوٹھیاں مختلف گروہوں جن میں انسان، ایلوز اور بونے شامل ہوتے ہیں، کے سرداروں کے ماتحت ہوتی ہیں۔ لارڈ ساؤرن ان سب کو اپنا ماتحت بنانے اور پوری وسطی زمین پر اپنا قبضہ کرنے کے لیے اس انگوٹھیوں کی سردار کو چالاکی سے مورڈور میں چھپا لیتا ہے۔  اور پھر ایک ایک کر کے وسطی زمین کے علاقے لارڈ ساؤرن کے قبضے میں آتے چلے جاتے ہیں۔ یہ دیکھ کے سب لارڈ ساؤرن کو روکنے کے لیے اس سے جنگ کا فیصلہ کرتے ہیں۔ انسانوں اور ایلوز پر مشتمل یہ فوج لارڈ ساؤرن کی فوج سے مونٹ ڈوم کے احاطے میں آخری دفعہ آمنے سامنے ٹکراتی ہے۔ جنگ کے دوران ازیاڈور جو انسانوں کے گروہ کے بادشاہ کا بیٹا ہوتا ہے۔

اپنے باپ کو لارڈ ساؤرن کے ہاتھوں مرتے دیکھ کے اپنے باپ کی تلوار سے لارڈ ساروں کی انگلی کاٹ دیتا ہے۔ یوں لارڈ ساؤرن سے انگوٹھی ازیاڈور کے پاس آ جاتی ہے۔

فلم کا اجمالی تعارف: 

اس فلم کے ہدایت کار  پیٹر یا پطرس جیکسن ہیں ،فلمی دنیا میں یہ ایک بہت  بڑے  پیمانے کا منصوبہ تھا۔ اِن فِلموں کا کُل میزانیہ 285 ملین ڈالر تھا اور اِس منصوبے کوتکمیل تک پہنچانے میں 8 سال لگ گئے جیسا کہ پیشتر ہم  نے بیان کیا یہ  فلم تین سیریز پر  مشتمل ہے۔ تینوں فلموں کو بیک وقت پیٹر جیکسن کے آبائی ملک نیوزی لینڈ میں فلمایا گیا۔ اس فلم کے ذریعہ بظاہر جیکسن نے اپنے وسطی زمین کے مخصوص نظریے کو تکمیل کرنے کی کوشش کی ہے  گرچہ رینڈی کوک کے مطابق جیکسن کا یہ نظریہ دو اور تخلیق کاروں، رے ہیری‏ہاؤسن اور ڈیوڈ لین، کے کاموں سے کافی مشابہت رکھتا تھا۔ چنانچہ، اِس نظریے کو فلمانے کے لیے نیوزی لینڈ کی فوج نے جیکسن کے لیے ایک مخصوص علاقے کو تیار کرنا شروع کر دیا جس کو ہابٹن کا نام دیا گیا۔ عموماً جہاں فلموں میں سیٹ کا استعمال دیکھنے کو ملتا ہے، وہاں مقامی فوج نے اس علاقہ کو اصلی پیڑ پودوں سے بھی سجایا اور اِن کے گرد ایک گاؤں کو بھی فروغ دیا۔ اژد ہوں  کو بھی اس طرح بنایا گیا کہ ان کے پر اصلی چڑیا کے پروں کی مانند کام کر سکتے تھے۔ اِن تین فلموں میں استعمال ہونے والے زرہ بکتروں کی کل تعداد 48،000 تھی اور ساتھ میں 500 کمان اور 10،000 تیر بھی ویٹا ورکشاپ کی زیر نظر بنائے گئے۔
اس فلم کی کہانی ایک شیطان سیاہ راکشس کے ساتھ شروع ہوتی ہے   جس کا نام سورون ہے، جو سیاہ جادو میں مہارت رکھتا ہے. پہلے زمانے کے اختتام میں، سورن نے اس کے شیطانی ماسٹر مورغوت مالکر کے دیوتاؤں کو شکست دی ہے جس کی ا س فلم میں منظر کشی کی گئی ہے .یہ ایک ایسی فلم ہے  جس میں  آدمی، ہابٹ، بونے، ائلف اور اس طرح کی دیگر جادوئی مخلوقات شانہ بشانہ ایک دھرتی پر رہتے ہیں۔ فلم کے عنوان پر مبنی کردار دراصل اِس کہانی کا مرکزی حریف ہے جس کا نام لارڈ ساؤرن ہے۔ اِسکی موت کے بعد اِسکی طلسمی انگوٹھی ایک فروڈو بیگنز نامی ہابٹ کے ہاتھ پڑھ جاتی ہے۔ یہ کہانی اِسی ہابٹ کے سفر کو بیان کرتی ہے اور یہ دکھایا گیا ہے کہ کس طرح اِس وسطی زمین کی شیطانی طاقتوں سے یہ ننھا ہابٹ اپنے دوستوں سمیت لڑتا ہے۔ اس فلم میں جادوئی انگوٹھیوں کو پر اسرار طریقہ سے دکھیایا گیا ہے  اور اسی لئے اس فلم کا نام انگوٹھیوں کے مالک یا حلقوں کے ارباب کے طور پر رکھا گیا کہ  اس میں جادوئی انگوٹھیوں کا ایک بڑا کردار ہے  اس کے تین ادوار ہیں جن میں سے ایک میں جادوئی انگوٹھی کو سورن سے چھین لیا جاتا ہے یہ فلم انسانی تاریخ کے آخری دور کو بیان کرتی  ہے۔

فلم کے سلسلہ سے کچھ اہم نکات : 

• تقربیا ستر کی دہائی سے مغرب  نے آرماگوڈنی  طرز پر فلمیں بنانے کا کام شروع کیا اور ان میں آخری دور کی فیصلہ کن جنگوں کو پیش کرنے کی کوشش کی ، اس قسم کی فلمیں وہ ہیں جو محض آخری دور کے مباحث کی منظر نگاری نہیں کرتیں بلکہ  مغرب اور ہالیوڈ دنیا کے خاص تاریخی نقطہ نظر پر محیط ہوتی ہیں ، یہ ایسی فلمیں ہوتی ہیں جن میں  ہنر برائے ہنر کا مقولہ  انکے معیار کو پرکھنے کی خاطر ہونے والی تنقیدو تحلیل کی بنیاد پر کمزور پڑ جاتا ہے ۔

• جو کچھ ہم   انگوٹھیوں کا مالک  The Lord of the Rings اور  ہیبیٹ میں دیکھتے ہیں  وہ خیر و شر کے درمیان ایک نہائی جنگ کی طرف گریز ہے اور یہ گریز ایسی دنیا میں ہے جو خود ایک ہیولائی شکل میں یا دھویں کی صورت ہے  جسمیں شیطانوں کو طاقت حاصل ہے جبکہ اسک بالمقابل خدا کمزور و ناتواں ہے اور طاقت ور خدا کا کچھ اتا پتہ نہیں ہے ۔ 

• اس ساری جنگ و مار دھاڑ کے ساتھ یہ موہوم امید بھی ہے بہت خاص نسلوں اور قوموں کو چین و سکون مل سکتا ہے جبکہ عام دنیا بے چینی و تباہی میں ہی جینے پر مجبور رہے گی ۔ اس فلم میں ہم ایسی علامتوں کو دیکھتے ہیں جو قومیت ، اور نسل اور سر زمین کو اپنے اعلی ترین  صورت میں پردہ سیمیں پر پیش کر رہی ہیں جبکہ مذہبی مسائل کو اصلی کہانی کے  حاشیوں کی صورت پردہ پر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ 

• امریکی فلمی صنعت میں وہ عناصر  جنکا ہم ہر دن کے گزرنے کے ساتھ تیزی سے مشاہدہ کررہے ہیں اور پہلے سے زیادہ انکا غلبہ ہے وہ یہ افسوسناک بات ہے کہ اس فلمی صنعت میں ان باتوں کو پیش کیا جا رہا ہے جو روز بروز  دین ابراہیمی کے اہم عناصر ، توحید ، نبوت اور معاد سے دور کرنے کا سبب بن رہی ہیں اور ا ن فلموں کو پیش کیا جا رہا ہے جو توحید و معاد پر ایک ضرب کی حیثیت رکھتی ہیں چنانچہ اس فلم میں بھی ایک مقدس دور کے بجائے  ہم دنیا کے خوبصورت و دل آویز مقامات مقامات کی منظر کشی اورایک ایسی سرزمین کو پردہ سیمیں کے ذریعہ ذہن و دل دماغ  اتارنے کی کاوش کا مشاہدہ کرتے ہیں جو  آخرِ زمان سے زیادہ آخری سرزمین کی ترجمان ہے ۔

• یہاں پر اس بات کی یاد دہانی ضروری ہے  صہینونی طرز فکر کے حامل عیسائی  مسیحی اصولوں سے دور ہو جانے والے ایک ایسے فرقے کی حیثیت رکھتے ہیں جنکا عقیدہ ہے کہ پیشین گوئیوں کے مطابق حضرت مسیح ع  کے ظہور کی تمہید کے طور پرعراق پر تصرف انکے ہاتھوں ہوگا ۔

• البتہ ان پیشین گوئیوں  کے علامتی و مبہم متون کے باوجود کہ جنکا ذکر عراق سے متعلق فصل میں  یا بالفاظ دیگر بابل کی فصل میں   سفر «دانیال» و «مکاشفات یوحنا»، کے  اندر واضح طور پر آیا ہے  انکا ماننا یہی ہے کہ عراق پر امریکہ کا قبضہ ظہور حضرت مسیح کا مقدمہ ہے جب کے بالکل واضح ہے کہ طول تایخ میں  عراق پر بارہا حملہ ہوا ہے اور بارہا سرزمین عراق کو مغربی ممالک کی تاخت و تاز کا نشانہ بننا پڑا ہے  لیکن مغربی صہیونی فکر کے حامل عیسائی ان تمام حقائق سے صرف نظر کرتے ہوئے اور عراق پر بارہا مختلف ممالک کی یلغار کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے مظالم پر پردہ ڈالنے کے لئےاس بات  کی تلقین کرنا چاہہتے ہیں کہ گزشتہ دہائی میں امریکہ کا عراق پر حملہ آخری زمانے سے متعلق ہے  

• انگوٹھیوں کا مالک  The Lord of the Rings نامی فلم کو بھی انکے اسی عقیدہ کے تناظر میں دیکھنا چاہیے جو کہ ۵۰ سال پہلے لکھی گئی کتاب سے ماخوذ ہے  لہذا اسکی تحلیل و تبیین بھی اسی عقیدہ کے ضمن میں ہونا چاہیے 

• انگوٹھیوں کا مالک  The Lord of the Rings  ایک ایسی فلم ہے جو کتاب مقدس کے برخلاف  امریکی -صہیونی  آرمگڈونی فکر   کو سینما کے ذریعہ پیش کرے اور آخر الزمان کے سلسلہ سے  امریکی – صہیونی  نظریات کو نچوڑ کر  اس میں اپنے حساب سے رنگ آمیزی کر   اسے ایک نئے فریم میں پیش کرے ایک ایسا فریم اور ایک ایسا چوکھٹہ جس نے مسلمانوں سے مقابلہ کے لئے اپنی تلوار پر دھار تیز کرنا شروع کر دی ہے ۔  

• افسوس کی بات یہ ہے کہ ہالیووڈ جہاں مسلسل  دین ستیزی  کے محور تلے یک بعد دیگرے کام کر رہا ہے اور آخر الزمان کو ایک خاص انداز میں اپنی فکر کے مطابق ڈھال کر پیش کر رہا ہے وہیں اسلامی دنیا میں ان مسائل پر بات کرنے پر آج بھی انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں کہ ہمیں ان فلموں سے کیا لینا دینا ، اور یہ بات وہ لوگ کر رہے ہیں جنکے یہاں اس طرح کی فلموں سے لوگ شدت کے ساتھ متاثر ہو رہے ہیں ،لوگوں کے ذہنوں میں اقوال معصومین و سیرہ اہلبیت اطہار علیھم السلام کی گردش کم ہے ان فلموں کے مناظر پردہ ذہن میں زیادہ گردش کر رہے ہیں ،جبکہ ہمارے پاس اس قسم کے کلچر حملوں کا کوئی جواب نہیں ہے جو کبھی فلم کی صورت  ہم پر ہو رہے ہیں کبھی مختلف سیریلز ، شو اور ویڈیو گیمز کی صورت ،کیا یہ افسوس کا مقام نہیں ہے ک ہمارے یہاں پڑھے لکھے مصلحین کی زیادہ تر توجہ  صہیونی و سامراجی سازشوں کو عوام کے سامنے پیش نہ کر کے اس بات پر رہ گئی ہے کہ کس طرح ان لایعنی باتوں کو پیش کیا جائے جنکا عملی کوئی ثمرہ نہیں ہے بلکہ ان کا بیان قوم و معاشرہ میں مسلسل بے چینی و انتشار کا سبب بن رہا ہے ۔

کاش ہمارے اسکالرز، مفکرین اور قوم کے درد مند حضرات مغرب کی ثقافتی یلغار پر کچھ توجہ دیں، لیکن ایسا تو تبھی ہو سکتا ہے جب بعض نمایاں اساتید وعمائدین قوم کو داخلی اور درونی  اختلافی مسائل کے چھیڑنے سے فرصت ملے۔

ریفرنس:

  1. جان رونالڈ روئل ٹولکین (انگریزی: John Ronald Reuel Tolkien) ایک انگریزی مصنف، شاعر، لسانیات کے ماہر اور پروفیسر تھے جنہوں نے دیگر اساطیری قصص پر کام کیا اور اِن کی مشہور ترین کتب میں دی ہابٹ، دی لارڈ آف دی رنگز اور دی سلماریلین شامل ہیں۔
  2. یہ ناول، ٹولکین کے بچوں کے لے لکھی گئی ایک گزشتہ کہانی دی ہابٹ کا تسلسل ہے۔ یہ 1937 سے لے کے 1939 کے درمیان میں لکھی گئی تھی۔ 150 ملین سے بھی زائد نقول کی فروخت کے ساتھ یہ ناول سب سے زیادہ بکے جانے والی کتابوں میں تیسرے نمبر پر آتا ہے۔ ۔ ناول تین جلدوں دی فیلو شپ آف دی رنگ ، دی ٹو ٹاورز اور دی ریٹرن آف دی کنگ پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کا متعدد زبانو میں ترجمہ ہو چکا ہے۔
  3. اِن تینوں فلموں کی کہانی ایک فرضی وسطی زمین پر مبنی ہے ،عالمی فلمی دنیا میں اِن فلموں کو زبردست پذیرائی حاصل ہوئی۔ ہالی وڈ میں 2001ء تا 2004ء انعقاد کردہ سالانہ اکیڈمی ایوارڈز کی تقاریب میں اِن فلموں کو 30 اعزازات کے لیے نمائندگیاں حاصل ہوئیں جن میں سے یہ کُل 17 اعزازات جیت بھی گئیں۔ اِن اعزازات میں محض دی ریٹرن آف دی کنگ کو ہی 11 اکیڈمی ایوارڈ اعزازات حاصل ہوئے۔ اِس طرح بین-ہر اور ٹائٹینک کے شانہ بشانہ یہ فلم اُن فلموں کی فہرست میں شامل ہو گئی جن کو گیارہ (11) یا زائد اعزازات حاصل ہوئے۔ اس سہ المیہ فلمی سلسلہ کو اسکے اختراعی بصری اثرات (visual effects) کے لیے خوب سراہا گیا۔
  4. 1990ء میں جب خلیج کی جنگ جاری تھی اوراسکے بعد عراق جنگ میں بھی عالمی ذرائع ابلاغ سے آرمیگڈون کا ذکر بڑے زور و شور سے ہو رہا تھا، امریکا کے سب سے زیادہ سنے جانے والے مبلغ جیری فال ویل علانیہ کہتے ہیں کہ آخری جنگ ایک خوفناک حقیقت ہے اور ہم سب آخری نسل کا حصہ ہیں۔ فال ویل کہتے ہیں کہ ایک آخری جھڑپ ہو گی اور پھر خدا تعالیٰ اس کرہ ارض کو ٹھکانے لگا دے گا ہال سیل، کتاب خوفناک جدید صلیبی جنگ ،صفحہ 8 آرمیگڈون (انگریزی: Armageddon، عبرانی: מגידו) دنیا کے خاتمے کو کہا جاتا ہے۔ آرمگڈون، آرمیگاڈون اور ارمجدون، ہرمجدون بھی کہا جاتا ہے۔ مسیحیوں کے نزدیک یہ ایک مقدس جنگ ہے جس کی کمان یسوع مسیح خود کریں گے۔ ان کے مطابق اس جنگ میں کم از کم تین ارب انسان ختم ہو جائیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ خیر اور شر کے درمیان یہ خوفناک جنگ فلسطین کے علاقے میں واقع ہو گی۔ ان کے پادری کہتے ہیں کہ خدا کی ہدایت کے مطابق ہمیں اس دنیا کو کلی طور پر ختم کر دینا چاہیے، ان کا عقیدہ ہے کہ یہ جنگ بت پرستوں اور حق پرستوں یعنی مسیحیوں کے درمیان واقع ہو گی۔ واضح رہے کہ بت پرستوں سے مسیحی مبلغین کی مراد مسلمان اور یہودی دونوں ہیں۔ س ضمن میں امریکا کے سابق صدر ریگن کے الفاظ قابل غور ہیں۔ انہوں نے ایک چرچ میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ کم سے کم بیس کروڑ سپاہی مشرق یعنی مسلم ممالک سے آئیں گے جب کہ کروڑوں سپاہی مغربی طاقتوں کے ہوں گے، سلطنت روماکی تجدید و قیام کے بعد پھر عیسیٰ مسیح ان مشرقی افواج پر حملہ کریں گے، جنہوں نے ان کے یروشلم کو غارت کر دیا ہے۔آرمیگڈون کی جنگ کے موضوع پر اس وقت لاکھوں نہیں کروڑوں کے حساب سے کتابیں فروخت ہو رہی ہیں۔ آنجہانی کرہ ارض (The Late Great Plannet) نامی کتاب مصنفہ ہال لینڈسے کی اب تک دو کروڑ پچاس لاکھ کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔ ایک اور بڑے مصنف Tim Lahaye کی کتاب کی تیس لاکھ سے زائد کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔ ایک ہفت روزہ اخبار کے ایڈیٹر نے بتایا کہ ان کتابوں کی مقبولیت سے اندازہ ہو تا ہے کہ وہ مسیحیوں سے نکل کر سیکولر افراد میں بھی پہنچ گئی ہیں۔ اس نے لکھا ہے کہ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کتابیں ہمارے کلچر پر بھی حاوی ہو گئی ہیں۔

 نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .