۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
News ID: 391098
8 جون 2023 - 15:50
فلم

حوزہ/ کشمیر فائلز اور کیرلا اسٹوری کے بعد اب 72 Hoorain اور Ajmer 92 کی ریلیز کے چرچے سوشل میڈیا میں گرما گرم بحث کے موضوع بنے ہوئے ہیں۔یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے ،وہی پرانی نفرتوں کی تجارت ہے۔بقولے ’’نیا جال لائے پرانے شکاری‘‘۔

تحریر: حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا علی حیدر فرشتہ
حوزہ نیوز ایجنسی | عزیزان گرامی ! یہ حقیقت کسی پر مخفی نہیں ہے کہ ہندوستانی فلمیں کبھی کسی زمانہ میں پیار ومحبت، حسن معاشرت، گنگا جمنی تہذیب و ثقافت کی آئینہ دار ہوا کرتی تھیں، مگر ہزار افسوس بدلتے ہوئے زمانوں کے ساتھ جہاں شہروں، گلیوں، سڑکوں وغیرہ کے نام بدل گئے وہیں کچھ فلم سازوں کے دل و دماغ بھی بدل گئے ہیں جن کی وجہ سے ہندوستانی فلم گویا ظلم اور طوفان و بد تمیزی کی فیکٹری بن گئی ہے۔اس میں سب سے بڑا تشویشناک و حیرتناک پہلو یہ ہے کہ سرکار کی طرف سے ان کو داد ودہش اور کھلی چھوٹ ملتی ہے۔

کشمیر فائلز اور کیرلا اسٹوری کے بعد اب 72 Hoorain اور Ajmer 92 کی ریلیز کے چرچے سوشل میڈیا میں گرما گرم بحث کے موضوع بنے ہوئے ہیں۔یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے ،وہی پرانی نفرتوں کی تجارت ہے۔بقولے ’’نیا جال لائے پرانے شکاری‘‘۔

نیا جال لائے پرانے شکاری

مگر یاد رہے کہ چودہ سو سال سے اسلام کے پیروکاروں پر عرصۂ حیات تنگ کرنے کی سازشیں اور کوششیں مسلسل جاری ہیں مگر اسلام اور مسلمان لومۃ لائم کی پروا کئے بغیر پھلتے ،پھولتے اور پھیلتے ہی جارہے ہیں۔مسلمانوں کوخدا کی ذات پر بھروسہ ہے:۔ملک خدا تنگ نیست پائے گدا لنگ نیست۔

ظالم حکمرانوں اور حکومتوں ،نفرت کے سوداگروں کا انجام دنیا کے سامنے ہے۔خواجہ حیدر علی آتش ؔ نے کیا خوب اشارہ فرمایا ہے:۔نہ گور سکندر ،نہ ہے قبر دارا ۔ مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے۔

ان مختصر الفاظ کے ساتھ ہم مجمع علماء و خطباء حیدرآباد دکن کی جانب سے سابقہ نفرت آمیز و اشتعال انگیز ’’ دی کشمیر فائلز‘‘ ،’’دی کیرلا اسٹور ی‘‘ وغیرہ کی طرح ’’۷۲ حوریں ‘‘ اور ’’اجمیر ۹۲ ‘‘ کی بھی سخت مذمت کرتے ہیں ۔اور حکوت ہند سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جس ملک میں دیوی دیوتاؤں کی نامناسب و نازیبا پینٹنگ بنانے والوں کے خلاف کڑا مواخذہ کیا جاتا ہے اسی طرح ان فلموںں کے خلاف بھی سخت قانونی اقدام کیا جائے۔اور ساتھ ساتھ ہم مسلمان قوم خاص کر مسلمان فنکاروںسے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ ہر حال میں صبر و تحمل سے کام لیں اور جذبات پر قابو رکھیں،کیونکہ نفرتوں پر مبنی فلمیں بنانے والے ذہنی دیوالیہ پن کے شکار ہیں انھیں جب پیغمبر اسلام اور اسلامی مقدسات کے خلاف فلم سازی ،خاکہ نیویسی وغیرہ سے سوائے ذلت و رسوائی کے کچھ حاصل نہیں ہوا تو اب مسلم سماج و معاشرہ کو بدنام کرنے کے لئے بغض و عناد کی الٹی (قے )کررہے ہیں۔

’’72 حوریں ‘‘ اور ’’اجمیر 92 ‘‘ مذکورہ فلموں کے نام کےانتخاب ہی سے فلمسازوں کی بد دماغی ، بدہضمی ،بد نیتی اور بد اخلاقی کی نشان دہی ہوتی ہے۔ ’’۷۲حوریں ‘‘ شاید اسلام میں شہید کو جنت میں ۷۲ حوریں ملنے کا جو اجرو ثواب بیان ہوا ہے اس سے حسد و جلن کی غماز ہے؟یا سورہ رحمٰن کی ۷۲ویں آیت میں ’’ یعنی حوریں قیام پذیر ہوں گی خیام میں‘‘جو حوروں کے صفات بیان ہوئے ہیں ان کے متعلق بد عقیدگی و بدگمانی اور مضحکہ خیزی کا اظہار ہے۔

’’اجمیر 92 ‘‘ شاید خواجہ اجمیری ؒ کی شان میں گستاخی یا ۹۲ محمدؐ کے اعداد ہیں تو یہ پورا فلمی نام پیغمبر اسلام (ص) کی شان میں اہانت کی عکاس ہے، اس کو کہتے ہیں اندھوں کو اندھیروں میں بہت دور کی سوجھی۔

ان شاء اللہ یہ امن و انسانیت کے دشمن عقل کے اندھے دنیا میں بھی اندھے ہیں اور آخرت میں بھی اندھے رہیں گے۔جو بھی ہو ہم ہر حال میں ان فلموں پر پابندی کا مطالبہ کرتے ہیںکیونکہ یہ معاشرہ میں نفرت و زہر گھولنے والی ہیں۔فقط، والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

عرض پرداز
حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا علی حیدر فرشتہ
بانی و سرپرست اعلیٰ مجمع علماءوخطباء حیدرآباد دکن
تاریخ: ۸؍جون ۲۰۲۳ء

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .