۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۴ شوال ۱۴۴۵ | Apr 23, 2024
مولانا تقی عباس رضوی

حوزہ/ نائب صدر اہل بیت علیہم السلام فاؤنڈیشن: سوشل میڈیا پر لنگڑاتا سچ اور دوڑتے جھوٹ سے ہندوستان کا ہر شہری بخوبی واقف ہوگا اور وہ کچھ اور نہیں بلکہ دی کشمیر فائلز نامی فلم ہے جس کا ملک میں ایک ہنگامہ ہے اور یہ فی الوقت سوشل میڈیا کا ٹاپ ٹرینڈ مسئلہ بنا ہوا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،نائب صدر اہل بیت علیہم السلام فاؤنڈیشن حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا تقی عباس رضوی کلکتوی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ سوشل میڈیا پر لنگڑاتا سچ اور دوڑتے جھوٹ سے ہندوستان کا ہر شہری بخوبی واقف ہوگا اور وہ کچھ اور نہیں بلکہ دی کشمیر فائلز نامی فلم ہے جس کا ملک میں ایک ہنگامہ ہے اور یہ فی الوقت سوشل میڈیا کا ٹاپ ٹرینڈ مسئلہ بنا ہوا ہے۔

انہوں نے اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ کشمیری پنڈوں کے نوحہ و الم سے ایک پوری تاریخ بھری پڑی ہےجس سے ہر منصف مزاج اور صاحب دل کو ہمدردی اور افسوس ہے یہ بات بھی سچ پر مبنی ہے کہ ظلم و تشدد کا کوئی جنس نہیں ہوتا، مگر!

مظلوم کے ساتھ ہمدردی انسانیت کی علامت و دلیل ضرور ہے

مولانا موصوف نے کہا کہ فی الوقت ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں سوشل میڈیا پر گشت کرتا یہ مسئلہ دی کشمیر فائلز جس کا مقصد ،سچ سے پردہ اٹھانا، بے گھر و وطن افراد سے ہمدردی اور ان کی مدد کرنا نہیں ہے بلکہ سیدھے سادھے لوگوں کی ایموشنل بلیک میلنگ اور ملک میں فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دینا ہے۔

اگر فلم ہی کے ذریعہ سماج کو بیدار کرنا ہے تو موب لنچگ اور ہجومی تشدد میں مارے جانے والے افراد کی فائلز بھی عوام کے سامنے پیش کرنی چاہئے، گودرا کانڈ اور مساجد پر حملے اور ان جیسے سینکڑوں واردات خاص کر مسلم خواتین کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کردینے والی شرمناک حالیہ فائلز بھی سامنے آنی چاہیے تھی، جس کی افسوسناک رنجیدہ خاطر کردینے والی فائلیں در حقیقت ہندوستان جیسے سیکولر ملک کے ماتھے پر کلنک اور بدنما داغ ہیں۔

یہ وہی ملک ہے جو کبھی صوفی سنتوں کی آماجگاہ رہا ہے اور گنگا جمنی تہذیب کا سنگم رہا ہے ۔جہاں مختلف مذ اہب کے ماننے والے ساتھ ساتھ رہتے تو وہیں ایک دوسرے کے خوشی و غم میں برابر کے شریک ہوتے آئے ہیں مگر افسوس آج اسی ملک میں فلم اور آرٹ کے نام پر اپنی ناکامی چھپانے کی غرض سے نفرت اور ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کی خطرناک روش کو ہوا دینے کی کوشش کی جارہی ہے جو در واقع ملک کے آئین کی خلاف ورزی ہے، جمہوریت کی توہین ہے، ناانصافی ہے، ملک کی اقلیتوں کے ساتھ وشواس گھات ہے۔

انکا کہنا تھا کہ اس فلم کو دیکھنے کے بعد وزیراعظم کو خود سوچنا چاہیے کہ سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس جیسا دیا گیا نعرہ کیسے کامیاب ہوگا کیونکہ کسی کے جذبات کو مجروح کرکے اس کا دل نہیں جیتا جاسکتا، کسی کے ساتھ تعصب اور نا انصافی کرکے اس کا اعتماد حاصل نہیں کیا جاسکتا، کسی کو تکلیف پہنچا کرکے اسے خوش نہیں رکھا جاسکتا یعنی مذکورہ نعرہ کی کامیابی کے لئے انصاف ضروری ہے تبھی ملک و ملت کا بھلا ہوگا۔

یہ کہنا حق بجانب ہے کہ موجودہ دور میں پوری دنیا میں بالخصوص ہمارے ملک ہندوستان میں ڈراموں، فلموں، اشتہارات اور مارننگ شوز وغیرہ کے نام پر معاشرے میں دین بیزاری، اخلاق باختگی اور شرم و حیا کے سائبان میں سوراخ کرنے کی جو کوشش کی جارہی ہیں وہ کسی سے کب پوشیدہ ہے؟۔

اس کا اندازہ ایک فرانسیسی رسالے ”لے موند ڈپلومیٹ “میں شائع شدہ مضمون سے ہوسکتا ہے جس میں یہ واضح طورپر لکھا گیا ہے :
اسلام کے خلاف جنگ صرف فوجی میدان میں نہیں ہوگی بلکہ ثقافتی اورتہذیبی میدان میں بھی معرکہ آرائی ہوگی۔“ امریکی فلمی مرکز ہالی ووڈ اسلام مخالف سازشوں کا مرکز گردانا جاتا ہے۔

ایک صدی سے زائد مدت سے یہاں فلموں کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت و کدورت، بغض وکینہ پوری دنیا میں پھیلایا جا رہا.... جو نہایت ہی تشویشناک لمحہ فکریہ تھا ہی اب اسی راہ پر ہندوستان کا بالی وڈ بھی چل پڑا ہے!
جس فلم انڈسٹری کا سفر 7 جولائی 1896ء کو بمبئی کے ایک واٹسن ہوٹل سے ہوا تھا اب وہ سارے ہندوستان میں ہی نہیں ساری دنیا میں اپنا دبدبہ چھوڑ چکا ہے اور اپنی عارضی ترقی، ذاتی مفادات، کثیر کمائی اور زیادہ سے زیادہ منافع خوری میں ایسی فلمیں بنا رہا ہے جو اب صرف سماج میں فحاشی و بے حیائی ،عریانی و انارکی کو فروغ اور مذهبی فرقہ واریت، تعصب، ایک دوسرے کے مقدسات کی توہین اورشہوت انگیزی کو ہوا دینے پر مبنی مواد پر مشتمل ہوتی ہیں اسی منصوبہ بند سازشوں کا ایک حصہ حالیہ شائع ہونے والا ایک ٹریلر ہے جس میں بین الاقوامی شخصیت حضرت آیت اللہ خمینی طاب ثراہ کی تصویر شدت پسندوں کے ہاتھوں میں غالباً دکھا کر ایک پاکیزہ اور آقاقی ہستی کو داغ دار کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔

یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ ہمارے معاشرے میں آج جو کچھ ہورہاہے، اس کی بہترین عکاس یہ فلمیں ہیں، فلموں میں معاشرے کے مسائل اتھانے چاہئے مگر ایسے مسائل جس سے کسی ایک کومنٹی یا کسی خاص مذہب کی دل آزاری یا مذہبی شخصیات کی توہین ہرگز نہ ہو۔

ایسی فلمیں اور ایسے فلم ساز جو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے عوض معاشرے کو برائیوں اور فرقہ واریت کی دلدل سے نجات دلانے کے بجائے اسے اس گندگی میں غرق رکھنے کی خواہشمند ہیں تو انہیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ وہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کی بلندی اور ترقی نہیں بلکہ ان کی پستی اور تنزلی کی دلیل ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .